• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار روز قبل محمد نواز شریف چار سال بعد اپنے وطن پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر کی،اپنی سیاسی زندگی کے متعدد جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے، پی ٹی آئی کے لیڈر اور اس کی آغوشِ مغلظات میں پرورش پاتے اس کے کارکنوں کی مسلسل غلیظ حرکتوں اور گالی گلوچ برداشت کرنے والے اس رہنما نے اپنی تقریر میں ان سب کو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں اور اپنے نئے سفر میں یہ سب کچھ نظر انداز کرکے دوبارہ تعمیر و ترقی کی اس منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے جس کا سلسلہ تین بار منقطع کیا گیا تھا۔

میرے لئے اس تاریخی جلسے کی چند چیزیں بہت اہم ہیں، ایک یہ کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے مسلم لیگی کارکن اپنی مقامی قیادت کے ساتھ طویل سفر طے کرکے لاہور آئے تھے جن میں گلگت بلتستان کے کارکن بھی اپنے مخصوص لباس میں موجود تھے۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ استقبالی جلسہ بہت چارجڈ تھا۔ عوام کے پُرجوش جذبے نواز شریف کی تقریر کے ایک ایک لفظ پر اپنا بھرپور اظہار کر رہے تھے، جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مینار پاکستان تنگیٔ داماں کا گلہ کرتا دکھائی دیتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ موٹر وے تقریباً تیس کلومیٹر تک گاڑیوں کے اژدہام کی وجہ سے جام ہو کر رہ گئی تھی اور یوں وہ سب لوگ جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکے جو دور دراز مقامات سے اپنے لیڈر کی جھلک دیکھنے اور اس کی تقریر سننےکیلئے آئے تھے۔اس کے علاوہ رنگ روڈ پر بھی ٹریفک جام ہوکر رہ گیا تھا۔ اس جلسے کی ایک اور اہم بات مجھے یہ لگی کہ مریم نواز نے میاں صاحب کی آمد سے پہلے سامعین کے ولولے اور جوش کو مہمیز دینے کیلئے جلسے کی جزوی نظامت بہت احسن طریقے سے کی اور ان کے بعد خواجہ سعد رفیق نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں دو ’’خواجے‘‘ میرے بہت پسندیدہ ہیں اور ان میں بھی خواجہ سعد رفیق اَن تھک کارکن اور پارٹی کیلئے بےپناہ قربانیاں دینے کے سبب میرے دل کے زیادہ قریب ہیں۔ جلسے کے دو مناظر ہی ایسے ہیں جو بہت دل گداز تھے، ایک جب نواز شریف اسٹیج پر آئے اور ان کی بیٹی مریم نواز انہیں گلے لگانے کے دوران شدت جذبات سے آبدیدہ ہوگئی، اس نے والد کے پائوں کو چھوا اور اس دوران نواز شریف کا چہرہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پا رہے ہیں، تاہم یہ ایک منظر ایسا تھا جسے ’’حاصلِ غزل‘‘ کہا جاسکتا ہے، دو تین سفید کبوتروں میں سے ایک کبوتر نواز شریف کے روسٹرم پر آ کر بیٹھ گیا، نواز شریف نے اسے پیار کرنے کیلئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ خود ان کے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا، میاں صاحب نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر اسے واپس کھلی فضائوں میں چھوڑدیا، میرے خیال میں ’’آزادی، آزادی‘‘ کا شور مچانے والوں کے مقابلے میں یہ منظر آزادی کا خوبصورت استعارہ تھا۔ مسلم لیگ کو چاہیے کہ وہ اس تصویر کو جس میں نواز شریف کے ہاتھ پر خوبصورت کبوتر بیٹھا ہوا ہے اپنے مونو گرام کے طور پر استعمال کرے۔ آزادی کا اس سے بہتر نعرہ اور تشریح ممکن نہیں۔میں نے نواز شریف کی بہت سی تقریریں سنی ہیں مگر اس تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا، اس کا ایک ایک لفظ جچا تلا تھااور اس میں جہانِ معانی آباد تھا، میاں صاحب کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے اور میرے خیال میں نواز شریف کو اس تقریر کے ہر جملے کو اپنے لائحہ عمل سے منسلک کردینا چاہیے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے بہت سے لوگ بہت سی باتیں کر رہے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنے تین ادوار میں سے ایک بھی پورا نہیں کرنے دیا گیااور یوں ترقی کا سفر ہر بار رک گیا۔اب ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وژنری نواز شریف کی ضرورت تھی جس کے چھوٹے چھوٹے ادوار میں بھی ملک قدم بہ قدم ترقی کی سمت گامزن رہا۔ ہمسایوں کے ساتھ مناسب حد تک تعلقات، یعنی بس اتنے ہی جتنے مقتدرہ سے برداشت ہو سکتے تھے، تاہم مراسم بھی وقتی طور پر قابل قبول تھے۔ بہرحال دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً چین کے ساتھ تعلقات کا مزید بڑھاوا اور سی پیک جیسے منصوبوں کا وسیع پھیلائو بھی ان کے دور میں دکھائی دیا۔ ترقیاتی کام جتنے نواز شریف کے دور میں نظر آئےاور عوام کو جتنی سہولتیں دی گئیں، اس سے پہلے کی حکومتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

باتیں اور بھی بہت سی کرنے کی ہیں جو قارئین سے ہوتی رہیں گی، فی الحال آخر میں میں پاکستان کیلئے اپنی ایک دعائیہ غزل نذر قارئین کرتا ہوں۔

کچھ ایسے طے ہماری زندگانی کے سفر ہوں

ہمارے پائوں کے نیچے فلک ہوں بحر وبر ہوں

اتر آئیں زمین پر سب ستارے آسماں کے

ہمارے در پہ باندھے ہاتھ یہ مہر و قمر ہوں

کسی دن آسماں سے بارشیں برسیں کچھ ایسی

ہمارے ہر شجر کی ڈال پر بیٹھے ثمر ہوں

جگا دیں جو ہماری آنکھ کے خوابیدہ جوہر

ہمارے درمیاں بھی کاش ایسے دیدہ ور ہوں

سفینے پر مکمل دسترس ہو ناخدا کی

سمندر کی تہوں میں جس قدر چاہے بھنور ہوں

ارادہ باندھتے ہیں ان دنوں ایسے سفر کا

ہماری پیش قدمی کے لئے نجم و قمر ہوں

ہمیں جو گھر میں دیتے ہیں اذیت بے گھری کی

کچھ ایسے ہو کہ اب کے ہم نہیں وہ دربدر ہوں

مزااونچی اڑانوں کا تبھی آئے گا تم کو

عطاؔ صاحب فضا اپنی ہو اپنے بال و پر ہوں

تازہ ترین