• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف کی واپسی، اُن کے بھرپور استقبال اور گریٹر اقبال پارک میں تاریخ ساز جلسے نے مسلم لیگ (ن)کی سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو اپنے جلسے سے ایسی ہی کامیابی کی اُمید تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس جلسے کیلئے بھرپور تیاری کی جا رہی تھی۔ اس جلسے کی سب سے اہم بات میاں نواز شریف کی تقریر تھی جس میں انہوں نے انتقامی سیاست کے بجائے آگے بڑھنے اور عام آدمی کی حالت درست کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جو بہت خوش آئند ہے۔ اگر ہماری سیاسی تاریخ نفرت اور انتقام سے خالی ہوتی تو آج پاکستان کی جمہوریت اور سیاستدان دونوں مضبوط ہوتے اور ملک بھی قدرے بہتر مقام پر کھڑا ہوتا۔ میاں نواز شریف نے تو اپنی تقریر میں عمران خان کا نام تک لینے سے گریز کیا۔ وہ چاہتے تو اپنی پہلی ہی تقریر میں اُس سب کا بدلہ پورا کر لیتےجو عمران خان اور اُن کے حامیوں نے میاں نواز شریف، اُن کےاہلِ خانہ اور اُن کی جماعت کے لوگوں کے ساتھ کیا تھا لیکن اس کے برعکس میاں صاحب نے سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کی۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک عرصے بعد ایسی مثبت سوچ کا مظہر دیکھنے کو مل رہا ہے جو ایک اچھا پہلو ہے۔

میاں نواز شریف آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان اس وقت متعدد مقدمات میں جیل میں ہیں۔ سائفر کیس میں اُن پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔ 2018ء میں عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار تھے اور تب میاں صاحب جیل میں تھے۔ وہ اپنی بیمار اور زیرِ علاج اہلیہ کلثوم نواز کو لندن میں چھوڑ کر پاکستان جیل کی سزا بھگتنے واپس آئے تھے۔ اُس وقت عمران خان اور اُن کے حامیوں نے کلثوم نواز کی بیماری کے بارے میں کیا کیا باتیں نہیں بنائی تھیں حتیٰ کہ میاں نواز شریف کو اپنی اہلیہ سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ میاں نواز شریف ایسا سلوک برداشت کرتے رہے جب عمران خان اپنے اختیارات کے بل پر اُن کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ میاں نواز شریف پاکستان کے سب سے خوش قسمت اور بد قسمت سیاستدان ہیں۔ انہیں تین مرتبہ پوری طاقت لگا کر برطرف کیا گیا، جیل میں ڈالا گیا، جلا وطن بھی کیا گیا۔ دوسری طرف وہ ہر بار پہلے سے زیادہ مضبوط اور سرخرو ہو کر واپس آئے۔ یہ اُن کے عروج کا چوتھا دور ہے۔ آج وہ وہاں کھڑے ہیں جہاں عمران خان 2018ء میں کھڑے تھے لیکن اُن کے لہجے میں وہ نفرت اور تلخی نہیں جو تب عمران خان کے لہجے میں موجود تھی۔

میاں نواز شریف جب جیل میں تھے اور عمران خان بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کر رہے تھے تو اُنہوں نے وہاں اپنے دورے کے دوران کہا تھا کہ میں واپس جا کر میاں نواز شریف کو جیل میں حاصل سہولیات ختم کردوں گا اور انہیں عا م قیدیوں کے ساتھ رکھوں گا۔ اور اب عمران خان خود اُنہی سہولیات کیلئے عدالتوں میں درخواستیں دیتے پھرتے ہیں۔ وہی عمران خان جن کی ایما پر میاں نواز شریف کو اپنی بیمار اہلیہ کلثوم نواز سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اب اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی سہولت طلب کرتے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ پانچ چھ سال میں جو کچھ پاکستان میں ہوا اُس نے جمہوریت اور ملکی معیشت کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ ملکِ عزیز اب کسی بھی تجربے کا متحمل نہیں ہے۔ اس وقت سیاست کے بجائے ملک بچانا زیادہ ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بالخصوص شہباز شریف نے اپنے پندرہ، سولہ ماہ کے دورِ اقتدار کے دوران سخت فیصلے کر کے ملک کو دیوالیہ ہونےسے بچایا۔ اس دوران اسحاق ڈار صاحب چند معاشی غلطیوں کے مرتکب ہوئے جنہیں ہر گز دوہرایا نہیں جانا چاہیے، کچھ قصور ہماری ناقص پالیسیوں کا بھی تھا لیکن اب ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہو چکا ہے۔مستحکم معیشت ہی عوام کی بہبود کی ضامن ہوتی ہے۔ سیاسی لڑائیوں یا سیاستدانوں کی ہار اور جیت سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ میاں صاحب نے اپنی تقریر میں معیشت اور عام آدمی کے مسائل کو اپنی ترجیح بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اپنے ان عزائم کو عملی جامہ پہنانا اُن کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کی طرف سے یہ سننے میں آ رہا ہے کہ میاں صاحب کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان سے مفاہمت کر لینی چاہیے اور اس ضمن میں صدر عارف علوی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کی ملاقات کا اہتمام کر سکتے ہیں تاکہ ماضی میں جو کچھ ہو گیا اُسے پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے کا کوئی راستہ نکالا جا سکے ۔ تحریک انصاف کے رہنما میاں صاحب سے اُس سب کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں جس کی خود انہیں عمران خان سے بھی اُمید نہیں۔ سیاست میں سب بھلا کر آگے بڑھنا اچھی بات ہے لیکن اس وقت معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ عمران خان نو مئی کے واقعات کی صورت میں ریاست پر حملہ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کے معاملات صرف سیاستدانوں کے ساتھ ہی خراب نہیں ہیں۔ عمران خان کیلئے اپنی غلطیوں کے اعتراف اور ان سے رجوع کیے بغیر سیاسی طور پر معاملات کو آگے بڑھانا آسان نہیں ہوگا۔ آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے بعد عمران خان کو پتا نہیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہوا ہے یا نہیں لیکن انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے وہ کیا بولتے اور کرتے رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین