• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ نے 7اکتوبر سے حماس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے بڑے پیمانے پر شروع کردہ انتقامی کارروائی کے بعد سے وسیع پیمانے پر سفارتکاری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور صدر ایردوان (تا دم تحریر ) 24ریاستی یا حکومتی سربراہاں سے ٹیلی فونک رابطہ قائم کرتے ہوئے اسرائیل کے ظلم و ستم کو رکوانے کیلئے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے نہ صرف علاقائی ممالک کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے اپنے ہم منصبوں سے ون آن ون ملاقات کی بلکہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ بھی قائم کررکھا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی کوئی راہ نکالی جاسکے۔

ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ٹی آر ٹی کو تفصیلی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کیلئے دو ریاستوں پر مشتمل فارمولے اور اس کیلئےترکیہ کےفلسطین سے متعلق دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ ضامن ملک کے طورپراپنی خدمات پیش کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل بھی اپنے کسی اتحادی ملک کو ضامن ملک کی حیثیت سے پیش کرسکتا ہے اور اس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان (فلسطین اور اسرائیل ) معاہدہ طے پانے کی صورت میں ترکیہ دیگر ضامن ممالک کے ساتھ مل کر اس معاہدے کی نگرانی کرسکتا ہے اور خطے میں صرف اسی صورت میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک کی فوجی اور سیاسی حمایت سے کچھ عرصے تک تو اسے اپنی فتح کے طور پر دیکھ سکتا ہے لیکن اسرائیل میں پائیدار امن صرف فلسطین کی ریاست ہی کے قیام سے ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے،جسے اب کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔امریکہ اپنے بحری بیڑوں کو اسرائیل بھیج کر اسرائیل کے ظلم و ستم میں نہ صرف برابر کا شریک ہورہا ہے بلکہ اسرائیل کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے اس کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو شہہ دے رہا ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے حوالے سے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ اور خاص طور پر اسپتال پر وحشیانہ بمباری اور اس بمباری کے دوران ہی غزہ کے معصوم شہریوں کو شمال سے جنوب کی طرف زبردستی ہجرت پر مجبور کرنا ہم سب کیلئے ناقابلِ قبول ہے۔

ترک وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ 7اکتوبر کو حماس کےغزہ سے اسرائیل میںداخل ہوکر حملو ں نے پوری دنیاکو حیران کردیا ہے بلکہ اسرائیل کے سیکورٹی نظام کی قلعی بھی کھول دی ہے اور اسرائیل اپنی اس کمزوری کو انتقامی روپ دے کر اور بین الاقوامی جنگی جرائم کرتے ہوئے مساجد، کلیسائوں اور اسپتالوں پر بڑے پیمانے پر مسلسل بمباری جاری رکھے ہوئے ہے اور اس بمباری کے نتیجے میں (تا دم تحریر ) 4ہزار651افراد، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ،جاں بحق ہوچکے ہیں۔ صدر ایردوا ن نے اسرائیل کی جانب سے غزہ اسپتال پر وحشیانہ بمباری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تاریخ میں اس قسم کے قتلِ عام کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ ترکیہ بحران کو امن میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ ممالک سے قریبی رابطہ قائم رکھے ہوئے ہےاور مسئلہ فلسطین کے صرف اور صرف دو ریاستوں کے قیام ہی سے حل ہونے پر یقین رکھتاہے لیکن اسرائیل آج تک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ ترہورہا ہےتاہم اگر فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرلیا گیا تو پھر اس مسئلے کو سلجھانا نہایت آسان ہو جائے گا۔

وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ امریکہ بھی مسئلہ فلسطین کے دو ریاستوں کے قیام ہی سے حل ہونے پر یقین رکھتا ہےاور اس سلسلے میں ان کی امریکی حکام سے کئی بار بات چیت ہو چکی ہےلیکن اسرائیل کی ضد اور ہٹ دھرمی اس مسئلے کو حل ہونے نہیں دیتی ، اسرائیل اپنے اوپر ہونے والی تنقید اور دنیا بھر کے ردِ عمل کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کرتا کیونکہ کبھی اس کے خلاف کسی بھی سپر پاور نے پابندیاں لگانےکی جسارت ہی نہیں کی ۔ بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر بڑی عالمی طاقتیں اسرائیل کو دو ریاستی حل پر مجبور کرسکتی ہیں اور ترکیہ دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی بھر پور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے ترکیہ کے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ ترکیہ نے دیگر ممالک کے رہنمائوں کی جانب سے موصول ہونے والی کالز ہی کے نتیجےمیں مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکیہ خطے کا ایک ایسا ملک ہے جس پر تمام ممالک کی نگاہیں مرکوز ہیں ۔ اس لیےہماری کوشش ہے کہ ہم دیگر ضامن ممالک کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے اس مسئلے کو حل کریں۔

انہوں نے اسرائیل کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کمزور حریف کو مارنے اور کچلنےسے عبوری اور عارضی فتح کے نشے سے چور چور ہے ۔ اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ حماس نے اس پر کیوں حملے کیے؟ جب آپ کسی کی سرزمین پر قبضہ کریں گے اوراس کے مالک ہی کو اس کے گھر سے بے دخل کردیں گے تو کسی نہ کسی دن گھر کا اصل مالک چاہے وہ کیسی ہی حالت میں کیوں نہ ہو گرتے پڑتے ہی سہی اپنے گھر کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے اور حماس نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

تازہ ترین