• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ بھی کیا دن تھے جب ایک بنا بنایا شاہکار مسخرہ میڈیا کو دستیاب تھا،ننھا منا اسکرپٹ چیونگم کی مانند کھینچنا اس کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا،پل میں تولہ پل میں کلو اس کیلئے ہی کہا جاسکتا ہے، اسے بولنے کا کینسر تھا ، بلاناغہ وہ جو بھی کہتا میڈیا کولاتعداد لطیفے مل جاتے، لمبی لمبی چھوڑتا ،بونگیاں ہونے کے باوجود سننے والے یقین کرلیتے ، طنز اور پھکڑ بازی کو عام کیا،بدتمیزی اسکی قربت کے حصول کی چابی قرار پائی،ہر دوسرے روزاسکی کھوکھلی دھمکیوں کا نیا سٹاک حاضر ہوجاتا، اپنےہر بیان، ہر دعوے کی تردید بھی خود کردیتا جس سے فوری نیا مواد بن جاتا ،سوشل میڈیا پر کام کرنیوالوں کا ایک پروجیکٹ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آجاتا ، کام کی اتنی بھرمار تھی کہ انکا کوئی کام ٹائم پر پورا نہیں ہوتا تھا ،لاکھوں نوجوانوں کا سوشل میڈیا کا روزگار لگ چکا تھا،لیکن جب سے وہ زندان میں گیا ہے اسکے چاہنے والوں کی اکثریت کا دھندا ٹھپ ہوگیا ہے، کبھی کبھی کوئی دلچسپ واقعہ جنم لیتا ہے تو وہ بھوکوں کی طرح اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنیکی کوشش میں جت جاتے ہیں،اس نےغیر اخلاقی الفاظ کےا ستعمال کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ اپنے ارد گرد ایسے ہنر مند بھونپو جمع کرلئے جو دن رات ایسی زبان ٹی وی پروگراموں میں استعمال کرتے جس سے اگلے دن کی شام کے ٹی وی شو بھی استفادہ کرلیتے، بیہودگی کامیابی کا ٹریڈ مارک قرار پائی،وڑ گئے،کلاس لے لینا و دیگر ناقابل اشاعت الفاظ ہنر قرار پائے،تن کر رکھ دیا،رگڑا لگایا ،لٹا دیں گے کی تکرار کرکے پوری قوم کو بدتمیز بناڈالا، سوشل میڈیا کی پیدائش کے بعدمین سٹریم میڈیااور نیوز ویب سائٹس بھی عجیب و غریب فنڈے میں پھنس چکی ہیںانھیں ہرلمحہ ریٹنگ چاہیے، وئیوز، کمنٹس، شیئرنگ سے بننے والی ریٹنگ کے حصول کی کوشش نہ ختم ہونیوالی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نےایک یونیورسٹی کا وزٹ کیا کرلیا متاثرین زمان پارک نے روایتی رنگ بازی شروع کردی، جس ادارے سے ڈاکٹر عمر سیف، پرویز ہود بھائی، حنا ربانی کھر، عادل نجم ، عائشہ جلال جیسے چمکتے دمکتے ستارے نکلے اسی ادارے کے سٹوڈنٹس نے وائرل ہونے کی چاہ میں بغیر سوچے سمجھے غیر منطقی سوال پوچھ کر ادارے کی عزت کومٹی میں ملا دیا،کچھ تو یہ کہتے پائے گئے کہ ہم نے وزیر اعظم کی کلاس لے لی،سوچیں کیا یہ نظریہ ادارے کے اساتذہ نے پڑھایا ہوگا ؟ نہیں نا، یہ تو سراسر بے راہ روی ہے ، یہ تو اظہار رائےکی آزادی اور شعور کی آڑ میںکیا گیا بدترین عمل ہے، انھیں یہ تو نہیں سکھایا گیا تھا کہ وہ مہمان کو یوں مخاطب کریں کہ آپ تعلیم کی عزت نہیں کرتے، جب قمر جاوید باوجوہ یہاں آیاتھا تو ان نابغوں نے تاخیر کا سوال کیوں نہیں اٹھایا؟ تب تو انھوں نے چوں بھی نہیں کی تھی،تب وہ اچھے بچوں کی طرح منتخب سوال کرنے پر کیوں راضی ہوگئے تھے؟اس وقت تقریب کے بعد کسی سٹوڈنٹ نے کسی پوڈ کاسٹ یا سوشل میڈیا پرانٹرویو نہیں دیا تھا؟تب کہاں گئی تھی انکی بہادری ؟ کہاںگیا تھا انکا شعور؟اصل بات یہ ہے کہ صرف ایک سویلین کے سامنے انکی نام نہاد بہادری امڈ کر باہر آگئی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اوپن فورم کو یقینی بنا کر گفتگو کرنیکی جو بنیاد رکھی وہ نہایت ہی خوش آئندہے جس پرانکی بےجا مخالفت کی جارہی ہے، یہاںسوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو آزادی اظہار رائے ، شعور، تعلیم ، سوال کرنے کی چاہ کو کب تدبر ، احتیاط، اخلاقیات اور سماجیات کے دائرے میں رکھنا آئیگا ، اساتذہ اور والدین ایک خاص حد تک نوجوانوں کو سکھا سکتے ہیں ، ایک حد تک ہی انکی تربیت کرسکتے ہیں،اس کے بعد چلنا، اٹھنا ، بیٹھنا، تول کربولنا،کسی خاص سوال کا منطقی جواب دینا اس اختیار کے تابع ہے جو اللہ نے ہر ذی شعور کو دیا ہے،اگر نوجوانوں کے جواب اور ردعمل ریڈ لائین کو کراس کرجائیں تو پھر انکا مستقبل مخدوش رہنے کا احتمال ہوتا ہے،آخر میں کچھ تفریح طبع ہوجائے،تصور کریں اگر سیاست کے وسیم اکرم پلس یعنی عثمان بزدارمذکورہ یونیورسٹی چلے جاتے اور انکی گفتگو براہ راست نشر کردی جاتی تو وہ کتنی جلدی وائرل ہوجاتے ،کتنی سیلفیاں بنتیں،کتنے قہقہے بلند ہوتے ،لاکھوں وئیوز آتے ، ہزراوں کمنٹس آتے، کلپ لاکھوں بارشیئر ہوتے، ٹک ٹاک کی تو برسات ہوجاتی اور عثمان بزدار بیٹھے بٹھائے سوشل میڈیا سٹار بن جاتے،آخری بات یہ ہے کہ نام نہاد ٹیپو سلطانوں کیلئے ایک خصوصی سیشن رکھا جائے جس کے مہمان خصوصی جناب کانسٹيبل شاہد جٹ صاحب ہوں او ر وہ بے لگام آزادی اظہار رائے کے شوقین تمام نوجوانوں کے سوالات کیمطابق ایسے جوابات دیں جن سے انھیں دائمی شفا ہو۔

تازہ ترین