• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے تعلیمی اداروں کےجہاں بے شمار مسائل ہیں وہاں اساتذہ کی تربیت کیلئے بھی کئی اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا وہ ماحول نہیں رہا جو کئی عشرے قبل تھا، اب اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاست بازی ہے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اور طلبا کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے اب صرف پڑھائی کیلئے کام نہیں کر رہے بلکہ وہاں کئی اور طرح کی سر گرمیاں بھی جاری ہیں۔ طلبامیں فون کا استعمال اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ وہ پڑھائی کی بجائے کئی کئی گھنٹے فون کے استعمال میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکے اور وہ آن لائن بدزبانی سے بچ سکیں۔اقوام متحدہ کے تعلیم،سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فونز کا بہت زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موبائل فونز پر زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کے جذباتی استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی تعلیم کیلئے معاون سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔یونیسکو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات سے خبردار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس کے سیکھنے اور معاشی افادیت کے حوالے سے مثبت اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے،جبکہ ہر تبدیلی کو پیشرفت نہیں قرار دیا جا سکتا، ہر نئی چیز ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔عالمی ادارے کے مطابق ڈیجیٹل انقلاب میں متعدد مواقع چھپے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات پر بھی بات کی جا رہی ہے، ایسی ہی توجہ تعلیم کے شعبے پر بھی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنانے اور طالبعلموں اور اساتذہ کی بہتری کیلئے ہونا چاہیے، مگر سب سے پہلے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن رابطے انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ دنیا بھر کے ممالک کو تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مفید بنانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بین الاقوامی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ اسکولوں اور گھروں میں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس یا لیپ ٹاپس کا بہت زیادہ استعمال طالبعلموں کی توجہ بٹانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث ان کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔دنیا بھر کے 200تعلیمی نظاموں کے تجزیے کے حوالے سے یونیسکو نے بتایا ہےکہ ہر 6میں سے ایک ملک نے اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی عائد کی ہے۔آپ حیران ہوں گےکہ میٹرک کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند میں 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس’’ پاسنگ مارکس‘‘ 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کیلئے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئے اور ہم تا حال انہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ’’اخلاقیات ‘‘ اور’’آداب‘‘ ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں‘‘۔بہر حال فرموداتِ حضرت علیؓ پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز ۔

تعلیمی اداروں کی اصلاح کیلئے ہمیں ٹیچرز کی طرف بھی توجہ بھی دینی ہے اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل بھی کرنا ہے تعلیمی اداروں کی ری کنسٹرکشن کی اشد ضرورت ہے ۔اگر ہم نے تعلیمی اداروں کی صحیح معنوں میںاصلاح کرنی ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی تبھی ایک مکمل معاشرہ تشکیل پائے گا۔

تازہ ترین