• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

دنیا کی تمام زندہ قومیں اپنے مشاہیر کی یاد سے اپنے دلوں کو گرماتی اور تازہ دم ہو جاتی ہیں، لیکن امتِ محمدیہ اور ملتِ اسلامیہ اپنے مزاج کے لحاظ سے یکسر ایک جداگانہ مزاج کی حامل ہے ،کیونکہ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیــ‘‘ امتِ محمدیہ اپنی روح کی تازگی اور قلب کی جلا کے لئے ہمیشہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے اکتسابِ فیض ان برگزیدہ شخصیتوں اور نفوس قدسیہ کی یاد سے روشنی حاصل کرتی ہے، جن کی زندگیاں اُسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھلی ہوں اور یوں وہ انسانیت، عبودیت الہٰیہ اور اطاعت رسول ﷺو اتباع سنت کا جیتا جاگتا نمونہ بن گئیں ہوں۔ یہ نفوس قدسیہ دنیائے فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتے بلکہ ،’’بل احیاء ؤلکن لا تشعرون‘‘ کی بشارتِ خداوندی سے حیاتِ جاوید پاتے ہیں۔

انہی برگزیدہ ترین ہستیوں میں ایک محبوب ہستی، آسمانِ ولایت کے آفتاب، علم و معرفت کے تاجدار، سلطان طریقت، حجۃ العارفین، عالم ربانی، قطب زمانی، محبوب سبحانی، سلسلہ قادریہ کے بانی، سرتاج اولیاء حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ذات اقدس ہے۔ آپؒ کا اسم گرامی، عبدالقادر، کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہے۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ایران کے مشہور قصبہ ’’جیل یا جیلان‘‘ میں یکم رمضان المبارک 470ھ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ ام الخیر حضرت فاطمہ بنت ابو عبداللہ الحسینیؒ نہایت عابدہ،زاہدہ خاتون تھیں۔ آپؒ کے والد بزرگوار حضرت ابو صالح الحسنیؒ المعروف جنگی دوستؒ اپنے وقت کے ولی کامل تھے۔ آپؒ نجیب الطرفین سید ہیں۔

آپ توحیدِ خالص ، اتباعِ رسول ﷺ، اقامتِ دین، اصلاحِ معاشرہ اور احیائے اسلام کے علمبرداروں میں سے تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے آٹھ سو پچاسی سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آپ کی شخصیت اور تعلیمات آج بھی احیائے دین اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد اور اصلاح معاشرہ کا کام کرنے والوں کے لئے مینارۂ نور اور مشعلِ راہ ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ او ائل عمری ہی میں ظاہری تعلیم کی تحصیل اور تزکیہ باطنی کی تکمیل کے بعد اصلاح معاشرہ، ہدایت ورہنمائی اور وعظ و نصیحت کی طرف متوجہ ہوئے ۔ آپ 488ھ میں بغداد تشریف لائے ،اس وقت بغداد خصوصاً اور پورا عالم اسلام عموماً طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ایک طرف فتنہ خلقِ قرآن ، اعتزال اور باطنیت جیسی تحریکیں اور فلسفہ و علمِ کلام کے مسائل مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ تو دوسری طرف علمائے سُوء اور نام نہاد صوفی دین وعقیدہ پر ڈاکا ڈال رہے تھے۔ اسلام کے مرکز و قلب بغداد میں معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ انتہاپر پہنچا ہوا تھا۔ بدکاری فسق و فجور، معصیت ، ریاکاری، منافقت اور فرقہ بندی کابازار گرم تھا۔ 

خلافتِ اسلامیہ دن بدن زوال کا شکار تھی۔ ایسے دگرگوں حالات اور پرفتن زمانے میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ صلاح و تقویٰ سے آراستہ ، مزاجِ شریعت سے آشنا اور کتاب و سنت کے علوم سے مسلح ہو کر میدانِ جہاد میں اترے اور مجالسِ تلقین و ارشاد اور اجتماعاتِ صلاح و ہدایت کے ذریعے باطل کے خلاف جنگ اور انسانی قلوب و اذہان اور نفس و روح کے تزکیہ و تربیت کا آغاز کیا۔

آپ نے مسندِ درس اور مسند ارشاد کو بیک وقت زینت بخشی ۔ بغداد کے لوگ آپ کے درس اور تقاریر پرٹوٹ پڑتے ۔ آپ نے اخلاص نیت کے ساتھ و عظ و ارشاد ، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلب و روح کا فریضہ انجام دیا۔ نفاق، حُبّ دنیا کی تحقیر و تذلیل ، ایمانی شعور کے احیاء ، عقیدۂ آخرت کی تذکیر اور اس سرائے فانی کی بے ثباتی کے مقابلے میں اُس حیاتِ جاودانی کی اہمیت ، تہذیبِ اخلاق، توحید خالص اور اخلاص کا مل کی دعوت پر پورا زور صرف کیا۔ آپ کی کرامات کے تذکروں سے کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن ان کرامات میں سے سب سے بڑی اور حقیقی کرامت عالم اسلام اور مسلمانوں میں روحانیت کی نئی لہر پیدا کرنا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی اور روح اسلام عطا کی۔ آپ کا وجود اسلام اور مسلمانوں کے لئے باد بہاری تھا۔ جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی روح ایمانی پھونک دی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے سے پہلے گزرے ہوئے تارک دنیا صوفیاء کے طرز زندگی، جنگلوں اور بیانوں میں رہ کر ریاضت و نفس کشی کرنے کے برخلاف گمراہ خلقِ خدا ، اللہ کے بھٹکے ہوئے بندوں کی فائدے اور ہدایت کی خاطر دنیا میں رہ کر انسانوں کے درمیان زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

حضرت شیخ عبدالقاد رجیلانی ؒ بہت بڑے موحد اور داعی توحید تھے۔ آپ کے درس و اسباق میں ہمیشہ توحید کے پیمانے جھلکتے رہے۔ توحید کا مضمون آپ کے مقالات کی جان اور مواعظ کی روح رواں تھا۔ آخری دم تک آپ توحید کی نشرو اشاعت میں منہمک رہے۔ اللہ کے سوا ہر چیز کے فنا ہونے کی تعلیم دیتے، ایک جگہ ارشاد فرمایا ’’اللہ کے سوا کوئی فوق الاسباب مددگار و مشکل کشا نہیں۔ سنت کی اتباع و پیروی اور اس کی تعلیم آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ دین کامل دو چیزوں میں ہے اللہ کی معرفت جو قرآن سے حاصل ہوتی ہے اور سنت کی پیروی‘‘۔

تاریخ کے مطالعے سےیہ پتا چلتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے جس دور میں دین کے احیاء کا فریضہ انجام دیا اور اسلام کی گری ہوئی عمارت کی تشکیل نو کی، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کے دار الخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی لایعنی دینی مسئلے پر مناظرے ہو رہے تھے ۔ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے چار مختلف چورا ہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے۔ ابھی امت اور مسلمان اس طرح کے لایعنی دینی مناظروں ہی میں الجھے ہوئے گتھم گتھا تھے کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کے گلی کوچوں میں داخل ہو گئی اور سب کوتہس نہس کر دیا۔

آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کئے اور شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے احیائے دین کے کارنامے کو انجام دیئے سیکڑوں برس گزر چکے ہیں، مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں اور امتِ محمدیہ ﷺ نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو۔ ہر فرقہ اور مسلک صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کے دعوے کر رہے ہیں اور دورِ حاضر کا ہلاکو خان امت مسلمہ اور مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے نیست و نابود کرتا آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ 

افغانستان، لیبیا، عراق، لبنان کے بعد شام کے بچوں کٹٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ فلسطین میں آج نئی کربلا برپا ہے، جہاں بے شمار فلسطینی مظلوم مسلمان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں اورپیاسے ہی جام شہادت نوش کر رہے ہیں،اور حوّا کی بیٹیاںاور ناجانے کتنی مظلوم مسلمان بچیاں چادر کا کونہ تلاش کر رہی ہیں اور ہم خاموشی سے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان حالات میں آج امت کوپھر ایک محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی آمد کا انتظار ہے۔ آپ کی یاد مناتے ہوئے، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات، وحدتِ امت ،احیائے دین کے لئے آپ کی جدوجہد و جذبہ آج بھی موجود ہے۔یہ ہمارے عمل کے لئے مشعلِ راہ ہے، اگر امت کو اس گمراہی، ذلت، رسوائی تباہی و بربادی اور خون کے دریا سے پار ہونا ہے تو محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی زندگی،اُن کی تعلیماتِ توحید و رسالت ان دگرگوں حالات میں امت کی دستگیری کے لئے موجود ہیں ۔ ہم ان تعلیمات کو اپنا کر اور آپ کے نقشِ قدم پر چل کر آج کی اسلام دشمن قوتوں کو نیست و نابود اور امت کو سربلند ،دین کا احیاء اور اسلام کو غالب کر سکتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ

سینے میں جو یادِ شہِ بغداد رہے گی

دنیائے محبت مِری آباد رہے گی

کر سکتی نہیں قید مجھے کوئی بھی زنجیر

آوازِ صداقت مِری آزاد رہے گی

ہر اینٹ پہ لکھا ہے تِرا اسمِ گرامی

مضبوط یقیناً مِری بنیاد رہے گی

مجھ ایک اکیلے میں بھی آباد ہے دنیا

اُمید ہے مجھ کو کہ یہ آباد رہے گی

گونجے گی مِرے خوں، مِری رگ رگ میں ہمیشہ

ہونٹوں پہ مِرے عشق کی فریاد رہے گی

آتی ہے مجھے باغِ رسالتؐ سے وہ خوش بو

میرے چمنِ دل کی جو بنیاد رہے گی

ہر لحظہ ندیم، اُن کا وِرد اپنی زباں پر

ہستی مِری اِس ذکر سے ہی شاد رہے گی

(ریاض ندیم نیازی)