جمال احمد جمال
ہمارے دِل کی دُعا ہے، نہ مُدّعا مقصود
نہیں ہے کوئی تمنّا بجز، خُدا مقصود
نہ ابتدا کی کوئی ہے، نہ انتہا کی خبر
ہمیں نفس بہ نفس اُس کی ہے رضا مقصود
اسی کی ذات دِلِ ناتواں میں رہتی ہے
بیانِ حمد کو ہے شوکتِ نَوا مقصود
ہر ایک شے کو وجود اُس کے حکمِ کُن سے ملا
ہے اُس کی ذات ہی اِک مرکزِ وفا مقصود
وہ کارسازِ دوعَالَم وہ رہنمائے حیات
ہے اُس کے عشق کا ہی دَردِ لا دَوا مقصود
وہ لاشریک وہ یکتا وہ قادرِ مطلق
جمالِ شرحِ حقیقت سے آشنا مقصود