• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2014ء وطن عزیز کے لئے انتہائی تکلیف کا سال کہا جا سکتا ہے۔ اس کے آغاز پر ہی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔ اسی پُرآشوب دور میں مذاکرات اور آپریشن دونوں کا راگ بیک وقت الاپا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے اور مذاکرات کس سے کئے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ آپ اچھے اور برے طالبان کا تعین کرتے ہیں اور اچھے طالبان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈالتے ہیں تو کیا ہم امن کی منزل کو حاصل کرسکتے ہیں؟ کیونکہ دہشت گردی کی کارروائیاں تو وہ عناصر کر رہے ہیں جنہیں ہم خراب طالبان کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ 2004ء سے پہلے یا نائن الیون تک ملک میں دہشت گردی کا نام و نشان نہ تھا اور جب سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جھونکا ہے، اس وقت سے ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ 90ء کی دہائی کے وسط میں ہی اپنا تشریح شدہ نظام شریعت نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ اس پس منظر میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں ایک تحریک چلی تھی جس کی قیادت مولانا صوفی محمد کر رہے تھے اور ان کی اعانت ملا فضل اللہ کر رہے تھے جو آج طالبان کے امیر ہیں۔تادم تحریربھی طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ اور حالات کو بہتر بنانے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اخلاقی طور پر حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری فریقین پر ہوتی ہے۔ جتنی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہے، اتنی ہی ذمہ داری طالبان پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کو مذاکرات کے لئے سازگار بنائیں اور اپنا مطالبات سامنے لائیں۔ ایسی صورت میں جب مسلح افواج کے دستوں پر گھات لگا کر حملے کئے جائیں اور دسیوں جوان شہید کر دیئے جائیں تو کس طرح مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ ایک سوال بھی ہے کہ ریاست پاکستان ایک ایسے گروہ سے مذاکرات کیوں کرے جو پاکستان میں رائج نظام کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اگر وہ مذاکرات آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے انہیں دہشت گردی کی راہ چھوڑنا پڑے گی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود عسکریت پسند گروہوں کی ہیئت ہمہ جہتی ہے۔ وہاں ایسے لوگ بھی مقیم ہیں جو یورپ سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ طالبان بھی موجود ہیں جو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے تابع ہیں اور وہ عناصر بھی ہیں جو پاکستان کے جغرافیہ میں رہتے تو ضرور ہیں لیکن اپنے آپ کو پاکستان میں رائج نظام کا باغی کہتے ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی ایسا ایجنڈا ترتیب پانا مشکل نظر آتا ہے جس پر فریقین بیٹھ کر بات کر سکیں۔ ماضی میں بھی مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی۔ کئی معاہدے تشکیل پائے لیکن بدقسمتی سے وہ روبہ عمل نہ لائے جاسکے لہٰذا اس تناظر میں ریاست پاکستان جو گومگو کیفیت کا شکار نظر آتی ہے، اسے اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
9ستمبر2013ء کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اس تذبذب سے حکومت کو نہ نکال سکی۔ گو کہ 11مئی کے انتخابات کے بعد موجودہ حکومت کو جمہورِ پاکستان نے واضح اختیار دیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک فلاحی اور پُرامن ریاست بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے۔ اس کے باوجود حکومت نے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے اکابرین سیاست کو اکٹھا کیا۔ گو کہ اس کے لئے سب سے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے جو اس قسم کی صورتحال سے ملک کو نکالنے کے لئے نہ صرف پالیسیاں تجویز کرے بلکہ طویل اور قلیل مدتی پروگرام بھی وضع کرے۔ گزشتہ دورِ حکومت کے روحِ رواں اب یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ آدھا اختیار عدلیہ لے گئی اور بچا کھچا اختیار فوج کے سربراہ پر ہتھیانے کا الزام عائد کیا۔ آج ایک بار پھر فوج دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور حکومت اس فکر میں ہے کہ مذاکرات کئے جائیں یا آپریشن؟ زمینی حقیقت اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ آپریشن ایک بہت مشکل اور بڑا فیصلہ ہوگا۔ عملی طور پر پہاڑی علاقوں میں کسی بڑی کارروائی کو عمل میں لانا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا جبکہ پہاڑوں پر مکین دہشت گردوں کے سرے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی تک جا پہنچے ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کا انتہائی منظم نیٹ ورک پنجاب میں بھی موجود ہے جو سردست کسی غیر اعلانیہ سمجھوتے کے تحت منجمد ہے لیکن کسی بڑی کارروائی کے نتیجے میں یہ نیٹ ورک بھی متحرک ہو سکتا ہے جو کسی بڑی خونریزی کا باعث ہوگا۔ اس پورے پس منظر میں بہتر یہ ہوگا کہ افواج پاکستان انتہائی محتاط اور مؤثر انداز میں ان طالبان گروہوں کے خلاف کارروائی کریں جو دہشت گردی کی کارروائیاں کر بھی رہے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ انہیں تسلیم بھی کر رہے ہیں اور یہ کارروائی اس وقت تک جاری رہے تاوقتیکہ یہ گروہ ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی میز پر نہ آجائیں۔ بصورتِ دیگر مذاکرات اور آپریشن متوازی طور پر نہیں چل سکیں گے۔ اس سے نہ صرف ان گروہوں کو تقویت ملے گی جو کمزور ہو گئے ہیں بلکہ وہ اپنے نیٹ ورک کو مزید مضبوط اور منظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا ایک بڑا شاخسانہ فرقہ وارانہ دہشت گردی بھی ہے جسے پولیس کے سربراہ کبھی سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں تو کبھی ان کے اشارے کالعدم تنظیموں کی جانب چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پولیس کی ذمہ داری صرف مجرموں کی نشاندہی تک محدود ہے یا پھر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا بھی ان کا کام ہے؟ تاکہ معاشرے میں جرم و سزا کا تصور قائم ہوسکے۔ حال ہی میں کراچی میں خفیہ پولیس کے ایک افسر نے دو افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تربیت پڑوسی اسلامی ملک میں ہوئی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سرکاری افسر نے اس قسم کا دعویٰ کیا ہو۔ مجموعی طور پر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی مخدوش ہے جو موجودہ صورتحال میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب پرویز مشرف کی عدالت میں عدم پیشی اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ کچھ طاقتوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ان کی مداخلت کا راستہ بدستور ہموار ہے اور وہ ان کے ٹرائل کو حتمی شکل اختیار نہیں کرنے دیں گے۔ سیاسی قائدین اور جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فیصلے کرنے میں دیر نہ کریں۔ ملک کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں اب دو ٹوک فیصلے کرنا ہوں گے۔
SMSرائے : (space) #AJAپیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں
تازہ ترین