• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کا نظم و نسق اچھا نہ ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا، شہیدِ ملت لیاقت علی خان

شبیر احمد انصاری

اب وہ زمانہ خواب ہوگیا ہے کہ ہماری نظروں کے سامنے ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ ،حضرت عمر ثانیؓ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز جیسے حکمران کا زمانہ آجائے اور یہ بھی خواب ہی ہے کہ ہم اورنگ زیب عالمگیر کے دورِ بادشاہی کو دیکھ سکیں۔

قائدِ ملت لیاقت علی خاں بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے۔دولت مند خاندان کے چشم و چراغ ، خیر سے نواب تھے اور اس وقت نواب کی اصطلاح سے مراد صرف دولت مند ہی ہونا کافی نہیں تھا، بلکہ عوام کا نمائندہ ہونا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ہر طرح سے ان کا پاسباں ہونا بھی شامل تھا۔ 14اگست 1947 کو جب پاکستان معرض موجود میں آیا اور مسلمان بٹ بٹ کر پاکستان آنے لگے تو ان میں نوابزادہ لیاقت علی بھی شامل تھے۔ 

سب ہی ایثار اور قربانی کا پیکر بن کر اسلام کے قلعہ پاکستان میں داخل ہورہے تھے، سب ہی نے اپنے عزیز و اقارب کی جدائی کو برداشت کیا تھا، لیکن شہید ملت لیاقت علی خاں نے جب حدود پاکستان میں قدم رکھا تو فرمایا کہ ،خدا کا شکر ہے کہ مجھے دولت اور جاگیر سے نجات مل گئی۔ کیا آپ اسے معمولی بات گردانیں گے، تاریخ اس نوع و کردار کے حامل شخص کو کیسے فراموش کرسکتی ہے۔

شہید ملت کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوری پاکستان کے پہلے وزیر، پہلے وزیر خارجہ اور پہلے وزیر دفاع مقرر ہوئے، لیکن اپنی تنخواہ صرف اس قدر مقرر کروائی ،جس سے زندگی کے شب و روز سادگی اور قناعت کے ساتھ بسر ہوسکیں، سادہ اور پیوند لگے کپڑے زیب تن فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ قمیص کا کالر پھٹ گیا تو آستین کا کپڑا لے کر کالر درست کرایا اور آستین میں پیوند کاری کروائی۔ 

درویش صفت قناعت پسند تدبر فراست اولوالعزمی قوت ارادی اور صبر و استقلال جیسی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ وقت کی قدآور شخصیات نے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کیا، آپ کے گلے میں تحسین و آفرین کے ہار ڈالے۔ بابائے قوم قائد اعظم نے فرمایا’’قائد ملت میرے دست راست ہیں‘‘ قائد اعظم نے قائدملت سے ان کی 35برس کی عمر میں قوم کی خدمت کا جو وعدہ لیا تھا، آپ نے اسے بہ احسن پورا کر دکھایا۔ وقت آخر بھی وطن عزیز ہی کی فکر دامن گیر تھی، جب ہی تو آپ کی زبان مبارک سے یہ تاریخی جملہ ادا ہوا۔

’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘

سردار عبدالرب نشتر نے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ اپنے قائد کے وفادار، اپنے دوستوں کے وفادار اور اپنے شرکاء کے وفادار تھے۔ قائد ملت نے بابائے قوم کی وفات کے بعد قوم کو ایک حوصلہ دیا، ان کی شکستہ طبیعت میں ایک روح پھونکی، ان میں ایسی تڑپ، ایسا ولولہ اور ایسی خود اعتمادی پیدا کی کہ کایا پلٹ دی۔

قائد ملت نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

’’ایک جمہوری ملک کےلیے خاص طور پر یہ ضروری ہے کہ ،ایثار اور دیانتداری سے کام لیں۔ اگر ملک کا نظم و نسق اچھا نہ ہوتو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور اپنے نصب العین کو نہیں پہنچ سکتا۔ سرکاری ملازمین کو جان لینا چاہیےکہ وہ قوم کے خادم ہیں، یہ بھول جانا چاہیے کہ وہ قوم کے حاکم اور افسر ہیں، ان کو صرف قوم کی خدمت کا خیال کرنا چاہیے۔‘‘

ایک اور موقع پر فرمایا:

’’میں اُن لوگوں کو جو پاکستان کو محض ایک ذریعہ ترقی سمجھتے ہیں، آگاہ کردینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کو پاکستان اور محض پاکستان کےلیے وقف کردیں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پاکستان میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘

قائداعظم نے قوم کے اندر اتحاد، یقین، محکم اور تنظیم کی جو شمع روشن کی تھی، قائد ملت نے اس کو روشن رکھا۔ مصائب کی آندھیاں چلیں، مخالفتوں کے منہ زور جھکڑ چلے ،مگر قائد ملت نے اس شمع کو بجھنے نہ دیا، حتٰی کہ اسے فروزاں رکھنے کےلیے اپنی جان کا قیمتی نذرانہ بھی پیش کردیا۔ شہید ہوکر زندہ جاوید ہوگئے۔

’’صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاوِدانہ‘‘

قائد ملت کی شخصیت و سیرت کے خوب صورت اور قابلِ دید باغ میں کس چیز کی کمی تھی۔ اس باغ کے پودوں میں سید شہید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید دہلوی، جیسے انقلاب اور داعی اسلام ہستیوں کی داستان جہاد کی کھاد موجود تھی۔ اس باغ کو علومِ جدید اور فکرِ اسلامی کی روشنی ملی۔ اس باغ کے رقبہ میں دیانتداری، بھول پن، صاف گوئی، سنجیدگی، غیرمعمولی قوت برداشت اور قوم و وطن سے والہانہ محبت اور وابستگی کے پھول کھلے ہوئے تھے، ان پھولوں میں حاضر دماغی، خوش گفتاری، زود فہمی، قادر الکلامی، شعر و ادب سے دلچسپی اور سب سے بڑھ کر محبت رسولﷺ کی خوشبو رچی،بسی ہوئی تھی۔ 

آپ نے جس شان قلندری کے ساتھ زندگی گزاری، اسی کیفیت اور جذبہ کے ساتھ منصب شہادت پر بھی فائز ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، بعدازیں قانون کی اعلیٰ تعلیم کےلیے انگلستان تشریف لے گئے۔وکالت کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو دہلی سے شروع کیا، یہاں سے آغاز اس لیے کیا کہ دہلی غالب اور مومن کا شہر تھا اور آپ ان دونوں عظیم شعراء سے بے حد انسیت رکھتے تھے۔

اردو اور فارسی زبان و ادب پرملکہ رکھتے تھے، جب ہی تو آپ کو قیام لندن کے دوران آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ’’فارسی کی کرسی‘‘ پیش کی گئی۔ قیام پاکستان کے پرآشوب دور میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ آپ کی کس قدر خدمات ہیں، وہ سب پر عیاں اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ آپ نے پاکستان کی سالمیت، آزادی اور اسلامی و جمہوری اقدار کے خلاف سازشوں کے جال کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن اپنے اس مشن کی تکمیل سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔