• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت سیاستدانوں کے خلاف 'گل افشانی کی جاتی ہے، اس میں عام آدمی کو باقاعدہ گمراہ کیا جاتا ہے جو براہِ راست جمہوریت اور جمہوری اقدار کی توہین ہے۔ تھوڑا سا غور کریں تو ایک ادارے کے سوا سب سے زیادہ قربانیاں سیاستدانوں ہی کی ملیں گی۔ بیوروکریسی کی کیا قربانیاں ہیں؟ محض یہ کہ سول سرونٹ کے نام پر عیاشی و حکمرانی ۔

موج تو نگراں حکمرانوں کی بھی کم نہیں۔ چلئے کچھ کو مان بھی لیں تو اکثریت ان نگرانوں کی ہے جو کبھی نگہبان نہیں رہے، نہ عوامی حلقوں کے کبھی قریب ہی رہے، ہو سکتاہے ٹیکنوکریٹ ہوں یا کبھی بیوروکریٹ ، یہ کب کبھی عوامی یا عوامی امنگوں کے ترجمان ہوئے ؟ کیا یہ نگران سیٹ اپ بھی جمہوریت کی نفی ہی نہیں بنتے؟ ادارے مضبوط ہوں نگرانوں کی لاٹری نکالنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، معلوم ہے امریکہ میں تو کانگرس کے باہر سے وزراء بھی لے لئے جاتے ہیں کیونکہ ٹیکنوکریٹس اور سیانے اسمبلیوں کے باہر بھی بستے ہیں لیکن سینٹ کی منظوری کے بغیر نہیں، حتیٰ کہ سول سروسز اور یونیفارمڈ سربراہان بھی سینٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ، نہ سپریم ججز ہی! گویا دنیا کا طاقتور ترین امریکی صدر بھی سینٹ کی مشاورت کو مقدم جانتا ہے۔ اور یہ ہے جمہوریت کی طاقت اور ثمرات، جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے پاکستان میں اگر کسی نے اپنے اختیارات کی قربانی دی ہے، تو ذوالفقار علی بھٹو ہیں یا آصف علی زرداری۔ اداروں کی طرف سے اگر کوئی پہلی قربانی جمہوریت کی خاطر نظر آئی ہے تو وہ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ہے، کہ انہوں نے اپنا اختیار چھوڑ کر تین ججز میں تقسیم کیا اور ساتھ ہی پارلیمان کے تقدس کو تقویت بخشی ہے ، ورنہ اس سے قبل ماضی قریب کے چیف جسٹس صاحبان میں سے جناب افتخارِ محمد چوہدری، جناب ثاقب نثار اور جناب عمر عطا بندیال نے ہیروگری تو انجوائے کی تاہم قربانی نہیں دی۔بہرحال قاضی فائز عیسیٰ کی قربانی نے وہ کمال کیا جسے قلم بند کئے بغیر رہا نہیں جاتا، خدا کرے کہ یہ حسنِ ظن قائم رہے!

وہ صاحبان جو سیاستدان کو گالی دینے میں شعور ڈھونڈتے ہیں، حقیقت میں وہ کبھی شعور کے پڑوسی بھی نہیں رہے۔ پھر ایک وہ طبقہ بھی ہے جو پاک فوج پر تنقید کو بھی شعور سمجھتا ہے۔ شعور یہ بھی نہیں۔ شعور وہ ہے جو ایک خاص رویے کو آئینہ دکھائے، رویہ وہ جو آمریت کی گود میں پلے اور جمہوریت کی جڑیں کاٹیں۔ دراصل جمہوریت کے رویہ کی جڑیں کاٹنے والا ہی قابل مذمت ہے۔ تاریخ پر عمومی نظر رکھنے والا بھی اس بات سے بخوبی آشنا ہے کہ جنرل ایوب خان کو بھی کنونشن لیگ بنانا پڑی کہ زیادہ دیر آمریت کی اندھیر نگری نہیں چل سکتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کو غیر سیاسی اسمبلی تراشنے کی ضرورت پڑی کہ آمریت کے اندھیرے اور گھٹن نے مملکت خداداد کو آسیب کی آماج گاہ بنا دیا تھا، ایسے ہی جنرل پرویز مشرف نے قاف لیگ بنائی۔ کیا تینوں اپنی اپنی آمریت کا کفارہ ادا کر سکے؟ شاید آمریت کا کفارہ ممکن ہی نہیں کیونکہ آمریت انسانیات سے انسانیت اور انسانی حقوق تک کی دشمن ہے !

جس دن شعور نے تاریخ کے ورق پلٹے، اور ان اوراق سے اصلاحات کی جھلک پائی، پھر ورق گردانی کرنے والے کو وہ اشخاص نظر آئے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں مگر ان اصلاح کاروں کو زہر کے پیالے پلا دئیے گئے ، تو اس دن سے تبدیلی نظر سے دل اور دل سے دماغ میں اترے گی۔ تبدیلی نعرے سے نہ زبانی جمع خرچ سے، تبدیلی رویے کی ایجاد اور اصلاحات کی دریافت سے ممکن ہے کسی کو چور یا کسی ڈاکو کہنے سے نہیں۔ تبدیلی مشاورت اور مکالمہ سے، تبدیلی آئین کی شاہراہ پر چل کر یا آئینی ترامیم سے ممکن ہے ہاتھ پکڑی خالی تسبیح یا اپنی بندوق کی’’شُست‘‘ مخالفین کی جانب کر کے نہیں۔ کاش تبدیلی اور گالی پر سیاست کرنے والے نے محض 18 ویں ترمیم ہی کو طاقت سے نوازا ہوتا محض جنوبی پنجاب محاذ کے غلط استعمال کو رواج نہ بخشا ہوتا۔

کوئی بھٹو اگر پھانسی پر جھول کر بھی زندہ ہے تو کچھ کمال تو ہوگا، کوئی سانحہ کارساز کراچی میں لاشوں کو لہو میں لت پت دیکھ کر بھی نہیں رکا اور اس نے میثاقِ جمہوریت کے تقدس کو معتبر اور جدوجہد کو متبرک جان کر جمہوریت کی اپنے خون سے آبیاری کی تو وہ دختر مشرق تو کہلائے گی۔ اور اگر کوئی کسی کو تین بار نامکمل وزیراعظم رہنے پر چوتھی بار مکمل کرنا چاہتا ہے تو ایسے اسکول آف تھاٹ کو کسی نواز شریف میں کچھ تو نظر آتا ہو گا، جسے تسلیم کرنا مقتدر کی بھی مجبوری ہے بھلے راستے میں ہنوز کئی قانونی قدغنیں ہی کیوں نہ ہوں ۔ سیاست کی جب تک کوئی طبعی شکل نہ وہ انسان دوست نہیں ہو سکتی۔ مقبول تو انسان حادثوں کے سبب بھی ہو جاتے ہیں تاہم قبولیت کیلئے قربانی ضروری ہے۔ اگر کسی مخالف مکتب فکر نے کسی آصف علی زرداری کو مردِ حُر قرار دیا ہو اور بےشمار مخالفین نے مانا بھی ہو، تو صاف ظاہر ہے یہاں بھی کوئی طبعی جمہوریت ہے محض خیالی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان بھی اب محض’’مخالفت اور اینٹی چور ڈاکو‘‘سیاست ترک کرکے ، گویا بگاڑ کے سیاست پر عنان اقتدار تھامنے کی دھن سے نکل کر بناؤ کی سیاست کو عملی جامہ پہنائیں کہ جمہوریت کے گلشن کا کاروبار چلے۔ سچ یہی ہے کہ اس قحط الرجال میں عمرانیات ، حقیقی عمرانیات کی اشد ضرورت ہے جو قوم کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ حقیقی لیڈر بھٹو کی طرح آسانیاں پیدا کرتا ہے یا نوازشریف کی طرح تعمیر سازی۔ خان کو موقع ملا ہے کہ تحریک عدم اعتماد نے اس کا بھرم رکھ لیا وگرنہ عوام میں تفریق، گوادر بندی، سی پیک جام، نئے ہسپتال نہ بننے سے خلاء، خارجی سطح پر توہین کے سوا ہاتھ کیا آیا تھا ؟ کیا ایک کروڑ نوکریاں یا پچاس لاکھ گھر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ تھا؟

عدالت عظمٰی کے روشن دان سے ضیائی تالیف کی امید ہوئی ہے، اور الیکشن کمیشن کے الیکشن کرانے کے عزم اور انتظامات مکمل ہونے سے جو نوید ملی ہے اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن پارلیمانی بالادستی چاہتے ہیں یہ خبر اور یہ عزم بتاتے ہیں کہ اچھے دن آنے والے ہیں، اور جاتے جاتے ایک عرض کردیں، عوام نے سیاستدانوں اور مقتدرہ کے بعد بیوروکریسی کی بدنیتی کو بھی ایکسپوز کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ، اک ذرا صبر کہ اب جبر کے دن تھوڑے ہیں!

تازہ ترین