• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اکتوبر ‘‘ کا مہینہ ہر سال دنیا بھر میں ’’بریسٹ کینسر آگاہی‘‘ کے طوپر منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر سطح پر اس کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال کئی خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہورہی ہیں۔ چند سال قبل پاکستان میں ’’پنک پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کی جانب سے بریسٹ کینسرسے متعلق ایک ڈیجیٹل اپیلی کیشن ’’پنک پاکستان ‘‘متعارف کروائی گئی ہے،تاکہ خواتین کو اس بارے میں میں مختلف پمفلٹ ،سیمینارز،ٹاک شوز وغیرہ کے ذریعے آگاہ کیا جاسکے۔ خواتین میں بریسٹ کینسر کی شر ح 40 فی صد ہے۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً14 لاکھ خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوتی ہیں ،جن میں سے 60 ہزار موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ،یہ تعداد اُن خواتین کی ہے جو بر وقت علاج نہیں کراتیں یا اُنہیں بیماری کاپتا بہت دیر سے چلتا ہے۔ ڈبلیوایچ او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80فی صد خواتین علامات ظاہر ہونے کے تین ماہ بعد تک مستند ڈاکٹر سے رابطہ نہیں کرتی ہیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ متاثرہ خواتین کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب مرض کا فی حدتک بگڑ چکا ہوتا ہےاور علاج ناممکن ہوجاتا ہے۔معاشرتی اور سماجی دبائوکے پیش نظر بھی اس بیماری کو چھپایا جاتا ہے۔

بیماری اور علاج کے بارے میں معلومات کافقدان،بچوں کو دودھ نہ پلانا اور ناقص غذا بریسٹ کینسر میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے ۔اس ماہ کی مناسبت سے ماہرکینسر (آنکولوجسٹ )ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ سےگفتگو کی۔ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے 1989 ء میں ڈائو میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ،بعدازاں چھ سال کے لیےامریکاچلے گئے۔وہاں سے انٹرنل میڈیسن ،ہیموٹولوجی (خون کی بیماریاں )اور آنکولوجی(کینسر ) میں ریزیڈیسی اور فیلو شپ کی۔

بعدازاں دو سال لاہور کے نجی اسپتال میں اپنی خدمات سر انجام دیں، پھر چند سال کراچی میں لیاقت نیشنل اور آغا خان اسپتال میں کام کیا ۔فی الوقت ایس آئی یو ٹی اور شوکت خانم میں بطور ہیموٹولوجسٹ اور آنکولوجسٹ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

س: بریسٹ کینسر کیا ہے ؟اس کے ہونے کی وجوہات کیا ہوتی ہیں ؟

ج: بریسٹ کینسرچھاتی میں گلٹی کی شکل میں عام طور پر نمودار ہوتا ہے۔گلٹی کے محسوس ہونے سے پہلے میموگرام (اسپیشل ایکسر ےجو چھاتی میں موجود گلٹی کو دیکھنے کے لیے کیا جاتاہے) اس کو واضح کردیتا ہے ۔یہ گلٹی کیوں ہوتی ہے اس کی وجہ ہم ڈاکٹر زکو بھی نہیں معلوم۔ ہمارے جسم میں سیلز کے بننے اور ٹوٹنے کاعمل قدرتی پروگرامنگ کے تحت ہوتا ہےجب اس میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو سیلزکے ٹوٹنے کا عمل روک جاتا ہے لیکن بننے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو وہ سیلز ٹیومر بن جاتے ہیں اور جس ٹیومر میں پھیلنے کی صلاحیت ہو وہ ’’کینسر ‘‘ بن جا تا ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرنا چاہو ں گا کہ ٹیومر دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک’’ کینسریس‘‘ اور دوسرا ’’نان کینسریس ‘‘۔

اس کی اصل وجہ کیا ہے وہ 90 فی صد کیسز میں نہیں معلوم ہو تی اور جو 10 فی صد کیسز میں وجہ پتا چلتی ہے وہ ہےموروثی یعنی فیملی ہسٹری میں کینسر کے کیسز چلے آرہے ہیں ۔اس طر ح کے کیسز میں ہم گھر والوں کاایک ٹیسٹ کرتے ہیں،جس کو BRCA1"، BRCA2"‘‘ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ٹیسٹ مثبت آتا ہےاور ابتدائی مرحلے میں اسکریننگ کرنے کی ضرورت ہے تو ہم ایسے مریضوں کی میمو گرام کی جگہ ’’ایم آر آئی ‘‘ کرتے ہیں۔ 

اسکریننگ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کینسر کو زیرو اسٹیج میں ہی پکڑ لیا جاتا ہے اور اس طرح بروقت علاج کرکےمرض کو بڑھنے سے بچایا جاسکتا ہے ۔لیکن جن مریضوں میں کینسر وراثت سے چل رہا ہے تو ان کی اسکریننگ 40 سال سے پہلے شروع کردی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مریض کو 50 سال کی عمر میں بریسٹ کینسر ہوا ہے اور اس کی فیملی میں کسی کو 30 سال کی عمر میں کینسر ہوا تھا تواس فیملی میں20 سال سے اسکریننگ کا عمل شروع کروادیتے ہیں ۔یعنی 10 سال پہلے سے شروع کردیتے ہیں۔

س: اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر کے آگاہی کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے ؟

ج: یہ مہینہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے اس لیے منایا جاتا ہے ، تاکہ لوگوں کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جاسکے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو بریسٹ کینسر کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات نہیں ہے،جس کی وجہ سے وہ مرض کو بروقت تشخیص نہیں کر پاتے۔ اس مہینے کو منانے کا بنیادی مقصد بریسٹ کینسر سے متعلق علامات کے بارے میں آگاہی پھیلانا، معلومات فراہم کرنا اور بریسٹ کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز کو روکنا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال بریسٹ کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ کینسر تمام کینسرز میں سب سے عام کینسر ہے ،خواتین میں تو یہ کینسر سب سے زیادہ ہے لیکن مجموعی طور پر مرد اور خواتین میں ہر سال اس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ قابلِ علاج مرض ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس کو شروع کے اسٹیج میں ہی تشخیص کیا جاسکتا ہے، بہت کم کینسر ز ایسے ہوتے ہیں جن کی بروقت تشخیص ہوتی ہے۔

اسی لیے بر یسٹ کینسرکافی کیسز میں قابل علاج ہوتا ہے ،مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ آگاہی کی کمی کی وجہ سے خواتین یا مرد اس طر ح اپنے مرض کونہیں جانچ پاتے، ٹیسٹ نہیں کرواتے اور جب تک معالج سے رجوع کرتے ہیں مرض کافی حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے۔ اگر ہم مرض کی بر وقت تشخیص کرلیں تو علاج بھی بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے۔

س: کس عمر میں خواتین کو میموگرام کرواناچاہیے ؟

ج: 40 سال کی عمر کے بعد ہر سال میموگرام کروانا چاہیے ،مگر وسائل کی کمی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین نہیں کرواتیں۔ بیرون ِممالک میں خواتین ہر سال میموگرام لازمی کرواتی ہیں، اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کچھ کیسز میں کینسر کو زیرو اسٹیج پر ہی تشخص کرلیا جاتا ہے اور گلٹی کونکال کر کیسنر بننے والے سیلز کو ختم کردیا جاتا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میمو گرام 40 سال کے بعد ہی کیو ں کروانا چاہیے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ میموگرام کا ٹیسٹ کم عمر میں کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،کیوں کہ کم عمر میں چھاتی کی ساخت ایسی نہیں ہو تی کہ وہ میموگرام کو پک کرسکے ۔کم عمر کے مریضوں کاایم آر آئی ہی کیا جاتا ہے، مگر خواتین کو چاہیے کہ مہینے میں ایک مرتبہ چھاتی کا معائنہ لازمی کریں اگر ذرا سی بھی تبدیلی یا بغل میں گلٹی محسوس ہو،چھاتی میں سے کوئی مواد خارج ہو رہا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ایک بات میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ،’’ ہر گلٹی کینسر نہیں ہوتی‘‘۔ لہٰذا گلٹی کا نام سنتے ہی دل میں یہ خوف نہ لائیں کہ کینسر ہوگیا ہے ۔اسی ڈر کی وجہ سے ٹیسٹ بھی نہیں کرواتے اگر کینسر کی تشخص ہو گئی تو کیا کریں گے۔

س: اس بیماری کی شر ح مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ ہونے کی کیا وجہ ہے ؟

ج: جی بالکل ! بریسٹ کینسر کی شر ح مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ اگر 100 خواتین کوہے تو مشکل سے 1 مرد کو ہوتا ہے، اس کی اہم وجہ خواتین میں پائے جانے والے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز ہیں۔ بعض اوقات یہ ہارمونز بریسٹ کینسر کے ہونے کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے خواتین میں اس کی شر ح زیادہ ہے۔

س: اگر کسی خاتون کو ایک دفعہ بریسٹ کینسر ہوچکا ہو تو دوسری دفعہ ہونے کا خدشہ کتنے فی صد ہوتا ہے ؟

ج: جب کسی خاتون کو ایک بریسٹ میں کینسر ہوتا ہے تو دوسری طر ف ہونے کے امکانات بڑھ جاتےہیں ،اسی لیے ایسے مریضوں کا ہر چار مہینے بعد باقاعدگی سے میمو گرام اور کم ازکم 5 سال تک فالو اپ کیا جاتا ہے۔ اگر 5 سال تک کینسر واپس نہیں آتا تو دوبار اس بریسٹ میں کینسر ہونے کے خدشات کم ہو جاتے ہیں ۔شروع کے دوسال میں زیادہ امکانا ت ہوتے ہیں لیکن دوسرے بریسٹ میں کینسر ہونے خدشات اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے پہلے میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات100 فی صد حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔

س: بریسٹ کینسر کے طر یقے علاج کیا کیا ہیں اور کس اسٹیج پر کون کون سے طریقوں سے علاج کیا جا تا ہے ؟

ج: بریسٹ کینسر کے علاج کے کئی مرحلے ہوتے ہیں ،جیسا کہ سرجری، کیموتھراپی اور ریڈیشن ۔ سب سے اہم علاج سر جری ہے ،مگر سر جری بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ایک میں پوری چھاتی نکال دی جاتی ہے اور دوسرے میں صرف گلٹی نکالی جاتی ہے۔ دونوں میں سے کونسی سرجری کرنی ہے یہ فیصلہ مرض کی نوعیت ،چھاتی کا سائز اور بعد میں ہونے والی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے ۔اگر مرض پھیلا ہوا نہیں ہے تو سر جری لازمی کی جاتی ہے اور اگر پھیلا ہوا ہے تو سر جری نہیں کی جاتی ،کیوں کہ پھر اس کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

دوسرا مرحلہ کیمو تھراپی ہے جو کہ انجکیشن کی صورت میں دوائیوں کے ذریعے کی جاتی ہے، ریڈیشن شعاعوں سے کی جاتی ہے ،جس کا مقصد کینسر یس سیلزکومکمل طورپر ختم کرنا ہوتا ہے اور یہ اسی حصے پر دی جاتی ہے جہاں کینسر کے سیلز ہوتے ہیں،جن خواتین کی چھاتی کی سرجری نہیں کی جاتی ان کو ریڈیشن لازمی دی جاتی ہے اور جن کی سر جری کی جاتی ہے ،ان میں کچھ کو دی جاتی ہے ،کچھ کو نہیں دی جاتی۔

علاوہ ازیں ہارمونل تھراپی(اس کے لیے بھی ٹیسٹ کیا جاتاہے) اور ٹارگیٹڈ تھراپی سے بھی علاج کیا جاتا ہے ۔کچھ مریضوں کا پانچوں طر یقوں سے علاج کیا جا تا ہے ۔ پہلے اسٹیج میں میں مرض کے صحیح ہونے کے امکانات 90فی صد، دوسرے میں 70 سے 60 فی صد ہے اور تیسرے میں 40 سے 30 فی صد ہوتے ہیں اور چوتھے میں بچنے کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں ۔کیمو دینے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کینسر کے سیلز ہمیں نظر نہیں آرہے ان کو دوائوں کے ذریعے مارا جاتا ہے۔

کچھ مریض ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیمو دینے سے مرض واپس نہیں آئے گا، اس کے لیے ہماری اسٹیڈیز ہوتی ہیں جن کی بناء پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کن مریضوں میں کیمو زیادہ فائدے مند ہوگی کن میں نہیں ہوگی۔ یہاں یہ بات واضح کردوں کہ جن مریضوں میں کینسر کے واپس آنے کے امکانات کم ہوتے ہیں، ان میں کیمو اتنی زیادہ موثرنہیں ہوتی اور جن میں مرض کے دوبارہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ان میں کیمو زیاد ہ موثر ہوتی ہے۔ لیکن ہم دیتے ہر مریض کو ہیں۔ مرض کی تشخیص ہونے کے بعد ہم ٹیسٹ کے ذریعے یہ دیکھتے ہیں کہ بیماری جگر ، پھیپھڑوں اور ہڈیوں تک تو نہیں پہنچی ۔ان تین جگہوں پر مرض کے اثرات زیادہ پڑتے ہیں ۔

س: بایو پسی کیا ہے اور کیوں کی جاتی ہے ؟

ج: بایو پسی ایک ٹیسٹ ہے جو یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ جو گلٹی ہے ،وہ کینسریس ہے یا نہیں ۔بایو پسی کے بغیر علاج شروع نہیں کیا جا سکتا ہےاور اس سے پہلے ہم مریض کو کچھ بتا تے بھی نہیں ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ بایوسپی سے مرض پھیل جاتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ علاج شروع کرنے سے پہلے بایوپسی لازمی ہے ، کیوں کہ اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاج کس طر ح کرنا ہے اور یہ کینسر کے علاج کا پہلا قدم ہے۔

اس کےبعد اسٹیجنگ میں سی ٹی اسکین ،بون اسکین اور دیگر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ،یہ دیکھنے کے لیے بیماری کہی اور تو نہیں پھیل گئی ،مگر افسو س اس بات کا ہے کہ آگاہی کی کمی کی وجہ سے اکثر خواتین کو تیسرے یا چوتھے اسٹیج میں بریسٹ کینسر کا بتا چلتا ہے اور اس وقت تک مرض کافی حد تک بگڑ چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے علاج کے نتائج اتنے اچھے نہیں ہیں۔

س: کیموتھراپی کے اثرات جسم کے دوسرے اعضاء کو متاثر کرتے ہیں؟

ج: کیموتھراپی ایک بم ہے وہ ٹارگیٹڈ جگہ پر تو اثر انداز ہوتا ہے لیکن وہ ان سیلز کو بھی متاثر کرتا ہے جو بہت تیزی سے بڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بال جوکہ تیزی سے بڑھتے ہیں ،اسی لیے زیادہ تر خواتین کے کیمو کے دوران بال جھڑ جاتے ہیں، بعض کی جلد (اسکن ) خراب ہوجاتی ہے اور قوت ِمدافعت بھی کمزور ہوجاتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کچھ ادویات ایسی آجائیں جو کیمو کے نقصانات کو کم کردیں ،کیوں کہ بریسٹ کینسر کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات حاصل ہورہی ہیں ،اتنے ہی تیزی سے نئے نئے طر یقے ِعلاج متعارف ہورہے ہیں۔

س: بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا خواتین کو کوئی اور کینسر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ؟

ج: بریسٹ کینسر کے اثرات پھیپھڑوں ،جگر اور ہڈیوں پر سب سے زیادہ پڑتے ہیں تو یہی کینسر پھیل کر ان تینوں اعضا ء تک جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ٹیسٹ اُس وقت کرتے ہیں جب ہمیں بیماری کے واپس آنے کا خدشہ لگ رہا ہو یا مریض کو کسی قسم کی شکایت ہورہی ہو۔ 

مثلا ً کھانسی ہورہی ہو ،بخار رہے لگا ہو ۔عا م طور پر بریسٹ کینسر کے مریضوں کو تین سے چھ ماہ کے وقفے سے چیک اپ کے لیے بلایا جاتا ہے ۔اگر ضرورت محسوس ہوتی ہے تو مزید ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور اگر نہیں ہوتی تو پھر سال میں ایک مرتبہ میمو گرام کیا جاتا ہے ۔

س: ہر سال بریسٹ کینسر کے کیسز بڑھنے کی کیا وجہ ہے ؟اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

ج: میر ے خیال میں بریسٹ کینسر کے کیسز بڑھ اس لیے رہے ہیں ،کیوں کہ لوگوں میں آگاہی آرہی ہے۔ اب جیسے جیسے پتا چل رہا ہےلوگ اپناٹیسٹ کرواتے ہیں۔ آگاہی پھیلانےسے زیادہ مریض آئیں گے اور ابتدائی اسٹیج پر ان کے مرض کی تشخیص ہو جائے گی اور مرض بھی قابل علاج ہوگا۔

اس طرح پاکستان میں بریسٹ کینسر کے باعث ہونے والی اموات کا گراف بھی نیچے آجائے گا۔ کسی حد تک کیسز بڑھنے کی وجہ ماحول بھی ہے ۔جنک فوڈز اور باہر کے کھانوں سے گریز کرکے ،تمباکونوشی کا استعمال ختم کرکے ،لوکل فوڈ کالرز کا استعمال چھوڑ کر ہم کافی حد تک کینسرز کی شر ح کو قابو کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آلودہ پانی بھی اس میں اہم وجہ ہے۔

س: اس بیماری پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے ؟

ج: متوازن غذا اور ورزش کینسر سے بچاؤ کے اہم عناصر ہیں ۔ ہمارے معاشرے میںآج بھی کچھ لوگ بریسٹ کینسر کو ممنوع سمجھتے ہیں ،جس کی وجہ سے خواتین اپنی بیماری کے بارے میں کسی کو بتاتی نہیں ہیں۔ گھر والوں سے بھی چھپاتی ہیں ،جس سےمرض بڑھ کر پے چیدہ ہوجاتا ہے۔ دوسری بات ڈاکٹرز ،مریض اور اس کی فیملی میں آگاہی سے بھی قابو کیا جاسکتا ہے ۔

س: اگر کسی لڑکی کو شادی سے پہلے بریسٹ کینسر ہو جائے تو کیا اس کو بعد میں conceive کرنے میں مسائل ہوتے ہیں ؟

ج: اگر کسی کو کم عمر میں بریسٹ کینسر ہو جائے تو اس کو شادی کے بعد تولیدی نظام میں مسائل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے،مگر ضروری نہیں ہے کہ سب کو ہو ،کچھ کو مسائل ہوتے ہیں اور کچھ کو نہیں ہوتے ،کیوں کہ سب کے مرض کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن اب جو کیموتھراپی دی جارہی ہے وہ مریضوں کو اتنا زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کو تو بہت ہی کم متاثر کرتی ہے۔40 سال سے زائد خواتین کو تو مسائل ہو سکتے ہیں، مگر اس سے کم عمر خواتین کو اتنے زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، کیوں کہ کم عمر میں بیماری سے بآسانی لڑا جاسکتا ہے۔

س: کیا دوران ِحامل بھی کسی خاتون کو بریسٹ کینسر کی تشخص ہوسکتی ہے ؟

ج: جی،کچھ خواتین کو دوران ِحامل بھی بریسٹ کینسر ہوتا ہے اور وہ کینسر کافی شدید ہوتا ہے ،کیوں کہ اُس وقت ہارمونل تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔حمل کے دوران ہم کچھ ٹیسٹ کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ مثلا ًبایوپسی کرسکتے ہیں ،میمو گرام نہیں کرتے، سی ٹی اسکین نہیں کرتے ۔پہلے ٹرائی مسٹر(شروع کے تین ماہ ) میں کیمو نہیں دیتے۔

بعدازاں کیمو تھراپی دے سکتے ہیں ،کیو ں کہ تین مہینے کے بعد اس کے اثرات بچے پر نہیں پڑتے ۔ ضرورت پڑنے پر سر جری بھی کی جاسکتی ۔البتہ ریڈیشن، ادویات اور ہارمونل ٹرٹیمنٹ نہیں دیتے ،کیوں کہ اس کے اثر بچے پر پڑتے ہیں۔ ہارمونل ٹرٹیمنٹ کچھ کیسز میں پانچ سال اور بعض میں دس سال تک چلتا ہے۔

س: پاکستان میں اس وقت بریسٹ کینسر کی صورت ِحال کیا ہے ؟

ج: پاکستان میں بریسٹ کینسر کی صورت ِحال کافی گھمبیر ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق کینسر کی شر ح میں 22 فی صد بر یسٹ کینسر ہے ۔یعنی ہر چار کینسر میں سے ایک بریسٹ کینسر ہے لیکن بروقت تشخص، بہادری اور ہمت سے مقابلہ کرکے صورت ِحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گا کہ کینسر کے مریضوں کو فیملی سپورٹ کی بہت ضرورت ہوتی ہے، اگر گھر والے مریض کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ بیماری کا مقابلہ نہیں کرسکےگا۔ سپورٹ کی بناء پر علاج کے مراحل آسانی سے گزر جاتے ہیں، اسی لیے کہتے ہیں ،’’کینسر صرف ایک فرد کو نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کو متاثر کرتا ہے ‘‘۔

صحت سے مزید