چین کی کمیونسٹ پارٹی(CPC)خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف اپنی سوچ کو بدلا بلکہ اپنے کارکنوں اور عوام کی سوچ کو بھی اپنی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ بنایا۔ چینی قیادت کی دوراندیشی کی وجہ سے یہ عظیم ملک نہ صرف امریکہ کی قیادت میں مغربی سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا بلکہ سرمایہ دارانہ معیشت کے جال میں بھی نہ پھنسا ۔ بلکہ الٹا اس نے تیز رفتار ترقی کی نئی مثال قائم کرکے مغربی معیشت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، چین اب ایک عالمی طاقت بن چکا ہے لیکن شکرہے کہ امریکہ اور برطانیہ و دیگر ممالک کے برعکس چین نے دیگر ممالک کےساتھ کنکٹیوٹی(Connectivity)، اقتصادی پالیسیوں میں ہم آہنگی ، آزادانہ تجارت ،معاشی انضمام ، اور عوامی اختلاط کے تصورات کو اپنایا۔ ان تصورات کو چینی قیادت نے بی آر آئی میں سمویا اور صدر شی جن پنگ نے آج سے دس سال قبل اس عظیم منصوبے کو لانچ کیا جس کے تحت وہ چھ اکنامک کاریڈور بنارہا ہے جو جنوبی اور وسطی ایشیا سے لے کر یورپ تک اور دوسری طرف مشرق بعید تک کے ایک سو پچاس ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑ رہا ہے ۔ یوں بی آر آئی اب ایک علاقائی نہیں بلکہ عالمی منصوبہ ہے جو معاشی کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک بھی بن گیا ہے اور اس کے اسٹرٹیجک پہلوئوں کو دیکھ کر امریکہ کی قیادت میں اسے ناکام بنانے کیلئے جی سیون کے ممالک نے چھ سو ارب ڈالر پر مشتمل پی جی آئی آئی (Partnership for global infrastructure and investment) کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ نہ صرف چین اس کا بااعتماد دوست ہے بلکہ بی آر آئی جیسے عظیم منصوبے کا سب سے اہم اور فلیگ شپ پروجیکٹ یعنی سی پیک بھی اس کے حصے میں آیا۔ چینی قیادت اور عوام کو پاکستان سے متعلق یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ بی آر آئی چونکہ عالمی منصوبہ بن چکا ہے اور پاکستان چونکہ اس کے فلیگ شپ پروجیکٹ یعنی سی پیک کا پرچم تھامنے والا (Flag Bearer)ہے اس لئے ایک ترقی پذیر اور مشکلات کا شکار ملک ہونے کے ناطے بی آر آئی یا چین مخالف قوتوں کی طرف سے پہلی فرصت میں رگڑا پاکستان کو مل رہا ہے ۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی طرف سے پاکستان پر مختلف حوالوں سے دبائو اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی سخت شرائط اس کی چند مثالیں ہیں جن کے ذریعے پاکستان کو سی پیک سے تائب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور اب چین کو قابو کرنے کی مغربی پالیسی کا پہلا نشانہ پاکستان بن رہا ہے بلکہ وہ اس عمل میںفرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا ہے ۔پاکستان اس وقت مغربی دنیا اور چین کے درمیان سینڈوچ بنتا جارہاہے اور اگر چین نے بھرپور ساتھ نہ دیا اور خدانخواستہ پاکستان اقتصادی یا کسی اور حوالے سے ناکام ریاست بن گیا تو یہ نہ صرف پاکستان کی بلکہ سی پیک اور بی آر آئی کی بھی ناکامی ہوگی ۔ اس لئے پاکستانی قوم بجا طور پر توقع کررہی ہے کہ چینی دوست پاکستان کی اس مخصوص پوزیشن کو مدنظر رکھ کر اسے کسی بھی حوالے سے ناکام ہونے نہیں دیں گے ۔
اسی طرح چینی قیادت یقیناً اس حقیقت سے بھی آشنا ہے کہ اگر بی آر آئی کے فلیگ شپ پروجیکٹ یعنی سی پیک یا پھر فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت پاکستان کے حصے میں آئی ہے تو انہوں نے چین کو قابو کرنے (Contain China)کی پالیسی کیلئے اس خطے میں اپنا اتحادی اور فرنٹ لائن اسٹیٹ انڈیا کو منتخب کرلیا ہے ۔یوں اگر انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کسی بھی حوالے سے ناکام ہوتا ہے تو اس کا اثر بی آر آئی پر بھی پڑے گا ۔ یوں پاکستانی بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ چین کسی بھی حوالے سے پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں کمزور نہیں ہونے دے گا۔
سی پیک کے تحت پاکستان میں انفراسٹرکچر کی مد میں کافی سارا کام ہوگیا ہے اور مزید ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ اگر انڈسٹریل بیس نہ بنے اور اسی تناسب سے ایکسپورٹ نہ بڑھی تو یہ انفراسٹرکچر غنیمت کی بجائے پاکستان کے لئے مصیبت بن سکتا ہے ۔ یوں اب پاکستان کے انڈسٹریل بیس کو مضبوط بنانے اور اس کی برآمدات بڑھانے کی مد میں چین کو پاکستان کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ بی آر آئی کا ایک اہم مقصد فری ٹریڈ ہے اور پاکستان کے ساتھ بھی فری ٹریڈ جاری ہے لیکن انڈسٹریل بیس نہ ہونے سے تجارتی عدم توازن کی وجہ سے پاکستان مشکلات کی طرف جارہا ہے ۔ اس وقت اگر پاکستان چین کو ایک ارب ڈالر کی برآمدات کررہا ہے تو دوسری طرف چین سے درآمدات کا حجم پندرہ سولہ ارب ڈالر ہے ۔ اس عدم توازن کی وجہ سے ایک تو چین سے آنے والی سستی اشیا کی وجہ سے پاکستان میں مقامی صنعتیں ترقی نہیں کرسکتیں بلکہ بڑے پیمانے پر ڈالر بھی اس کے ہاں سے نکل رہا ہے ۔ اس لئے چین سے توقع کی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنےکیلئے وہ پاکستان کو یورپ کے جی ایس ٹی پلس یا امریکہ کے انکریز مارکیٹ ایکسس کی طرز پر خصوصی تجارتی مراعات دے گا ۔ اگر چین پاکستانی درآمدات پر ڈیوٹی کم یا صفر کردے تو یہاں کی مقامی صنعتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا ۔ نہیں تو صنعتی ترقی اور برآمدات کم ہونے کی وجہ سے سی پیک کے تحت لگایا گیا انفراسٹرکچر اس کی معیشت کیلئے گلے کا طوق بن جائے گا۔ اس تناظر میں میری گزارش ہوگی کہ سی پیک کے تحت پاکستان کیلئےایک انڈسٹریل ڈیولپمنٹ پلان بھی ہونا چاہئے ۔اسی طرح عظیم چین کی عظیم فوج کیلئے بہت ساری درآمدات کرنی پڑتی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے تو چین بہت آگے ہے لیکن شاید چھوٹی اشیا کی ایک تعداد ایسی ہے جو پاکستان سے درآمد کی جاسکتی ہے ۔آخر میں چینی دوستوں کو یہ عاجزانہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ بی آر آئی چونکہ اب دنیا کے ایک سو پچپن ملکوں تک پھیلا ہوا ایک منصوبہ ہےاس لئے چینی قیادت کو اب اس کیلئے عالمی سطح پر اپیل کرنے والا ایک بیانیہ بھی ترتیب دینا چاہئے ۔ امریکہ اور یورپ کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ میڈیا اور پروپیگنڈے پر بہت زیادہ پیسہ لگاتے ہیںلیکن چین اس میدان میں ان سے بہت پیچھے ہے ۔ دنیا کواپنا ہمنوا بنانے کیلئے چین کو اس طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی اور بی آر آئی پر خرچ ہونے والے سرمایے کا ایک حصہ اس طرف منتقل کرنا ہوگا۔
(چین کے صوبے یونان کے شہر کنمنگ میں منعقدہ بی آر آئی سے متعلق جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی سیاسی جماعتوں اور انٹیلی جنشیا کی کانفرنس میں چینی حکام کے سامنے ظاہر کئے گئے راقم الحروف کے خیالات کا خلاصہ۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اہتمام اس کانفرنس میں انڈیا سے لے کر انڈونیشیا تک اور پاکستان سے لے کر افغانستان تک مندوبین کو مدعو کیا گیا تھا۔ چینی حکام نے پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز مشاہد حسین سید، احسن اقبال ، عادل شاہزیب اور راقم الحروف کو بخشا تھا)۔