سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نواز شریف کے لندن سے چار سال بعد واپس آنے اور اس سے دوروز قبل ان کے وکلا کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ملز ریفرنس میں حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں گرفتار کئے جانے سے روک دیا تھا۔ 21اکتوبر کو انھوں نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پرمتذکرہ کیسوں میں اپنی سزائوں کے خلاف زیرالتوا اپیلوں کی بحالی کی درخواستوں پر دستخط کئے تھے۔ تین روز بعدتوشہ خانہ کیس سمیت احتساب عدالت اور ہائی کورٹ نے بھی ضمانتوں میں توسیع کردی تھی۔ جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دورکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ملز ریفرنسوں میں دی گئی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کردیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق متذکرہ عدالتی فیصلہ یقینی دکھائی دے رہا تھا کیونکہ ماضی کے برعکس آج نیب ، سیاسی حالات اور زمینی حقائق سب کچھ بدل چکا ہے۔ قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے کیس آگے بڑھ رہے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کی سزائیں بھی کالعدم ہوجائیں۔ان کے بقول 2018میں جسطرح نواز شریف کو سزا دینے میں جلدی کی جارہی تھی، اب نظر آرہا ہے کہ آج انھیں اسی قدر تیزی سے ریلیف مل رہا ہے۔ادھر19 اکتوبر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی طرف سے پنجاب حکومت کو دی گئی تحریری درخواست بھی منظور کی جاچکی ہےجس میں کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے اور انھیں دی جانے والی سز ا حقائق کے برعکس تھی اور یہ کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ہیں جہاںعدالت نے توشہ خانہ کیس میں دائمی وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کرلی۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ریلیف کا یہ عمل کسی ایک سیاستدان تک محدود نہیں رہے گا کیونکہ ان کے بقول پی ٹی آئی حلقوں میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی مشکل میں کچھ کمی آتی دکھائی دے رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بارہا اس موقف کا آنا کہ انتخابات میں عام سیاسی جماعتوں کی شرکت یقینی بنانے کے ساتھ ان کی آزادانہ اور شفاف حیثیت قائم رکھیں گےاور خود نواز شریف کی وطن واپسی کے اثرات جہاں ان کی اپنی جماعت اور قومی سیاست پر نظر آرہے ہیں وہاں انتخابی عمل کے حوالے سے بھی خدشات کا خاتمہ ہوا اور حالات انتخابات کی طرف جاتے دکھائی دینے لگے ہیں۔اس وقت تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ووٹر لسٹوں کی تیاری کا عمل 2023کی مردم شماری کی روشنی میں اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق جاری ہے جبکہ وہ خود بھی دو روز قبل تمام شکوک و شبہات اور بیانات مسترد کرتے ہوئے انتخابات جنوری میں کرانے کاموقف دہراچکا اوراسکے مطابق 14دسمبر کے بعد کسی بھی وقت انکےشیڈول کا اعلان متوقع ہے۔یہ بات ہرذی شعور پاکستانی پر واضح ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں کی سیاست میں گالم گلوچ اور غیرذمہ دارانہ بیان بازی نے عدم سیاسی استحکام کو ہوا دی۔نوازشریف صحتمند سیاسی عمل کا جو ایجنڈا لے کر آئے ہیں ، اس کا اظہار وہ 21اکتوبرکولاہور کے جلسہ عام میں کرچکے ہیں اور قانونی محاذ پر سرخرو ہونے کے بعد ان کی اولین ترجیحات میں سیاسی قائدین سے ملاقاتیں اور تحمل و بردباری کا ماحول واپس لانےکی کوششیں شامل ہیں۔ یہ ایک بڑی مثبت اور پائیدار سوچ ہے اور سیاسی ناقدین نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنا اور صحتمند جمہوری عمل کا پروان چڑھنا جس قدر موجودہ حالات میں ضروری ہوچکا ہے شاید اس سے پہلےایسی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی جس کا ادراک ہرووٹر کو کرنا ہے۔