• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غصے پر قابو پانا ایمان اور بندگی کا بنیادی تقاضا

مولانا عبدالمتین

اللہ ربّ العزت نے انسان کو پیدا فرما کر اس میں خیر و شر کے جذبات بھی پیدا فرمائے، تاکہ اس بات کی آزمائش کی جائے کہ انسان اپنے کون سے جذبے کو استعمال میں لاتا ہے اور ان پر کتنا قابو پاتا ہے۔ ان جذبات میں ایک اہم جذبہ ”غصہ“ ہے۔ انسان میں دو عادتیں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں:۱۔پیٹ کی خواہشات۲۔غصے کے جذبات۔

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:وہ لوگ جو تنگی اور خوشی میں خرچ کرتے ہیں اور وہ جو غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مذکورہ آیت میں غصے کے گھونٹ کو پی کر معاف کرنے کا رویّہ اختیار کرنے والے لوگوں کو اللہ ربّ العزت نے اپنا پسندیدہ بندہ قرار دیا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کو ہر طرح کے گھونٹ میں غصے کا گھونٹ پی جانا بہت پسند ہے۔(احیاء ُ العلوم) نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک صحابی مختصر نصیحت کی درخواست کرتے ہیں۔

آپ ﷺفرماتے ہیں غصہ مت کرو! آپ چاہتے تو نماز، روزہ ،زکوٰۃ اورذکر کے حوالے سے کوئی نصیحت فرماتے، لیکن ان تمام کے بجائے غصے سے بچنے کی جو نصیحت کی اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ غصہ فقط ایک معاملہ نہیں، بلکہ غصہ اپنے اندر بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے، اسی لیے علما و صوفیا اسے امّ الامراض کا نام بھی دیتے ہیں۔ 

سیدنا محمد بن جعفرؒ فرماتے ہیں غصہ ہر برائی کی چابی ہے۔ (احیاءالعلوم)  یہ ایک ایسا مرض ہے جو بہت سی برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے بھی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، مثلاً :غصہ اس شخص کو زیادہ آتا ہے جو تکبّر اور بڑائی کے مغالطہ میں مبتلا ہو۔ کوئی شخص کسی کو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر سمجھ کر کبھی بھی اس پر غصہ نہیں کرتا۔ غصہ کی وجہ سے جنم لینے والی برائیاں تو بہت زیادہ ہیں جن میں گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا اور مجبور ہونے کی صورت میں غیبت جیسی بیماریاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔

ہمارے ہاں غصے کو ایک ہوشیاری اور مہارت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً :یہ کہنا کہ مجھ سے ہر بات برداشت نہیں ہوتی، میں تو صاف منہ پر سنادیتا ہوں، میں لحاظ وغیرہ نہیں کرتا، میٹر گھوم جاتا ہے میرا، میری کھوپڑی گرم ہے، وغیرہ۔ یہ سب جملے استعمال کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہت بڑی بات کررہے ہیں، حالانکہ یہ سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں اور وہ ایسے بہانہ باز جملوں کے ذریعے ہمیں غصے میں لاکر اپنےنمائندے کے طور پر استعمال کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا اور ہمارے متعلقین کا نقصان ہوجاتا ہے۔

غصہ صرف ایک عارضی حالت کا نام نہیں، بلکہ یہ بیماری شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ امام غزالیؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں غصے کے وقت صورت بگڑ کر بھیانک بن جاتی ہے، ایسی صورت بنتی ہے جیسے کاٹنے والا کتا اور انسان اپنے مقام سے گر کر خونخوار درندہ بن جاتا ہےجبکہ جو لوگ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں، ان کی صورت علماء، اولیاء اور صالحین سے ملتی ہے۔(احیاء ُالعلوم) غصے میں انسان عقل مندی سے کم عقلی کا سفر پل بھر میں طے کرلیتا ہے۔اسے پتابھی نہیں چلتا جبکہ اس کی عقل کام نہیں کررہی ہوتی۔

انصار کا قول ہے کہ گرم مزاجی بے وقوفی اور کم عقلی کی بنیادی اکائی ہے اور غصہ اس بنیاد کی رہنمائی کرتا ہے، گویا غصہ بے وقوفی کے سفر کو ایک رہنما کی طرح طے کرانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ ”جب تو غصہ کرتا ہے تو اچھلتا ہے، قریب ہے کہ تو کہیں چھلانگ نہ لگادے اور یہ چھلانگ تجھے سیدھا جہنم میں پہنچا دے۔“ حضرت سلیمان بن داؤد ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بیٹا! زیادہ غصہ بُردبار آدمی کو ہلکا کردیتا ہے۔“ (احیاء ُ العلوم) معلوم ہوا کہ غصہ انسان کی شخصیت میں فقط ضد، جہالت، انا پرستی کا ذریعہ بنتا ہے۔

غصے کے علاج کے حوالے سے تجاویز: وہ غصہ جو ہمارے مزاج کا مستقل حصہ بن جائے، اس کے پیچھے کچھ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق غصہ ایک ردِ عمل ہے جس کے اسباب میں ایک اہم سبب خوف کی کیفیت ہے اور خوف ہمیشہ نااہلی کی بنا ءپر پیدا ہوتا ہے، مثلاً : ایک شخص اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ گھر میں کیسے جاؤں؟

قرضے کیسے ادا کروں؟ گھر میں جاؤں گا تو بے سکون ہوجاؤں گا، کیونکہ بیوی ذمہ داریاں پورا نہ ہونے کے سبب سوال پر سوال کرے گی۔ بچوں کی فیس، علاج کا خرچ، گھر کا راشن تو وہ اپنی نااہلی کے سبب ایک خوف میں مبتلا رہے گا اور جب بھی اس کی بیوی مذکورہ کوئی بھی سوال اٹھائے گی تو وہ اپنی نااہلی چھپانے کےلیےغصہ کرے گا، جھگڑے گا وغیرہ۔ ایسی صورت میں غصے کا علاج اپنی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

غصے کا ایک سبب خود ساختہ تصورات میں مثلاً خاندان، قبیلہ، رنگ، نسل کی وجہ سے ایک بلاوجہ کی بڑائی کا شکار ہوجانے سے غلط فہمی میں خود کو افضل سمجھنا، کسی کی معمولی بدسلوکی پر اپنی پہچان جتا کر غصہ کرنا۔ غصے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ غصہ انسانی خواہشات اور جذبات کا لازمی جزو ہے،لہٰذا غصے کے علاج کے حوالے سے جو بھی علاج ذکر کیا جائے گا، وہ غصے کو قابو کرنے کے طریقے ہوں گے، نہ کہ ختم کرنے کے۔

رسول اکرم ﷺکا مبارک ارشاد ہے: پہلوان وہ نہیں ہے جو ایک ہی وار میں مقابل کو گرادے، بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو عین غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔

دل اس بات کا شدّت سے تقاضا کررہا ہو کہ اسے کھری کھری سناؤں، تھپڑ رسید کروں، گالیاں دوں، اپنی بھڑاس نکال دوں، گھر والوں پر چیخ چیخ کر اپنی بڑائی جتاؤں، غرض اپنے ہاتھ پیر یا زبان کے استعمال سے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور مجھے بظاہر کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں۔ ٹھیک ایسی حالت کے دوران اپنے آپ پر قابوپانا اور نظرانداز اور درگزر سے کام لینا یہ واقعی بہت بڑے پہلوان سے بھی بڑھ کر طاقت ور بننے والی بات ہے۔

غصے کے علاج کے طور پر کچھ طریقے ہیں جو مستقل علاج کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں حضرت تھانویؒ ایک طریقہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غصے میں مبتلا شخص اپنے عیوب پر ہر حال میں نظر رکھے، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنے والا شخص ہمیشہ عاجزی اور اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہے گا۔

آج کل طلاق کی شرح تیزی سے بڑھنے میں ”غصے“ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ تقریباً مرد حضرات غصے کی عین حالت میں معمولی تُو تُو مَیں مَیں کو طلاق کی نوبت تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثریت بعد میں یہ کہتی پھرتی ہے کہ ہم نے غصے میں ایسا کیا ہے، اب ہم شرمندہ ہیں اور ہمیں کوئی طریقہ بتایا جائے، تاکہ ہم اپنی شریکِ حیات کو دوبارہ لاسکیں، لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت ہے، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، غصے پر قابو پانے کا ایک مفید علاج یہ بھی ہے کہ غصے کے دوران عذابِ الٰہی اور اللہ کی قدرت کو ذہن میں رکھے۔

ایک علاج یہ ہے کہ غصہ جس جگہ آرہا ہے، وہاں سے فوری اتنا دور ہٹ جائیں کہ وہ شخص ہمیں نظر نہ آئے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ غصے کا اصل سبب انسان کے جسم میں موجود حرارت کے مادّے ہیں اورحرارت کا سبب حرکت ہے، جتنی حرکت ہوگی یعنی جتنا زیادہ بولے گا، جواب دے گا، جتنا ہاتھ اٹھائے گا، جتنا سوچے گا، انتقام کے جذبے کے سبب حرکت بڑھتی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنی جگہ بدل کر سکون میں آئے گا اور ایسی حرکات سے پرہیز کرے گا تو حرارت کم ہوگی، جس کے نتیجے میں غصے کے جذبات بھی کم ہوں گے، جس کےلیے علماء مختلف مختصر علاج تجویز کرتے ہیں۔ 

مثلاً تکرار سے بچنا، جواب الجواب سے پرہیز کرنا، اس موقع پر کمرہ، گھر، دفتر یا اس مخصوص جگہ سے اتنی دور جانا کہ وہ شخص نظر نہ آئے اور گفتگو کا موضوع بدل جائے۔ وضو کرلینا، پانی پی لینا، تعوّذ پڑھ لینا وغیرہ۔

یہ سب تجاویز جسم میں موجود اس حرارت کو مزید حرکت دینے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ غرض !غصہ آجائے تو اسے نظر انداز کرے اور اس موقع پر کوئی بھی چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور غصے کو خود پر حاوی ہونے نہ دے۔

اقراء سے مزید