لندن ( جنگ نیوز) برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ’’یوم امن ‘‘ کے موقع پر فلسطین کی حمایت میں مارچ کے دوران لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے .
برطانوی میڈیا کے مطابق مارچ میں 5لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی جبکہ مارچ کے منتظمین نے بتایا کہ نیشنل مارچ فار فلسطین نامی ریلی میں 10لاکھ افراد نے شرکت کی ،ریلی میں یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی .
برطانوی پولیس نے اس موقع پر 82افراد کو گرفتار بھی کرلیا ، برطانیہ اور فرانس کے دارالحکومت فلسطین کی آزادی اور غزہ میں جنگ بندی کے مطالبوں کے نعروں سے گونج اٹھے۔فلسطین کے حامیوں نے غزہ جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا.
،لندن کے احتجاج سے آزاد فلسطین، اب جنگ بندی کرو اور اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، کے نعرے بلند ہوئے۔جبکہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہزاروں افراد نےمظاہرہ کیا، مظاہرین غزہ میں قتل عام بند کرو کے نعرے لگارہے تھے۔
بائیں بازو کے منتظمین نے فرانس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرے۔اپنے کندھوں پر فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے انجینئر اہلم تریکی نے کہا کہ میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے فلسطینی کاز کی حمایت کرنے آئی ہوں۔85 سالہ ٹریڈ یونینسٹ کلاڈ مارل نے کہا کہ یہ بنیادی بات ہے کہ ایک کارکن یا عام شہری کے طور پر آپ کو فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
قبل ازیں،برطانیہ میں آرمسٹائس ڈے پر قومی مارچ برائے فلسطین کے لئے مقرر کیے جانے پر برطانوی حکام نے پریشانی کا خدشہ ظاہر کیا تھا ، جو کہ برطانیہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی سالانہ یادگار ہے۔ مرکزی لندن میں دی سینوٹاف جنگی یادگار پر دو منٹ کی خاموشی کے بعد مارچ کا آغاز ہوا۔۔پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ تقریباً 3 لاکھ افراد نے حصہ لیا۔جبکہ درجنوں گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں۔
مظاہرین نے سیاہ، سرخ، سفید اور سبز فلسطینی پرچم لہرائے اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ پر بمباری بند کرو کے نعرے درج تھے۔7 اکتوبر کے بعد غزہ پر جاری اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد سے لندن میں تقریباً ہفتہ وار ریلیاں ہو رہی ہیں۔
حماس کی زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی فضائی اور زمینی فوجی مہم کے نتیجے میں غزہ میں11ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
وسطی انگلینڈ کے شہر لیسٹر سے آنےوالے 41 سالہ شیراز بوبرا نے کہا کہ سیاسی مؤقف کو بھول جائیں، جب لوگ مارے جا رہے ہوں تو آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے نفاذ تک وہ ہر ہفتے آئیں گے۔جنوبی انگلینڈ کے ہیسٹنگز سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ ٹیلی ویژن ڈائریکٹر گیون سیرلے نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہیں ،وہاں بڑے پیمانے پر ناانصافی ہو رہی ہے۔رومن کیتھولک پادری فادر جان میک گوون نے مزید کہاکہ مجھے فلسطینیوں کا احساس ہے کیونکہ ان کی زمین پر قبضہ ہے اور ان کے قابض ظالم ہیں اور کہا کہ انہیں دو ریاستی حل کی امید ہے۔
لندن پولیس نے فلسطینیوں کے حامی گزشتہ مارچوں میں تقریباً 100 گرفتاریاں کی ہیں۔مارچ کے منتظمین نے ہائیڈ پارک سے جنوبی لندن میں امریکی سفارت خانے تک کا راستہ تبدیل کر دیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ کسی بھی تاریخی یادگار کے پاس سے نہ گزرے ۔
برطانوی فوجیوں کی یادگار کے قریب معمولی جھڑپیں ہوئیں کیونکہ سیاہ لباس میں اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے فلسطینی مارچ کے مخالفین بہت سے لوگوں نے انگلینڈ کا سینٹ جارج کا جھنڈا اور یونین جیک لہراتے ہوئے پولیس لائنوں کو توڑنے کی کوشش کی۔
بعدازاںپولیس نے کہا کہ انہوں نے امن کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیےفلسطینی مارچ کے مخالف 82 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے، انہوں نے مرکزی احتجاجی مارچ تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔