تفہیم المسائل
سوال: میں نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران یہ الفاظ کہے: ’’ میں نے تین حرف استعمال کرکے تم کو آزاد کردیا ہے، اب مجھے نہیں رکھنا ہے ‘‘، ان کا شرعی حکم کیاہے ؟،(سہیل ، کراچی )
جواب: سوال میں مذکور الفاظ :’’ میں نے تم کو آزاد کردیاہے ‘‘، یہ اُن الفاظ کنایہ میں سے ہیں ،جو جواب میں متعین ہیں اور مذاکرۂ طلاق اور جھگڑے اور غصے کی حالت میں ان الفاظ سے نیت کے بغیر بھی ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے اور متعدد بار بولنے کے باوجود ان سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ، اس لیے کہ طلاقِ بائن کے بعد مزید طلاقِ بائن کے الفاظ بولے جائیں اور اُنھیں پہلے کی خبربنانا ممکن ہو تو انھیں پہلی طلاق کی خبر قرار دیں گے اور اُن سے مزید طلاق واقع نہیں ہوگی۔
صورتِ مسئولہ میں بر صدقِ بیان سائل ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے ،طلاقِ بائن سے نکاح فوری طور پر ختم ہوجاتا ہے ، اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو دو گواہوں کی موجودگی میں عدت کے اندر یا عدت گزرنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرسکتے ہیں ،محض رجوع کافی نہیں ہوگا۔
علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ مذاکرۂ طلاق کے دوران کہے جانے والے الفاظِ طلاق کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اگر مذاکرہ ٔطلاق کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا:تم آزاد ہو،تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر وہ کہے: میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو قضاء ً اُس کی تصدیق نہیں کی جائے گی،(فتاویٰ ہندیہ ،ج:1ص:375)‘‘۔