• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں احترامِ انسانیت اور انسانی حُقوق کا فلسفہ

مولانا نعمان نعیم

انسانی حقوق (Human rights) آزادی اور حقوق کا وہ نظریہ ہے جس کے تمام انسان یکساں طور پر حقدار ہیں۔ اس نظریے میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں، جس کے تحت کرہ ٔارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی احتیاجات اور سہولیات کے لحاظ سے حقوق کے حقدار ہیں۔

اسلام اپنے پیروکاروں کی زندگی کو صرف عبادات مثلاًنماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ، جہاد، اور دعوت و تبلیغ تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمدﷺتھے، جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوۂ حسنہ ہے۔نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلویہی ہے کہ آپ ﷺنے صرف نماز روزے کی تلقین نہیں کی ،بلکہ حقوق انسانی کا جامع تصور بھی پیش کیا،اس حوالے سے امت کو پیغام دینے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں خود بھی کام کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے ، اس میں خدمت خلق ، حقوق انسانیت ،رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں، بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے ، اللہ کی محبت میں اپنامال قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(حقیقی ضرورت مندوں)، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔(سورۃالبقرہ )

پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے انسانوں کے جذبات و احساسات کی قدردانی اور باہمی احترام و رواداری کو قائم کرنے کی قدم قدم پر تاکید کی ہے، نیز ہر ایسے عمل سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،جس سے انسانی جذبات مجروح ہوتے ہوں اور انسانوں کومعمولی اذیت پہنچتی ہو۔ دین اسلام میں انسانیت کو کتنا بڑا مقام دیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر تمام انسانوں کے حقوق متعین کیے ہیں، والدین کے حقوق، اولاد کے حقو ق، میاں بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق، مسافروں کے حقوق۔ غرض سب ہی کے جملہ حقوق کا تعین کیا ہے اور انہیں پورا کرنے کی وصیت کی ہے۔

اگر انسان آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تودنیا میں فساد ضرور برپا ہوگا، مثلاً بادشاہ اور حاکم اپنے حقوق ادا نہ کریں تو رعایا کی زندگی تکالیف ومشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو بیوی کی زندگی دنیا ہی میں جہنم بن جائے گی، بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہوجائے گا، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تومحبت و امن کی فضا مکدر ہوجائے گی۔ 

امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہوجائے گی، بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت و وبال بن جائے گی اور اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا اور سکون نہیں ملے گا،غرضیکہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہوجائے گااور امن قائم نہ رہ سکے گا، پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق جو اللہ تعالیٰ نے لازم کیے ہیں ادا کرتے رہیں۔یہی اسلام کی اولین تعلیم اور نبی پاکﷺ کامقصدِ بعثت ہے۔

آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی۔ ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ آئیے اختصار کے ساتھ دین اسلام کے صرف معاشرتی حقوق پرایک نظر ڈالی جائے !!

حضور اکرم ﷺنے ا رشاد فرمایا:کامل موٴمن وہ ہے جس کی ایذا سے لوگ مامون و محفوظ ہوں۔ (صحیح بخاری)نیز یہ بھی فرمایا:بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔(کنز العمال)

حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جودنیامیں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف اور مصیبت کودور کردے (یا دورکرنے میں مددکردے)تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اُخروی مصیبت کو ہٹادے گا۔نیز جودنیا میں مشکلات میں گھرے ہوئے کسی شخص کے لیے آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرے تواللہ تعالیٰ اس کے لیے (دونوں جہاں کی)آسانیاں پیدا فرمادے گااوراللہ تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتا ہے جو اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا ہے۔(ترمذی)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: وہ شخص مومن کامل نہیں جو خود سیر ہو کر رات گزارے اور ساتھ میں اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے اور اسے علم ہو۔(معجم طبرانی) مزید فرمایا: اللہ کی قسم: وہ شخص موٴمن نہیں ،وہ شخص موٴمن نہیں، وہ شخص موٴمن نہیں! لوگوں نے پوچھاکون موٴمن نہیں؟ ارشاد فرمایا: جس سے اس کاپڑوسی مامون و محفوظ نہیں۔ (بخاری و مسلم)

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اپنے آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں:( ۱)اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔(۲) مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرے۔(۳) چھوٹوں پر شفقت کرے۔ (۴) علما ء کی تعظیم کرے۔ (۵) کسی کوتکلیف دے کر ذلیل نہ کرے۔ (۶)ڈرا ڈرا کر کافر نہ کرے۔ (۷) نسل کشی نہ کرے۔ (۸) اپنا دروازہ ان کے لیے بند نہ کرے، یہاں تک کہ کمزوروں پر طاقتور ظلم کرنے لگ جائیں ۔(سنن کبریٰ للبیہقی)اختصار کے پیش نظر یہاں بہ طور نمونہ صرف چند ہی حقوق کے بیان پر اکتفا کیاگیا،ورنہ معاشرتی حقوق کی تفصیل میں علمائے کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ علم کا ذوق اور عمل کا شوق رکھنے والے حضرات ان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کی بدترین تباہ کاریوں اور اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے پیش نظرلیگ آف نیشنز کو ختم کرکے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے چارٹر میں انسانی حقوق کی حفاظت کی شق پہلے ہی سے شامل تھی، تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1993ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام تیار کیا گیا جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ، کانفرنس میں 171 ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی، اسی مناسبت سے ہرسال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد ، انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اوربہتر ین زندگی گزارنے کے لیے اچھے ماحول کو یقینی بنانا،نیز ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرناہے۔

جب کبھی اسلامی ممالک میں کوئی معمولی ساواقعہ دانستہ یا نادانستہ رونما ہوجاتا ہے تو انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ فلاں اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، انسانی اقدار و روایات کی سرعام پامالی ہوئی اور فلاں عمل کے ذریعے مذہبی تنگ نظری کا ثبوت پیش کیا گیا وغیرہ، بعدازاں اقوام متحدہ سمیت تمام یورپی ممالک کے ذریعے اس ملک پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ فوری طور پرعملی کارروائی کی جائے اور فلاں فلاں مجرم یا جماعت کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، لیکن انہی اسرائیل، امریکہ و یورپ کے ہاتھوں آئے روز انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہوتی ہے اس پر نہ تو اقوام متحدہ کے ناخداوٴوں کو اپنا فرض یاد آتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ٹھیکے دار چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔

سوچنے والی بات ہے کہ کیا انسانی حقوق کے علم برداروں کوبرما کے مظلوم مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا؟کیا فلسطین کے مسلمان ظلم وبربریت کی چکی میں پستے دکھائی نہیں دیتے؟مسئلہ فلسطین پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے ملک پر قبضہ کرے، مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے چاہئیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، مظلوم فلسطینی مسلمانوں کےلیے خوراک، ادویات سمیت بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے مسلمہ امہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس وقت امت مسلمہ کو اتحاد کی ضرورت ہے،ہم سب فلسطین کے مسئلے پر یکجا ہیں۔

حماس کا حملہ دہائیوں سے جاری نسل کشی کے خلاف ایک ردعمل ہے، فلسطینیوں کی امداد کے لئے بین الاقوامی فلسطین فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسے ظلم و دہشتگردی کہنا ناکافی ہے۔ مسئلہ فلسطین کا تعلق قبلہ اول سے ہے، کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے ملک پر قبضہ کرے۔ آزادی فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ حماس کی اس جدوجہد نے ہمیں جھنجھوڑا ہے، ہمیں ان کی امداد اور ساتھ دینا چاہیے۔اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی بجلی، پانی اور ایندھن بھی بند کردیا گیا ہے جس کے بعد سے غزہ میں انسانی بحران سر اٹھا رہا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات پر مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بڑی حد تک خاموش نظر آتی ہیں۔ تاریخ فلسطینیوں کی حمایت میں تاخیر اور چشم پوشی کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی۔اسلام رواداری ،انسان دوستی،امن و سلامتی ،احترام انسانیت اور انسانی حقوق کا جو فلسفہ و نظر یہ پیش کرتا ہے،پوری دنیا کی تاریخ اور مذاہب عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کے دہرے معیار کا خاتمہ اور تدارک و سدباب کیا جائے۔