• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عرصے سے سائنس کے پرامن اورذمہ دارانہ استعمال کا موضوع علمی اور تعلیمی حلقوں میں زیر بحث چلاآرہا ہے۔ اس موضوع کے گرد گفتگو کا آغاز کب ہوا، یہ فیصلہ کرنا تو ممکن نہیں ہے، مگر گذشتہ صدی میں جب سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے ذریعے تیار کردہ اسلحے کی تباہ کاریاں سامنے آئیں جن کا افسوسناک اور تشویشناک ترین اظہار1945میں امریکا کی طرف سے جاپان میں ایٹم بم گرانے کے واقعے کی صورت میں ہوا،تو یہ سوال عالمی سطح پر بڑے زوروشور کے ساتھ اٹھا کہ کیا سائنس انسان کی تباہ کاریوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی؟گذشتہ تقریباً سات آٹھ عشروں سے یہ موضوع دنیا بھر کے سائنسی اور سماجی علوم سے وابستہ اہلِ فکر اور دنیا بھر کی درسگاہوں میں زیربحث چلاآرہا ہے۔

اس تمام بحث و مباحثے کا حاصل یہ نظریہ ہے کہ سائنس کا غیر ذمہ دارانہ اور ذمہ دارانہ دونوں طرح سے استعمال ہوسکتا ہے۔ انسان کے مستقبل، انسانی زندگی کی صحت مند نشونما اور اُس کی نوعی و بشری نیز معاشرتی جِلا کے لیے سائنس کو مثبت انداز میں اور ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال کیا جانا ضروری ہے۔اس موضوع پر خیالات کی صراحت کے لیے ضروری ہے کہ سائنس کے موضوع پر سماجی سائنس یا عمرانی علوم کے زاویے سے بھی غور کیا جائے۔ 

اِس مختصر مضمون میں اس موضوع کے دو پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اول، تو یہ کہ فطری علوم یا فطرت کی سائنس اور سماجی سائنس کے درمیان تعلق کو سمجھاجائے، نیز سائنس کا ذمہ دارانہ استعمال کیاہے،اس کو سمجھا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے درجوں میں فطری سائنس اور سماجی سائنس کے تعلق کو تعلیم کا حصہ بنانےاور اس کے نتیجے میں سائنس کے تعمیری استعمال کے تصور کو عام کرنے کا کام کس طرح کیا جاسکتا ہے؟

فطری سائنس اور سماجی سائنس کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ لیکن یہ عمومی رائے بغیر کسی استدلال کے قائم کرلی گئی ہے۔ سی پی سنو (C. P. Snow)نے 1965 میں سائنس اور سماجی سائنس کے تعلق کے حوالے سے بھرپوراظہارِ خیال کیاتھا۔ انھوں نے غیر سائنس دانوں کی جدید سائنس کے عقلی اور جمالیاتی رخ سے لاعلمی پر افسوس کا اظہارکیا۔ 

تاریخ کے صفحات الٹنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں شعبوں میں صدیوں تک علیحدگی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بلکہ تمام شعبہ ہائے علم میں ایک نوع کی وحدت پائی جاتی تھی۔ بیسویں صدی میں سائنس نے جس تیز رفتاری سے ترقی کی، اس کی وجہ سے علم کی تقسیم اور مختلف خانوں میں اس کو بانٹنے کے عمل کاآغاز ہوا۔ 

اختصاص (specialization) کے نام پر علم کی شاخوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی روش شروع کی گئی تو پھر یہ عمل آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔ ایک شعبۂ علم میں اختصاص حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار وضع ہوا کہ اسے دوسرے شعبہ ہاے علم سے بالکل لا تعلق کردیا جائے۔ علوم کی اس تقسیم بندی کا سب سے منفی اثر تعلیمی اداروں پر مرتب ہوا۔ خاص طور سے اعلیٰ تعلیمی ادارے علمی و فکری یک جہتی سے محروم اور دوسرے شعبہ ہاے علم سے لاتعلق رہنے والے آدمی بنانے کے کارخانے بن گئے۔

بیسویں صدی کے شروع میں علم کی اس تقسیم بندی کا رجحان اپنے زوروں پر تھا لیکن اُسی زمانے میں بعض مفکرین ایسے بھی تھے جنھوں نے اس نئے رجحان کے منفی نتائج پر اظہارِ خیال کرنا شروع کیا۔ 1929ءمیں وائٹ ہیڈ (Whitehead) کی کتاب ’’ تعلیم کے مقاصد‘‘ نیویارک سے اشاعت پذیر ہوئی۔ اس کتاب میں مختلف شعبہ ہائے علم کی وحدت پر بحث کی گئی ہے۔ سائنس اور لبرل آرٹس کے مقاصدکی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے وائٹ ہیڈ نے لکھا کہ ’’سائنس اور آرٹس دونوں انسانی جذبے کا اظہار ہیں‘‘۔ وائٹ ہیڈ کے مطابق جامعات وہ جگہیں ہیں جہاں اس اظہار کو بہترین صورت مل سکتی ہے۔ 

اس کتاب میں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں مختلف شعبہ ہاے علم کی وحدت کو پیشِ نظر رکھ کربامعنی تبدیلیاں کرنے پر زور دیا گیا۔ صرف وائٹ ہیڈ ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے مفکرین، ادیبوں اور سائنس دانوں نے بھی یہ رائے قائم کی کہ سائنس کو معاشرے کی نظر سےاور معاشرے کے پرامن ارتقا کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی بڑی ضرورت ہے۔ سائنس دراصل انسانوں کے لیے ہے اور اسے انسانوں کی بہتری کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے۔

سی پی سنو کی کاوشوں کے بعد سے درسی اور عملی سائنس دونوں میں معاشی اور سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کئی تبدلیاں نمایاں ہوئیں۔ اب، سائنس کی تاریخ( History of Science ) ، سائنس کا فلسفہ (Philosophy of Science) اور مطالعۂ سائنس (Science Studies) بجائے خود مخصوص مضامین بن چکے ہیں۔ 

کئی ایسی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جن کا مقصد سائنس اور سماجی سائنس کے درمیان ربط کو نمایاں کرکے ان دو شعبوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنا ہے۔ چناں چہ سوسائٹی فار سوشل اسٹڈیز آف سائنس(Society for Social Studies of Science) کوئی پانچ دہائیوں سے مصروفِ کار ہے۔ دی ہسٹری آف سائنس سوسائٹی (The History of Science Society) پچھلے 99برسوں سے اسی موضوع پر تحقیقات میں مشغول ہے۔ 

ایسے کئی تحقیقی جریدے بھی علمی و تحقیقی اداروں اور دنیا کی مختلف جامعات سے شایع ہورہے ہیں جو سائنس اور سماجی سائنس کے درمیان تعلق پر تحقیقات کو فروغ دیتے ہیں۔ مثلاً ایک تحقیقی جریدہ’ ’سوشل اسٹڈیز آف سائنس‘‘ (Social Studies of Science) اب تک اڑتالیس شمارے شائع کر چکا ہے۔ایک اور جریدہ’ ’ہسٹری آف سائنس‘‘ (History of Science) ہے جو اس موضوع پر اعلیٰ معیار کے مضامین شائع کرنے کے لیے معروف ہے۔

سائنس اور معاشرے میں تعلق پر بحث تب عروج پر آئی جب یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ سائنس کو نوعِ انسان اور معاشرے کی بہبودکے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب امریکا نے دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے اور لاکھوں انسانوں اور عمارتوں کو خاک میں تبدیل کردیا تو اس پر کئی سوالات پیداہوئے۔ یہ پوچھا جانے لگا کہ کیا سائنس داں بے حِس ہوتے ہیں؟ کیا ان کا تعلق صرف سائنس سے ہے اور کسی دوسری چیز سے نہیں؟ کیا ان میں جذبات و احساسات نہیں ہوتے؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے المناک واقعے کی سب سے پہلے مخالفت سائنس دانوں ہی کی طرف سے ہوئی۔

پگواش تحریک (Pugwash Movement) اسی تناظر میں شروع ہوئی۔اس اہم اور تاریخی اہمیت کی حامل تحریک کا مقصدکرۂ ارض پر مسلح جنگوں کا خاتمہ اور اسلحے کی دوڑ کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرناہے۔ یہ تحریک ایک انسان دوست امریکی سائرس ایٹن (Cyrus Eaton) نے کینیڈا کے ایک گاؤں پگواش سے 1957میں شروع کی۔ 1955 میں ایلبرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstien) اور برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے بھی سائنس کے درست استعمال کے متعلق ایک منشور تحریر کیاتھا۔ پگواش تحریک 2020ءتک 63کانفرنسوں کا انعقاد کرچکی تھی۔ 

یہ تحریک اسلحوں کے استعمال اور اسلحہ سازی کی انڈسٹری کے خاتمے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن یہ پوری طرح غیر مؤثر بھی ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس تحریک کا سب سے نمایاں کارنامہ یہی ہے کہ اس نے دنیا میں امن کے شعور کو فروغ دیا ہے۔ دنیا میں فروغِ امن کے لیے ادارے اور نیٹ ورک بھی قائم ہوچکے ہیں جن میں سائنس داں اور سماجی سائنس داں دونو ں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس موضوع کے متعلق پاکستان میں پائی جانے والی صورتِ حال کے ادراک کے لیے کچھ پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ 

اول تو یہ کہ پاکستان میں فطرت کی سائنس اور سماجی سائنس کے لیے کوئی یکساں اورعمومی تصوراتی خاکہ (Common Conceptual Framework) موجود نہیں ہے۔اس مسئلے پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی مباحثے کا انعقادکیا گیا۔ مزید برآں علم کی عمرانیات اور فلسفۂ سائنس جیسے موضوعات میں عدم دلچسپی یا لا علمی کی وجہ سے سائنس داں اور سماجی سائنس داں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی و معاشی وجوہات سے بے خبر ہیں۔ اشیش نندی (Ashish Nandi) کے مطابق یہ سائنسی علم کو اس کے پس منظر سے لاتعلق گرداننے کا نتیجہ ہے۔

سائنس داں معاشرتی اقدار سے لاتعلق نہیں ہوتے ہیں۔ مشہور ماہرِ عمرانیات میکس ویبر (Max Weber) کا خیال ہے کہ پروٹیسٹنٹ اخلاقیات ہی جدیدیت، عقلیت پسندی اور سرمایہ داری کاپیش خیمہ رہی ہیں جن کے نتیجے میں جدید سائنس وجود میں آئی۔ ایک امریکی ماہرِ عمرانیات مارٹن(Morton) کے مطابق سائنس کی ترقی کے لیے معاشرے میں اس کے لیے ایک ثقافتی شعور (Cultural Ethos) کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے تناظر میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے ثقافتی شعور یا ثقافتی روح سے ایسے کون سے عناصر و اقدار کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ جن کی سائنس اور سائنسی فکر سے نسبت ہے۔

دوسری بات یہ کہ سائنس کی ترقی میں معاشرے کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی سائنسی فکر کو پروان نہیں چڑھا سکا، کیوںکہ یہ معاشرہ بنیادی طور پر جاگیردارانہ اور قبائلی اقدار سے آزاد نہیں ہوسکا ۔ہمارے یہاں صدیوں سے تنقید کی بجائے تقلید کو اور تخلیق کے بجائے اتباع کو پسندیدہ سماجی اقدار سمجھا جاتا رہا ہے۔ 

آئینِ نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اَڑنا ہمارا معاشرتی وصف بنا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سائنسی فکر و تحقیق انہی معاشروں میں مثبت اثر ثابت ہوسکتے ہیں جن معاشروںکا مزاج بھی سائنسی ہو،یعنی جن کے مزاج میں سوالات کرنا، سوچنا اور تشکیک کے مرحلے سے گزر کر حقیقتِ ماجرا تک پہنچنا شامل ہوں۔

تیسرا اہم پہلو پاکستان میں طاقت کی ساخت ہے۔ تعلیم، عوام کے حقوق اور پسماندہ طبقے کی ترقی ریاست کی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ نتیجتاً یہ ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے تو موجود ہیں، مگر ان میں سے بیشتر محض برائے نام اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہیں۔ ان اداروں کا مادّی اور علمی افلاس ان کو حقیقی علمی اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرف بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔

چنانچہ سائنس اور تعلیم کے بڑے پیمانے پر فروغ کے لیے ریاست کی ترجیحات میں تبدیلی کی ازحد ضرورت ہے۔ یہی نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے سماجی علوم کے زاویے سے بھی مسائل کو دیکھا جائے۔ ضرورت ہے کہ مختلف شعبوں میں مشترک اقدار تلاش کر کے انھیں کثیر الجہاتی شعبوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔