• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21 اکتوبر کی شام جب میاں نواز شریف لاہور میں اترے تو یہ سوال ہر ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ کیا یہ بدلا ہوا نواز شریف ہے؟میں ان دنوں بیرون ملک سفر پر ہوں جہاں بھی چند پاکستانیوں کا اکٹھ ہو تو قدرتی طور پر یہی سوال زیر بحث آتا ہے کہ کیا نواز شریف نے اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا ہے؟ کیا نواز شریف کا نقطہ نظر بدل چکا ہے؟ کیا نواز شریف ایک مختلف انداز میں سوچنے لگے ہیں،ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا مصداق بننے والے نواز شریف اس مرتبہ کیسے اپنے ملک اور جماعت کو اس گرداب سے نکالیں گے؟2017 میں جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوئے اس وقت اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے،جب انہوں نے 2019 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اس کے بعد سے پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے،پنجاب جو مسلم لیگ نون کا’’یس کیمپ‘‘ تھا پی ڈی ایم کی’’گورننس ‘‘کی بدولت اب وہ ان کے ہاتھ سے کھسک چکا ہے،نئے حالات میں کیا ’’بدلا ہوا نواز شریف‘‘ پاکستان آیا ہے؟نواز شریف کے’’آنے اور جانے‘‘کی تاریخ بہت دلچسپ ہے،پہلی دفعہ میاں محمد نواز شریف کو’’ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا ‘‘کی شہرہ آفاق تقریر کے بعد عبدالوحید کاکڑ فارمولے کے تحت اقتدار سے ہاتھ دھوناپڑے،لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعدانہوں نے پھر ’’سینگ پھنسا لیے' ‘‘1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھوں پہلے گرفتار ہوئے پھر جلاوطن ہوئے،2017 میں پہلے اقتدار سے علیحدہ کیے گئے پھر جیل گئے اور جیل سے ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی،ان تینوں ادوار کی واپسی اور موجودہ واپسی میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ عمران خان ہے،عمران خان آج ایک سیاسی ولن کی طرح جیل میں بند ہیں،ان کی جماعت کا شیرازہ بکھرا بکھرا سا نظر آتا ہے۔ مذمتوں لا تعلقیوں کا سلسلہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آرہالیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ اس وقت ان کی مقبولیت کو نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔پی ڈی ایم کی حکومت کے ہاتھوں لائے گئے مہنگائی کے سیلاب نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔بجلی کے بلوں کے پریشر کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو اس موضوع پر کئی منٹ بات کرنا پڑی۔ان کے پاس 18 مہینوں کے اقتدار کا دفاع کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے موٹروے، اورنج لائن،میٹرو بس،اور ایٹمی دھماکوں کو اپنا بیانیہ قرار دیا۔’’ملک سنبھالو نواز شریف‘‘ کے سلوگن میں سیاست کے منظر پر ایک دفعہ پھر نمودار ہونے والے نواز شریف کیا ملک سنبھال پائیں گے؟میاں نواز شریف نے اپنے سابقہ بیانیے یعنی ووٹ کو عزت دو کے بجائے مفاہمت کے بیانیے پر زور دیا۔سب کے ساتھ مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔لیکن ساتھ ہی ان کی تقریر میں ماضی کی تلخ یادوں کا تذکرہ بھی غالب رہا۔وہ ابھی تک محترمہ کلثوم نواز کے صدمے سے باہر نہیں نکلے۔انہیں اپنے والد اور والدہ کو اپنے ہاتھوں قبر میں نہ اتارنے کا بھی غم ہے،لیکن میدان سیاست میں ان سے زیادہ قربانیاں دینے والے لوگ بھی موجود ہیں، اس ملک میں جہاں باپ کے سامنے بیٹی گرفتار کی گئی اسی ملک میں بیٹی کی موجودگی میں باپ کو پھانسی بھی دی گئی۔ماضی کی تلخ یادوں سے جتنا جلدی چھٹکارا حاصل کریں گے ان کیلئے اور قوم کیلئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔اس وقت وہ بظاہر میدان میں بلا شرکت غیرے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ان کے قریب ترین مخالفین جیلوں میں ہیں،پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ نیچی پرواز کر رہے ہیں،پاکستان میں اس وقت جمہوری سناٹا ہے،سیاستدان مختلف کونوں کھدروں میں محفوظ پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے ہیں، نظام حکومت اپیکس کمیٹیاں چلا رہی ہیں،ان حالات میں میاں محمد نواز شریف جو موجودہ میدان سیاست میں سب سے عمر رسیدہ سیاست دان ہیں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انہیں سولو پرواز کے بجائے تمام سیاسی قوتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی پر اکٹھا کرنا ہوگا۔نیا چارٹر آف اکانومی کرنا ہوگا،پاکستان 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔اس وقت یہ کروڑوں افراد خاموشی سے اپنے قلب و روح پر لگے زخموں کو سہلا رہے ہیں۔ان کروڑوں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا بے لوث مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں کسی کی کردار کشی مقصود نہ ہو بلکہ اس گھمبیر صورتحال سے نکلنا مقصود ہو۔ایک ایسی بیٹھک کی ضرورت ہے جس سے فساد مطلوب نہ ہو بلکہ فلاح مقصود ہو۔ایک دفعہ پاکستان کی ساری سیاسی قوتوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے جس کا مقصد منصب اقتدار پر فائز ہونا نہ ہو بلکہ عوام کی مشکلات کا مداوا کرنا ہو۔بدلے ہوئے نواز شریف سے لوگ ایک ایسے بڑے مباحثے کی توقع کر رہے ہیں جس سے ایسے تمام اختلافات کی صورتیں ختم ہو سکیں جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور تمام ایسے راستے کھولے جا سکیں جہاں سے روشن مستقبل کا سفر شروع کیا جا سکے۔اس وقت پاکستان کی سیاست بھی زخمی ہے اور سیاسی کارکنان بھی۔پاکستان کا ووٹر بے یقینی کا شکار ہے اور ووٹ کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے سیاستدان بھی۔اس وقت میاں نواز شریف کو تاریخ نے ایک دفعہ پھر سنہری موقع عطا کیا ہے کہ وہ عام سطح سے اٹھ کر کوئی ایسا کام کریں جس سے ان کا نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ روشن اور جگمگاتا رہے۔اس ملک نے انہیں تین مرتبہ وزیراعظم بنایا ہے اب محض وزارتِ عظمیٰ کا منصب ان کی منزل نہیں ہونی چاہیے بلکہ مشکلات میں گھرےپاکستان اور پاکستانیوں کے ٹوٹے ہوئے خواب جوڑنا ان کا مقصد ہونا چاہیے۔اور یہ کام اکیلے نواز شریف کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام سیاسی قوتیں مل کر یہ کام کریں گی تو ملک فلاح کی جانب گامزن ہوگا وگرنہ یہی اندھیرے ہمارا مقدر رہیں گے۔

تازہ ترین