مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے ، کسی بھی سلطنت اور کسی بھی حکمران کے اقتدار کی بقاء کے لیے جو چیز لازم اور ضروری ہے، وہ عدل و انصاف ہے۔ اگر عدل وانصاف، کسی معاشرے ، مملکت ، سلطنت سے اٹھ جائے، کسی حکمران کے اقتدار سےعدل وانصاف ختم ہوجائے ،تو نہ وہ معاشرہ باقی رہ سکتا ہے، نہ وہ سلطنت باقی رہ سکتی ہے، نہ اس حکمران کی حکمرانی اور اقتدار باقی رہ سکتاہے۔
ہمارے دین اور معاشرتی تعلیمات میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔یہ عدل وانصاف حاکم کی طرف سے بھی اپنی رعایاکے لیے ہو، اور رعایا کا آپس میں بھی عدل وانصاف کو قائم رکھنا لازم ہے، گویا یہ اجتماعی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی لازم اور ضروری امر ہے۔
خود نبی کریم ﷺعدل و انصاف کی بالادستی کے لیے کوشاں رہتے، اسلام سے قبل عرب میں جنگوں کا سلسلہ تو زمانے سے جاری تھا، معمولی معمولی باتوں پر سالہا سال تک تلواریں چلتی رہتیں،لوٹ مار بھی عام تھی۔ کتبِ سیرت میں لکھا ہے کہ بعثت نبوی ؐسے قبل اہل مکہ نے باہمی طور پر ایک معاہدہ کیا کہ اب ہم عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کرتے ہیں، اور مظلوموں کی حمایت کریں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتو ہم اسے انصاف دلائیں گے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک تاریخ ساز معاہدہ نامہ تیار کیا تھا، خود نبی کریم ﷺبھی اس معاہدے کا اہم حصہ تھے، یہ معاہدہ "حِلْفُ الفضُول"کے نام سے مشہور ہے، اس وقت رسول اللہ ﷺکی عمر مبارک پندرہ برس تھی ،چنانچہ ذوالقعدہ کے مہینے میں عبداللہ بن جُدعان کے مکان پر یہ معاہدہ طے پایا اور اس میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ہم سب مظلوم کی حمایت و نصرت کا عہد کرتے ہیں، مظلوم کا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ وہ اپنا حق پالے۔
امام بیہقیؒ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺعدل و انصاف کی بالادستی پر مشتمل اس معاہدے کی اہمیت کے پیشِ نظر بعثت کے بعد عہدِ نبوت میں فرمایا کرتے تھے: اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں ہرگز اسے قبول نہ کرتا، اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدے کی جانب بلایا جاؤں ،تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔
قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ کسی قوم سے آپ کی دشمنی ہے، تو اس حال میں بھی، حالانکہ یہ بڑا مشکل کام ہے، اس دشمنی میں بھی عدل وانصاف سے انسانی قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ اندازہ لگایئے کہ کیسی پاکیزہ تعلیمات ہیں۔ اس کی اسلامی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں کہ سخت سے سخت دشمن سامنے موجود ہے مگر مسلمانوں نے اس جانی دشمن سے بھی بے انصافی کا معاملہ نہیں کیا، ایسے کڑے موقع پر بھی عدل کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو ،انصاف کرو ،یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، بےشک، اللہ اس سے خبردارہے۔
اس آیت میں انصاف کو ’’عدل‘‘ سے بیان فرمایا گیا ہے اور عدل کا بہترین اور جامع مطلب اور مفہوم شیخ الاسلام علّامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے یہ ذکر فرمایا ہےکہ : "عدل" کا مطلب یہ ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے ،وہ معاملہ کرنا ،جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔
عدل و انصاف کا ترازو ایساصحیح اور برابر ہونا چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔ یعنی نہ محبت و تعلق آپ کو راہِ حق سے ہٹائے اور نہ عداوت ودشمنی آپ کو انصاف سے پھیر سکے۔بس یہی عدل ہے، یہی انصاف ہے ، جس کا حکم دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺکو سن سات ہجری ، محرم الحرام کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ملا کہ آپ خیبر کی طرف پیش قدمی فرمائیں، اور وہاں جو یہود غدار موجود ہیں، جنہوں نے موقع موقع پر مسلمانوں سے بدعہدی کی، غداری کی، کفار کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہے،ان کے خلاف آپ جہاد کریں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ تقریباً سولہ سو صحابہؓ کے ہمراہ خیبر کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یہود مختلف قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے تھے، خیبر فتح ہوا تو یہود نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہاں سے جلاوطن نہ کریں، ہمیں یہیں رہنے دیں، ہم یہیں زراعت کریں گے، اور جو پیداوار ہوگی، اس کا نصف حصہ آپ کو دیا کریں گے، رسول اللہ ﷺنے ان کے ساتھ اس معاہدے کو قبول فرمایا ور ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت فرمادی: جب تک ہم چاہیں گے تمہیں یہاں رکھیں گے، اور جب ہم چاہیں یہاں سے جلاوطن کردیں۔ اس معاہدے پر اتفاق ہوگیا۔ اب یہ لوگ زراعت کرتے اور آدھا حصہ مسلمانوں کو دیتے۔
ابن ماجہ شریف کی روایت میں ہے کہ جب یہ لوگ زراعت سے فارغ ہوتے اور پیداوار کی تقسیم کا وقت آتا تو اندازہ لگانے اور وصولی کے لیے رسول اللہﷺ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو خیبر بھیجا کرتے۔ یہ وہاں جاکر ان یہودیوں کی اس پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کرتے، اور دو حصوں میں تقسیم کرکے، یہ نہیں کہ اچھی اچھی خود لے لی اور باقی یہودیوں کو دے دی، بلکہ ان کا عدل و انصاف دیکھیے وہ بھی دشمن کے ساتھ، کہ پیداوار کے دو حصے کرنے کے بعد یہودِ خیبر کو اختیار دیتے کہ ان دونوں میں سے جو حصہ تم چاہو ،لے لواور جو چاہو ہمیں دے دو۔ اور ساتھ ہی یہ جملہ ارشاد فرماتے: اے یہود کی جماعت! ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تم مجھے ناپسندیدہ ہو، کیوں کہ تم نے اللہ کے رسولوں کو شہید کیا ہے، اللہ کی ذات پر جھوٹ باندھا ہے، لیکن اس کے باوجود تمہارا بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کرسکتا کہ میں تم پر ظلم کروں۔
یہود جب دیکھتے کہ ایسا عدل وانصاف !وہ بھی ہمارے ساتھ تو بے ساختہ ان کی زبانوں سے یہ جملہ نکلتا تھا: ایسے ہی عدل و انصاف سے آسمان وزمین قائم ہیں۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف اسلامی تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب، آقا وغلام عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن کی کوئی تمیز نہ ہوتی۔
آج ہمارے معاشرے میں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عدل و انصاف اٹھ چکاہے، نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے، نہ حکمران عادل رہے، نہ قاضی عادل رہے، نہ معاشرے کا عام فرد اس عدل و انصاف کے پیمانے پر قائم رہا۔جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکارہیں۔ عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتاہے۔ اس کے بہت سارے مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
کوئی عہدے کی بناء پر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بناءپر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی وڈیرہ ہے تو اسے یہ زعم عدل وانصاف پر قائم رہنے نہیں دیتا، کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال و دولت ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہوکر دوسروں کے حقوق کو پامال کررہا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے، ایک ایسی ذات موجود ہے، جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے، جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ وجلال، رعب و دبدبہ ہیچ ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔
ہمارا مذہب ،ہر ہر فرد کو ، چاہے وہ حاکم ہو ، پھرحاکمِ اعلیٰ سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو، ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے۔اور عدل و انصاف زندگی میں ہر ہر شعبے میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلے کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔
اس لیے رسول اللہ ﷺنے ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، صحیح مسلم کی روایت میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا : وہ لوگ جو انصاف کرنے والے ہیں ،وہ قیامت کے دن اللہ رحمٰن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے، اورحدیث کے آخر میں فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے فیصلوں میں، اپنے متعلقین میں، اور اپنے ماتحتوں، اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے عدل و انصاف سے کام لینے والے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو عدل و انصاف کا گہوارا بنادے، اور ہر ہر فرد کو اپنے دائرہ ٔ اختیار میں عدل و انصاف کا پابند بنادے۔(آمین)