• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معاشرے میں مسجد کی دینی اور معاشرتی اہمیت

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

رسول اللہﷺ نے اسلام کو بحیثیت ایک دین کامل، مکمل نظام حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تو یہ بتایا کہ پوری انسانی زندگی اور اس کی سرگرمیاں دینی علامات رکھتی ہیں اور اس نظام حیات کے تربیتی و تعمیری پروگرام کے لئے ایک مرکز کی ضرورت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ 

قرآن و سنّت نے اس مرکز کو ’’مسجد ‘‘کا نام دیا۔ یعنی ’’ ہر وہ جگہ جہاں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہوتی ہے ‘‘ اسی لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ زمین میرے لئے مسجد اور طاہر بنائی گئی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم) 

قرآن کریم نے ’’اور یہ مساجد صرف اللہ ہی کے لیے ہیں‘‘ کہہ کر ان کی مرکزیت کو قائم کر دیا اور یہ مراکز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دین اور دنیا دونوں کے مسائل کو حل کرنے اور انسان کو اپنے خالق سے وابستہ کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ اسلامی زندگی اور اسلامی عبادات میں ’’مسجد‘‘ کے نام سے ہر مسلمان پیدا ہوتے ہی روشناس ہو جاتا ہے۔ اسلام نے تکمیل انسانیت کے لئے اولاد آدم کی نیابت الٰہی کو معیار بنایا اور امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کے لئے کچھ فرائض اور ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔ 

مسجد مسلمانوں کی انہی اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ایک مرکزی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں نہ صرف اللہ کے بندے اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز نظر آتے ہیں، بلکہ جہاں سے اسلامی زندگی کی گو نا گوں مصروفیات کے لئے ہر قسم کی مادی، اخلاقی اور روحانی ہدایات بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔

’’ مسجد ‘‘ کی یہ ازلی حیثیت انبیائے کرامؑ کے ابتدائی سلسلے ہی سے قائم ہوگئی تھی۔ چناچہ خانۂ کعبہ کو ’’وہ پہلا گھر جسے لوگوں کی اجتماعی عبادت کے لئے بنایا گیا‘‘ کہہ کر مسجد کے اولین تصور کو واضح کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ کی آزمائشوں اور مصائب کے بعد مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ طیبہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ کر ملّت اسلامیہ کی اجتماعی زندگی کا سلسلہ قائم کیا تو اس کے لئے سب سے پہلے مسجد ہی کی بنیاد رکھی۔ 

قرآن و حدیث میں مسجد سے متعلق تفصیلی احکامات بیان ہوئے ہیں۔ ان احکامات میں ’’مساجد کا رخ خانۂ کعبہ کی جانب کرنے، اجتماعی زندگی کے لئے جماعت کا قیام اور اللہ کے علاوہ کسی کا خوف دل میں نہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مساجد قرآن کی تلاوت و اللہ کا ذکر کرنے، تبلیغ و تز کیہ نفس، حکمت و دانائی کی باتیں کرنے کی جگہ قرار دی گئیں۔ (سورۃ البقرہ) 

اسی طرح سورۂ نور میں ’’مساجد کی تعظیم ان میں اللہ کی یاد اور صبح وشام تسبیح الٰہی کے احکام دئیے گئے ہیں۔ دنیا کی الجھنیں ، کاروبار، مصروفیات اپنی جگہ، مگر مسجد وہ مقام ہے جہاں مومن کشمکش حیات کے لئے اللہ کی یاد سے بہتر قوت اور روحانی مدد حاصل کرتا ہے۔

اسلام میں مسجد کا تصور وہ نہیں ہے جس کا مشاہدہ ہم آج اپنے دور میں کر رہے ہیں۔ اسلام میں مسجد اپنے معاشرتی وجود میں ایک ایسے دھڑکتے دل کی حیثیت رکھتی ہے جو اگر حرکت کرنا بند کر دے تو پورا معاشرتی وجود بے جان ہو جائے ۔ اگر اس کے اندر حرکت اور تازگی و زندگی ہو تو پورا معاشرہ زندہ پائندہ ، صحت مند و طاقتور بن جائے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلا جو سرکاری یا ریاستی حکم جاری کیا وہ ’’مسجد نبوی ؐکی تعمیر کا تھا۔ 

کھجور کی جھاڑ، گارے مٹی پتھر سے بنی یہ عظیم و مقدس مسجد محض آج کے زمانے کی طرح ایک پُر شکوہ عمارت نہیں تھی جو صرف پنج وقتہ نماز کے لئے کھولی جاتی اور نماز کے بعد اس پر تالا لگا دیا جاتا ہو۔ بلکہ مدینے کا پورا معاشرہ اس مسجد کے گرد گویا طواف کرتا تھا۔ مسلمانوں کی طویل تمدنی اور معاشرتی زندگی میں مسجد کی حیثیت بہت اہم رہی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے موجودہ دور تک مسجد کا ادارہ بعض اہم تبدیلیوں سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ ہر چند کہ اب اس کی وہ حیثیت نہیں رہی جو اسے ابتدائے اسلام میں حاصل تھی، تاہم مسلمانوں کی پوری زندگی پر اس کی گہری چھاپ رہی ہے۔ اسلام یا مسلمانوں کے ہاں مسجد کی وہ حیثیت نہیں ہے جو دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی ہے۔ اسلامی معاشرے میں مسجد مختلف اعتبار سے مرکزی حیثیت کی حامل رہی ہے اور اس کی اس حیثیت میں خصوصاً مرکز عباد ت، سیاسی مرکز، انتظامی مرکز ، عدالتی مرکز اور تعلیمی مرکز جیسے امور کو بنیادی حیثیت اور اہمیت حاصل رہی ہے۔ 

اس کی دو وجوہ ہیں اولاًیہ کہ مسلمانوں کے نزدیک رہنمائے اول رسول اللہ ﷺ کا اُسوۂ حسنہ زندگی کے تمام گوشوں اور امور میں واجب الاتباع ہے اور آپ ﷺ نے اپنے طرز زندگی میں مسجد کو مرکزی حیثیت دے رکھی تھی اور آپ کے ہر ہر کام میں مسجد کا عمل دخل واضح نظر آتا ہے، اس لئے مسجد کے ساتھ آپ ﷺ کی اس گہری وابستگی نے مسلمانوں کی زندگی کے پورے ماحول کو مسجد سے وابستہ کر دیا۔ 

ثانیاً اسلام کی انتظامی انفرادیت یعنی اسلام مومن کی پوری زندگی کو اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ﷺ کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔ ان تمام اعمال کی بنیاد اخلاق ہیں اور مسجد چونکہ دین و اخلاق کی علامت ہے، لہٰذا اسے مرکز بنا دینے کے معنی یہ ہیں کہ پوری زندگی اخلاقی رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔ گو کہ سیاسی زوال اور اخلاقی انحطاط کے باعث مسجد کی یہ حیثیت اب بر قرار نہیں رہی، لیکن قرنِ اوّل میں یہ بہت نمایاں تھی ذیل میں ہم مسجد کی ان حیثیتوں کا مختصر جائزہ لیں گے۔

(i)۔ مرکز دین یا مرکز عباد ت کی حیثیت سے مسجد کی سب سے بڑی خصوصیت نظام صلوٰۃ کا قیام ہے جس میں دن میں پانچ مرتبہ اجتماعی نماز اور اس کے ساتھ ہی جمعہ کا ہفتہ وار اجتماع، جسے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز باجماعت و جمعہ کی جو فضیلت آئی ہے اس سے مسجد کی یہ حیثیت واضح ہو جاتی ہے۔

(ii)مسجد کی مذہبی و معاشرتی حیثیت سے انکار ممکن ہی نہیں، سیاسی انتظام چونکہ دین کا لازمی جزو تھا، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیاسی زندگی کی اہم ترین گفتگو ، معاہدے، جنگوں کے فیصلے مسجد نبوی ہی میں کئے جب بھی کسی اہم سیاسی یا جنگی معاملے کی طرف توجہ دلانا ہوتی تو بھی مسجد ہی میں خطبہ ارشاد فرماتے۔

(iii) مسجد کی عدالتی اور انتظامی مرکزیت بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دو چیزیں بہت زیادہ اہم تھیں۔ ایک بیت المال کی تنظیم، عہد رسالت میں مال کی تقسیم ، ہنگامی حالات میں رقم کی فراہمی، غرباء کی امداد اور انتظامی امور سے متعلق تمام معاملات مسجد نبوی ہی میں طے ہوتے، دوسری اہم چیز شکایات کا ازالہ اور خصومات کا فیصلہ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قانونی مسائل اور عدالتی مقدمات کا فیصلہ مسجد ہی میں فرمایا کرتے۔ گویا مسجد نبوی اسلامی ریاست کا سیکریٹریٹ تھا، مسجد کی یہ دینی و مذہبی، انتظامی، مالی اور عدالتی حیثیت مسلمانوں کے درمیان کئی سو سال تک باقی رہی۔

(iv) گردش زمانہ سے مسلمانوں کی حالت بدلتی رہی ہے، اس کی وجہ سے نظام مساجد بھی متاثر ہوا اور اس میں اہم تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔ مسجد کی سیاسی، انتظامی، مالی اور عدالتی حیثیت کم ہوتی چلی گئی ،لیکن مسجد کی جن حیثیتوں پر کوئی اثر یا فرق نہیں پڑا، وہ اس کی دینی اور تعلیمی مرکزیت ہے۔ 

زوال پذیر دور میں بھی لوگ نماز کے لئے روزانہ پانچ وقت، جمعہ اور عیدین کے دن مساجد ہی میں جمع ہوتے رہے۔ اسی طرح تعلیمی سلسلے کا آغاز بھی مسجد ہی سے ہوتا رہا۔ مسجد کی تعلیمی حیثیت کو اگر نقصان پہنچا تو مغربی اقوام کے تسلط سے پہنچا، جنہوں نے لادینی نظام تعلیم کو رائج کر کے مسجد کی تعلیم کے طریقہ کار کو متاثر کیا۔

اس طرح مسلمان اپنی تعلیم و تربیت میں مسجد سے دور ہوا اور اس پر لادینی رجحانات غالب آگئے۔ ایک لبرل و روشن خیال دانشور کے بقول ’’ جو بچہ ایک مرتبہ مسجد کے تعلیمی اور تربیتی ماحول سے گزر جاتا ہے، اس کے اندر کبھی نہ کبھی خیر کا جذبہ ضرور ابھرتا ہے ‘‘ معلم انسانیت ﷺ کے دور میں مسجد کی تعلیمی حیثیت بالکل واضح تھی اور وہی طرز عمل امت کے لئے مشعل راہ بنا۔ ایک روایت کے مطابق عہد رسالت میں مسجد نبوی میں دو حلقے قائم تھے۔ 

ایک عابد و زاہد صحابہ کا، دوسرا علم حاصل کرنے والوں کا، رسول اللہ ﷺ نے زاہدوں کا حلقہ چھوڑ کر علم حاصل کرنے والوں کے حلقے میں بیٹھنا پسند کیا اور فرمایا ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آ پﷺ کے بعد چار سو سال تک مسجدیں اہل علم سے بھری نظر آتی ہیں۔ 

پانچ پانچ ہزار طلباء مساجد میں علم حاصل کرتے ،جن کے طعام و قیام کا مسجد کی طرف سے بھرپور انتظام ہوتا رہا۔ باقاعد ہ کچن اور ہاسٹل قائم تھے، جنہیں مکتب کہا جاتا تھا۔ مکتب و مسجد ایک ہی چیز شمار ہوتے تھے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مدرسہ نظامیہ سےجامعہ ازہر تک، حسن بصری کی مجلس علمی سے جامع نیشاپور تک مسجد اسی بنیادی اور اعلیٰ تعلیمی مرکز کی حامل رہی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت امّتِ مسلمہ کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کیا مساجد میں ہماری چند منٹ کی نماز اور حاضری سے حل ہوسکتے ہیں ؟ کیا مساجد کے سلسلے میں سنت نبوی یہی رہی ہے؟ اس بارے میں کیا ہم نے کبھی سوچ اور فکر سے کام لیا؟

رسول اللہ ﷺ نے جن امور کی انجام دہی ، سرگرمیوں اور معاملات و مسائل کے حل کے لئے مسجد نبوی کو استعمال کیا یعنی مسجد محراب عبادت، منبر دانش گاہ، علمی مرکز ، نشان اخوت و صداقت وغیرہ، کیا ہم مساجد کو ان مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں یا پھر ہم نے مساجد کو صرف نمازوں کی ادائیگی تک محدود کر دیا ہے۔

اقراء سے مزید