’’ ورلڈ ذیابطیس ڈے‘‘ (WDD) ہر سال14 نومبر کو منایا جاتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اُس سائنس دان کی سال گرہ کا دن ہے، جس نے انسولین بنائی تھی اور دنیا کے اس محسن کا نام ہے، سر فریڈرک گرانٹ بینٹنگ۔اِس دن کے منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں موجود ذیابطیس سے متاثرہ افراد کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا جائے۔
نیز، اِس موقعے پر ماہرین آپس میں مل بیٹھتے ہیں، تحقیقات کا تبادلہ کیا جاتا ہے، سیمینارز، ورکشاپس ہوتی ہیں، جن میں ذیابطیس کے علاج اور اس سے بچائو کی حکمتِ عملی پر غور کیا جاتا ہے۔اِس سال 14نومبر کو ذیابطیس کا عالمی دن’’Access to diabetes care‘‘(ذیابطیس سے تحفّظ تک رسائی) کے تھیم کے تحت منایا جارہا ہے۔جب کہ سلوگن ہے’’ Know your risk, know your response‘‘ یعنی اپنے خطرات اور اپنے ردِ عمل سے متعلق جانیں۔
گویا ،رواں برس کی مہم اِس نقطے پر مرکوز ہے کہ دنیا بَھر کے باسی ذیابطیس ٹائپ ٹو کے خطرے سے آگاہ ہوں، اِس سے بچنے یا اِسے مؤخر کرنے کی تدابیر سے واقفیت حاصل کریں۔اگر خدانخواستہ کوئی ذیابطیس سے متاثر ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی پیچیدگیوں سے بچے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے،جب اُسے ذیابطیس سے متعلق درست آگاہی ہو۔اگر آپ ٹائپ ٹو ذیابطیس سے متعلق اچھی طرح جانتے ہوں گے، تب ہی بروقت اور درست علاج کی جانب گام زن ہوکر اس کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہو سکیں گے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ صحت بخش طرزِ زندگی اپنا کر ذیابطیس کی پیچیدگیوں سے بچائو ممکن ہے، مگر اِس کے لیے بھی صحت بخش عادات سے واقفیت ضروری ہے۔اگر شوگر سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کی بروقت تشخیص نہ ہو اور جلد علاج شروع نہ کیا جائے، تو یہ بہت ہی خطرناک صُورت اختیار کرجاتی ہیں۔
لہٰذا اس ضمن میں شعور و آگاہی اور ذیابطیس سے متعلق تعلیم تک رسائی ایک بہترین ٹُول ثابت ہوسکتی ہے، جس کے ذریعے صحت مند افراد کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع حاصل کیےجاسکتے ہیں۔ اور اگر آپ ابھی تک اِس مرض سے محفوظ ہیں، مگر ذیابطیس لاحق ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں، تب بھی درست معلومات آپ کو ذیابطیس سے بچاتی یا اس کے ہونے کو لمبے عرصے تک کے لیے ٹال سکتی ہیں۔اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ذیابطیس سے متعلق معلومات جہاں عام افراد کے لیے ضروری ہے، وہیں ہیلتھ کیئر پروفیشنل کی بھی جدید سائنسی خطوط پر تربیت ناگزیر ہے تاکہ وہ مریضوں کو درست معلومات فراہم کرسکیں۔
ذیابطیس آپ کے کس قدر قریب ہے، یہ جاننے کے لیے آپ ریپڈ اسکور سے مدد لے سکتے ہیں، جس کے ذریعے صرف 15سیکنڈز میں پتا چل جائے گا کہ آپ کو ذیابطیس ہونے کا خطرہ ہے یا نہیں۔
سوال: آپ کی عمر کتنی ہے؟
٭40 سے کم (0)٭40 اور 50 سال کے درمیان(1)٭50 سال سے زیادہ (3)
سوال: آپ کی کمر کا کیا سائز ہے؟
خواتین کے لیے:٭31.5انچ یا80 سینٹی میٹر سے کم (0)٭31.5انچ یا 80 سینٹی میٹر سے زیادہ (2)
مَردوں کے لیے :٭35.05انچ یا 90سینٹی میٹر سے کم (0) ٭35.5انچ یا 90 سینٹی میٹر سے زیادہ (2)
سوال :کیا آپ کے خاندان میں کسی کو شوگر ہے؟
٭جی نہیں (0)٭جی ہاں (1)
اب آپ اِس سوال نامے کے سامنے دیئے گئے اسکور کو جمع کریں، اگر آپ کا اسکور4 یا اس سے زیادہ ہے، تو پھر یاد رکھیے کہ آپ ذیابطیس کا شکار ہو چُکے ہیں یا اِس کی لپیٹ میں آنے ہی والے ہیں۔ یہ ریپڈ اسکور پاکستان کے صفِ اوّل کے ماہر اینڈو کرینولوجسٹ اور ڈائی بیٹالوجسٹ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط اور اُن کی ٹیم نے کئی سالوں کی محنت اور تحقیق کے بعد وضع کیا ہے۔ مضمون پڑھنے والے تمام قارئین اسے گزارش ہے کہ اپنا اسکور نکالیں اور دیکھیں کہ کہیں اُنھیں ذیابطیس لاحق ہونے کا خطرہ تو نہیں ہے۔
یہ ایک نہایت خطرناک بات ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں کیا جاتا ہے، جہاں ذیابطیس بہت عام ہے۔ وطنِ عزیز کی کُل آبادی کا 26.7فی صد اس مرض کا شکار ہے۔ گویا تقریباً 33ملین سے زاید افراد کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہے۔ پوری دنیا میں537ملین افراد ذیابطیس کے مریض ہیں، جب کہ پاکستان میں ٹائپ وَن ذیابطیس کے برعکس، ٹائپ ٹو مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔ٹائپ ٹو مریض وہ ہوتے ہیں، جن کے جسم میں انسولین توہوتی ہے، مگر وہ کام نہیں کر رہی ہوتی اور بعد میں اس کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔
ابتدا میں ٹیبلیٹس سے اس کا علاج کیا جاتا ہے، مگر آگے جاکر انسولین لینا پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ذیابطیس کے ٹائپ ٹو مریضوں کو علم ہی نہیں کہ وہ اس کا نشانہ بن چُکے ہیں، کیوں کہ ٹائپ ٹو کی ابتدائی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ بہرکیف، اگر آپ کو پتا چل گیا ہے کہ آپ ذیابطیس کے نشانے پر ہیں، تو فوری طور پر صحت بخش عادات اپنائیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
(1) روزانہ30 تا45 منٹ واک کیجیے، جہاں پیدل جایا جا سکتا ہو، وہاں پیدل ہی جائیں، اپنے کام خود کریں، سُست روی کی بجائے چُست روی اختیار کیجیے۔
یاد رکھیے، ورزش ہماری تین طرح سے مدد کرتی ہے۔(الف) اگر آپ صحت مند ہیں، تو یہ آپ کی صحت برقرار رکھتی ہے۔(ب) اگر آپ کو ذیابطیس ہونے کا خطرہ ہے، تو یہ اُسے ٹالتی یا طویل عرصے تک مؤخر کرتی ہے۔(ج) اگر آپ کو ذیابطیس ہے، تو ورزش کے ذریعے اُس کی پیچیدگیوں کا خطرہ کم ہو جائے گا اور آپ خود کو صحت مند محسوس کرنے لگیں گے۔ ورزش کرنے میں کوئی خرچ نہیں آتا۔
ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ جو افراد روزانہ1000 قدم چلتے ہیں، ان کی ادویہ میں کمی آجاتی ہے اور جو روزانہ 10000قدم چلتے ہیں، ان کی ادویہ بند ہو جاتی ہیں۔ ذیابطیس پری وینشن پروگرام میں دیکھا گیا کہ جو لوگ صرف ورزش اور غذائی پرہیز پر تھے، اُن میں سے58 فی صد افراد پِری ذیابطیس سے نکل کر صحت مند گروپ میں شامل ہوگئے۔
(2) پانی کا خوب استعمال کیجیے۔
(3) صحت بخش غذائوں مثلاً سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کیجیے۔ پروٹین کے لیے مچھلی یا مرغی کا گوشت استعمال کریں۔ پھلوں کے جوس نہ لیں، کیوں کہ پھل میں دو اجزا ہوتے ہیں فائبرز اور کاربوہائیڈریٹس، جب آپ جوس لیتے ہیں، تو صرف اور صرف کاربوہائیڈریٹس کا محلول رہ جاتا ہے، جو جسم کو فائدہ دینے کی بجائے بلڈ شوگر بڑھاتا ہے، لیکن جب پھل استعمال کرتے ہیں، تو یہ فائبر آہستہ آہستہ شوگر بڑھاتا ہے۔
(4) فاسٹ فوڈ، کولڈ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس سے اجتناب برتیں۔البتہ کبھی کبھار کے استعمال یا معمولی مقدار میں لینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
(5) وہ افراد، جنہیں ذیابطیس ہونے کا خطرہ ہے، چینی کی معمولی مقدار لے سکتے ہیں۔
(6) جب بھی بازار سے کوئی ڈبّا بند کھانا یا مشروب لیں، اس کا لیبل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
(7) اپنی نیند پوری کریں اور خود پر نماز کی پابندی لازم کرلیں۔
واضح رہے، ’’ذیابطیس ایجوکیشن‘‘ شوگر سے متاثرہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اِس ضمن میں علاقائی رسم و رواج، کھانے پینے اور رہن سہن کے طور طریقے مدّنظر رکھتے ہوئے مریضوں کی عام فہم زبان میں رہنمائی ہونی چاہیے۔ اِس مقصد کے لیے مریض کو انفرادی طور پر بھی ایجوکیٹ کرسکتے ہیں یا گروپ کی صُورت بھی آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔
نیز، الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب کہ اپنے کلینک میں چھوٹے چھوٹے اشتہارات لگائے جاسکتے ہیں، مریضوں کے لیے بروشر بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ’’عقل مند آدمی کے لیے بہترین مشروب پانی ہے‘‘ جب کہ ہم سافٹ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس کے دل دادہ ہیں۔
ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ انھیں ذیابطیس کی کون سی قسم لاحق ہے، اس کی بیماری کی فطرت (Nature) کیا ہے، علاج کے لیے کون سی ادویہ لینی ہیں اور کس وقت کتنی مقدار میں لینی ہیں، اگر وہ بیمار ہو جائیں، تو کیا کرنا ہے،کون سی غذائیں لینی ہیں، کون کون سے پھل کھائے جاسکتے ہیں، کب کون کون سے ٹیسٹ کروانے ہیں، اپنی شوگر گھر پر کب چیک کرنی ہے، شوگر بڑھنے اور کم ہونے کی علامات کیا ہیں، اگر شوگر گر جائے، تو کیا کرنا ہے، شوگر کی کیا کیا پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں اور ان کے لیے کون کون سے ٹیسٹ کب کروانے ہیں، انسولین یا ٹیبلیٹس لینے والوں کو ورزش کب اور کیسے کرنی ہے، پیروں کی حفاظت کا کیا طریقہ ہے، از خود پیروں کے معائنے میں کیا دیکھنا ہے، اگر شوگر بڑھ جائے، تو کیا کرنا ہے، شوگر کی ادویہ یا انسولین کب اور کیسے لینی ہے، انسولین لگانے کا طریقہ کیا ہے، اگر کوئی ایمرجینسی ہو جائے مثلاً مریض کے پیر میں زخم آجائے یا وہ بے ہوش ہو جائے یا اس کا بلڈ پریشر بڑھ جائے، تو اُسے کیا کرنا ہے اور اُس کے پاس اسپتال کا ایمرجینسی نمبر ہونا بھی ضروری ہے۔
ذیابطیس سے متعلق معلومات صرف مریض ہی نہیں، بلکہ اُس کے گھر والوں کی بھی ہونی چاہئیں تاکہ کسی ایمرجینسی کی صُورت میں وہ پریشان ہونے کی بجائے اُس کی درست طریقے سے مدد کرسکیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذیابطیس کے مریض اپنے ڈاکٹر کی ہدایات کی بجائے اپنے ایسے رشتے داروں اور دوستوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں، جنہیں پہلے سے شوگر ہو اور وہ مریض کو طرح طرح سے ڈراتے ہیں۔جب کہ ذیابطیس سے متعلق آگہی مثبت طور پر دی جاتی ہے، جس میں مریض کے تمام مسائل مدّنظر رکھے جاتے ہیں۔
مثلاً ایک مریض کو اُس کے دوست نے کہا’’ بھائی! پھل کو بالکل ہاتھ نہیں لگانا، ورنہ شوگر اِتنی بڑھ جائے گی کہ دل کام کرنا چھوڑ دے گا‘‘جب کہ ذیابطیس آگہی پروگرام میں اُسے بتایا جاتا ہے کہ وہ دن میں ایک یا دو پھل لے سکتا ہے، ایک درمیانہ پھل یا پھلوں کی چاٹ بغیر نمک، چینی اور چاٹ مسالے کے لینی ہے۔ ہاں، اگر چاہے، تو لیموں ڈال سکتا ہے یا ایک درمیانی پیالی میں پھلوں کی چاٹ لے سکتا ہے۔ پھل ہمیشہ کھانے کے 2گھنٹے بعد لیں۔
پھلوں میں فریکٹوز شوگر ہوتی ہے، جسے ہضم کرنے کے لیے انسولین درکار نہیں ہوتی، لیکن اگر پھل زیادہ مقدار میں کھائے جائیں، تو تو بلڈ شوگر بڑھ جائے گی۔ پاکستان کی ایک بڑی یونی ورسٹی میں ہونے والی ریسرچ سے پتا چلا کہ چیکو سے شوگر زیادہ بڑھتی ہے، مگر بدنام بے چارہ آم ہے، جو کہ سب کی جان ہے، لہٰذا ذیابطیس کے مریض تھوڑی مقدار میں آم کھا سکتے ہیں۔
نیز، اہلِ خانہ کو ذیابطیس کے مریضوں کے ساتھ رویّہ بہت مثبت رکھنا چاہیے۔ اگر وہ کوئی ایسی غذا کھا رہے ہیں، جس سے شوگر بڑھ سکتی ہے، تو اُنھیں پیار سے سمجھانا چاہیے، نہ کہ اُن کے ہاتھ سے چھین لی جائے، اِس طرح مریض افسردہ ہو جاتا ہے۔سو، انہیں وہ غذا چکھنے دیں اور ساتھ ہی بلڈ شوگر بڑھنے کے نقصانات سمجھائیں۔ اُن کے سامنے اُن لوگوں کی مثالیں رکھیں، جن کا شوگر کنٹرول بہت اچھا ہے اور وہ ذیابطیس کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔
اِسی طرح ذیابطیس کے مریضوں کی بھی ذمّے داری ہے کہ اُنھیں اگر کوئی مرض سے متعلق کسی قسم کا مشورہ دیتا ہے یا اُن کے علم میں کوئی بات آتی ہے، تو وہ اُس پر عمل سے قبل اپنے ذیابطیس کے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔ذہنی دباؤ، ذیابطیس کے مریضوں میں عام ہے، خاص طور پر مرض کے ابتدائی دنوں میں تو یہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے شوگر کنٹرول قدرے مشکل ہو جاتا ہے، لہٰذا ذیابطیس سے متعلق آگہی کا یہ لازمی جزو ہونا چاہیے کہ ایسے مریضوں کو ذہنی دباؤ پر قابو پانے کے طریقے بتائے جائیں۔
یاد رکھیے! ذیابطیس زندگی بھر ساتھ رہنے والا مرض ہے اور اس کے ساتھ صحت مند زندگی جینے کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ ہے سادہ طرزِ زندگی۔تو اگر آپ کا ڈاکٹر آپ کو ذیابطیس ایجوکیشن کی کلاس میں مدعو کرتا ہے، تو وقت نکال کر ضرور جایئے، وہاں ہونے والی گفتگو غور سے سنیے اور جو بات سمجھ نہ آئے، اُسے پوچھنے میں شرمندگی محسوس نہ کریں۔ شیخ سعدیؒ کا قول ہے’’کہ جو جتنا زیادہ پوچھتا ہے، وہ اُتنا زیادہ سیکھتا ہے۔‘‘ (مضمون نگار، کالج آف فیملی میڈیسن، کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور پرائمری کیئر ذیابطیس ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں)