عمران احمد سلفی
عالمِ اسلام کے جلیل القدر مفتیِ اعظم، امامِ خطبۂ حج، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ رحمہ اللہ اپنے ربِّ کریم کے حضور حاضر ہوگئے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ اور روح کو تڑپا دینے والا لمحہ ہے۔ زمین سے اللہ کے برگزیدہ اور نیک بندوں کا اٹھتے جانا خیر کی علامت نہیں۔
انبیاء کے وارث، علم و ہدایت کے چراغ آہستہ آہستہ بجھتے جارہے ہیں، اور ہم تنہائی کی اس وادی میں داخل ہوتے جارہے ہیں جو قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 23 ستمبر2025 نمازِ ظہر سے قبل یہ امام امت زاہد و تقویٰ، سنتِ نبوی کے عامل اور علم و فضل کے مینار، اپنے رب کے حضور لبیک کہتے ہوئے دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
1943ء میں پیدا ہونے والے اس مردِ مومن نے 81 برس کا بھرپور، باعزت اور سراپا دین سے وابستہ سفر طے کیا۔ شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے مسلسل 35 برس تک مسجد نمرہ میں خطبۂ حج ارشاد فرمایا ۔ آپ کی آواز میں وہ سوز اور صداقت تھی کہ پورا عالمِ اسلام توحید کے پیغام اور رسولِ اکرم ﷺ کی آخری وصیت کو تازہ محسوس کرتا۔
اپنے خطبات میں آپ مسلم حکمرانوں کو جھنجھوڑتے، انہیں دولت اور قوت کو مغرب کے شکنجے سے نکال کر امت کے اتحاد پر صرف کرنے کی تلقین کرتے۔ آپ فرمایا کرتے:"اگر امتِ مسلمہ نے وحدت اختیار نہ کی اور اللہ کی طرف لوٹ نہ آئی تو کفار ہمارے گھروں تک پہنچ جائیں گے۔"اللہ کی مشیت تھی کہ بیس برس کی عمر میں آپ بینائی سے محروم ہوگئے، مگر یہ محرومی چراغِ علم و حکمت کی روشنی بجھا نہ سکی۔
61 برس تک قرآن و حدیث، تدریس و فتویٰ اور خطبہ و رہنمائی کے ذریعے آپ نے دینِ حق کی بے مثال خدمت کی۔ لاکھوں طلبہ نے آپ کے فیض سے علم حاصل کیا۔ علما کے منصب پر فائز ہوئے اوردنیا بھر میں دین کی اشاعت میں مصروف رہے۔آپ کے استاتذہ میں امام العصر، مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ انہی کے بعد آپ کو سعودی عرب کا مفتیِ اعظم نامزد کیا گیا اور آپ نے اس منصب کو علم و اخلاص کی معراج عطا کی۔
آپ نے فتویٰ نویسی کو محض کتابی مسئلہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے امت کے اجتماعی مسائل کا حل اور رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔حالیہ دنوں میں بھی آپ اہلِ فلسطین کے غم میں ڈوبے رہتے، اور اپنی محبت و تعاون کا عملی ثبوت دیتے۔ آپ نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے اپنی جیب سے بھاری عطیہ پیش کیا اور ان کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کیا۔ آپ نے ہر موقع پر مسلم امہ کو یاد دلایا کہ بیت المقدس صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری امت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔
شیخ محترم نے ریاض و مکہ مکرمہ میں تعلیم حاصل کی اور معہد و کلّیۃ الشریعہ میں تدریس اور علمی خدمات انجام دیں۔ بے شمار تحقیقی مقالات کی نگرانی فرمائی۔ آپ کی کئی کتب اور فتاویٰ امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ "الفتاویٰ الدّائمہ" اور دیگر مجموعے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی دقّتِ نظر کا پتا دیتے ہیں۔آپ کا شمار ان خطباء میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے زیادہ مرتبہ خطبۂ عرفہ ارشاد فرمایا۔
کئی عظیم ہستیوں، جیسے امام ابن حجر، امام ابن البر اور صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ کی طرف سے حجِ بدل بھی ادا کیا۔ یہ اعزاز اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو ماضی کے اسلاف کے ساتھ ایک روحانی ربط عطا ہواتھا۔آپ کے وصال پر پورے عالمِ اسلام میں غم کی فضا چھا گئی۔ ریاض کی جامع مسجد ترکی بن عبداللہ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ آپ کے صاحبزادے نے پڑھائی اور بیت اللہ، مسجد نبوی اور سعودی عرب کی تمام مساجد میں غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام ہوا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 26ستمبر جمعہ کے روز یہ فریضہ ادا کیا گیا۔ شیخ محترم کے جنازے کے وقت لاکھوں آنکھیں اشکبار تھیں، اور ہر دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ ایک سچا عظیم عالمِ دین رخصت ہوگیا۔پاکستان کے جید علمائے کرام نے بھی آپ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔
ان میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمدتقی عثمانی، اہلحدیث عالم دین مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی، علّامہ پروفیسر ساجد میرؒ، مولانا فضل الرحمان، محدث العصر علامہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی، سید منور حسن مرحوم، علّامہ ڈاکٹر ہشام الٰہی ظہیر، مولانا عبدالعزیز نورستانی، علامہ ابتسام الہٰی ظہیر ،مولانا حافظ عبد الکریم، مولانا شفیق پسروری و دیگر شخصیات شامل ہیں۔ ان سب نے شیخ کے علم و تقویٰ، سادگی اور شفقت کو اپنی یادداشتوں میں زندہ رکھا ہے۔
یہ واقعہ بھی شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ رحمہ اللہ کی عظمت اور امت کے قلوب میں ان کی محبت کی ایک جھلک ہے کہ خود سعودی عرب کے حکمران، بادشاہ اور ولی عہد آپ سے نہ صرف رہنمائی حاصل کرتے تھے، بلکہ آپ کی مجلس میں بیٹھنے کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ۔ مختلف مواقع پر جب حکمران آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ آپ کے سامنے بیٹھتے، امت کے اجتماعی مسائل پر آپ سے مشورہ کرتے اور اپنی ذاتی و حکومتی زندگی میں بھی آپ کے ارشادات کو راہنما اصول سمجھتے۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ حاکم وقت نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور آپ کے ہاتھوں کو احترام کے ساتھ تھاما۔ ان لمحات میں ہر شخص یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتا کہ دنیاوی اقتدار اور بادشاہی رکھنے والا شخص بھی اس جلیل القدر عالمِ دین کے سامنے ایک عاجز شاگرد کی طرح بیٹھا ہے۔ ان کے چہروں پر مسرت اور قلب میں اطمینان جھلکتا تھا، گویا وہ آپ کی صحبت کو اپنی روحانی توانائی اور نصرتِ الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہوں۔
بادشاہوں کی یہ کیفیت دراصل اس بات کا عملی ثبوت تھی کہ شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ محض ایک مفتی یا عالم نہیں تھے، بلکہ وہ امت کے دلوں کے بادشاہ تھے۔ حکمرانوں کے لیے آپ کی رہنمائی سیاسی مصلحت یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران آپ کی باتوں میں ایک ایسی سچائی اور وزنی دلیل محسوس کرتے جو ان کے دلوں پر اثر کرجاتی۔یہ منظر امتِ مسلمہ کے لیے بھی سبق ہے کہ عزت و وقار علمِ دین سے وابستہ رہنے میں ہے، نہ کہ دنیاوی تاج و تخت میں۔ حاکم وقت کا آپ کے چہرے کو بوسہ دینا اس بات کا اعلان تھا کہ حقیقی قیادت اور اصل مرجعیت ،انبیاء کے وارث علماء ہی ہیں۔
اللہ کی توفیق سے سعودی حکومت نے نئے مفتیِ اعظم کے طور پر شیخ صالح عبداللہ بن حمید حفظہ اللہ کو جو مجلس شوریٰ کے اسپیکر اور امامِ حرم ہیں ان کو مقرر کیاہے۔ اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قیادت میں امت کو مزید بلندی، اتحاد اور خیر عطا فرمائے۔
شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ ؒکی رحلت اس حقیقت کو پھر تازہ کرتی ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، مگر ان کے چھوڑے ہوئے علم، فتاویٰ، خطبات اور تلامذہ، قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے، فرشتے آپ کا استقبال کریں، آپ کو اپنے مقربین میں جگہ دے اور نبی کریم ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ (آمین یا ربّ العالمین)