• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قابلِ صد احترام جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب، امید ہے آپ میرا یہ خط پڑھ رہے ہوں گے۔میں نے بہت سوچ بچار کے بعد آپ سے مخاطب ہو نے کی جسارت کی ہے۔ قاضی صاحب ویسے تو ملک میں جو کچھ ہورہا ہے آپ جیسے دور اندیش سے چھپا ہوا نہیں۔یہ خط لکھتے ہوئےمیں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ہم کیوں عدلیہ کا وقت ضائع کرتے ہیں، سیاسی مسائل کا حل تو ووٹ کی طاقت سے نکل آتا ہے، لیکن ہم عدلیہ تک ایسے کیسز پہنچا کر نہ صرف عدلیہ کا وقت ضائع کرتے ہیں، بلکہ ہزاروں دیگر کیسز کو طول دینے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ تاہم ایک مجبوری ہے کہ چند ایسے مسائل ہیں ،جن کو ووٹ کی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر یہ مسائل کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتے تو ان کا حل ووٹ کی طاقت سے ہی نکلتا لیکن بد قسمتی ہے ہماری سیاسی جماعتیں اور جمہوریت 75 سال کی ہو کر بھی لڑکپن کا شکار ہے۔ چیف جسٹس صاحب آج آپ کو عدالت بھی لگانی ہے لہٰذا میں آپ کا وقت ضائع کیے بغیر اصل مدعے کی طرف آتا ہوں۔ قابل احترام چیف صاحب میرے بنیادی حقوق کے ضامن آئین تو ہے ہی آپ کی عدالت بھی ہے۔میں اس خط کے ذریعے کراچی کا نوحہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں ہو، کراچی جو ملک کو معاشی توانائی فراہم کرتا ہے، اس شہر کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق پامال ہوتے رہے ہیں۔جناب چیف جسٹس صاحب یہ شہر آپ کا بھی شہر ہے، یہاں آپ نے بھی طویل وقت گزارا ہے۔ جناب چیف صاحب عرض ہے کہ کیا یہ میرا بنیادی حق نہیں کہ مجھے صاف ہوا اور پانی فراہم ہو ؟ کیا یہ میرا بنیادی حق نہیں کہ میں جس علاقے میں جانا چاہوں بلا روک ٹوک چلا جائوں؟ کراچی کےصدر کا علاقہ دیکھ لیں، کوئی ایسی سڑک نہیں جس پر ٹھیلے والے قبضہ کر کے نہ کھڑے ہوں، چلیں مان لیا یہ غریب لوگ ہیں اور ان کا روزگار ان سے چھینا نہیں جانا چاہیے۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر قانونی طور پر انھیں اجازت دی جائے تاکہ کراچی پولیس کے کرپٹ افسران جو روزانہ ان ریڑھی والوں سے مبینہ طور پر 200 سے 300 روپے لیتے ہیں اور کروڑوں روپے مبینہ طور پرایس ایچ او سے لیکر اوپر تک جاتے ہیں، اگر وہ بند ہوجائیں اور قانون بنے کہ یہ پیسہ یا اس سے کم کچھ پیسے قومی خزانے میں ماہانہ کی بنیاد پر جمع کروئے جائیںتو ملک کی آمدن میں اضافہ ہو۔ مگر چیف صاحب کون سابڑا پولیس افسر ہے جو ڈیفنس اور کلفٹن میں بنگلے نہیں رکھتا ؟ اور ان سے بڑے افران کے تو کیا کہنے۔ جناب چیف جسٹس صاحب مجھے پانی خرید کر پینا پڑتا ہے ؟ کیا وزیر اعظم بھی پانی خرید کر اپنے گھر کی ٹینکی میں ڈلواتا ہے؟ میں پانی خریدنےکیلئے تیار ہوں لیکن میں سمندر سے چند قدموں کی دوری پر ہوں، اس کے باوجود میرے نل میں پانی نہیں آتا، میں واٹر بورڈ کو پانی کا بل دیتا ہوں لیکن پھر بھی پانی ٹینکر خرید کے پیتا ہوں۔جناب چیف جسٹس صاحب کراچی میں غیر قانونی آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، تجاوزات کی بھرمار ہے، رہائشی علاقوں کو روزانہ کمرشل کیا جارہا ہے ،ان سب پر عدالتیں فیصلے بھی دے چکی ہیں لیکن کوئی عمل درآمد کروانے کو تیار نہیں، عالی جناب جس ملک میں عدالتوں کے فیصلے نہ مانے جارہے ہوں اس کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے؟ عمارتوں پر بڑے سائن بورڈز لگانے پر عدالت نے پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن تمام بڑی عمارتوں پر بورڈز نظر آرہے ہیں !جناب چیف جسٹس صاحب ،صحت کے شعبے میں اگر کوئی ادارہ کام کررہا ہے تو وہ این آئی سی وی ڈی ہے لیکن سول اسپتال اور جناح اسپتال میں مریضوں کو ادویات نصیب نہیں ، جناح ہسپتال کراچی کے باہر سب سے کامیاب کاروبار میڈیکل اسٹور کاہے کیوں کہ ڈاکٹر مرتے ہوئے مریض کے ورثاء سے بھی کہتے ہیں کہ ادویات موجود نہیں ہیں، خرید کر لے آئیں اور اس کیلئے جناح اسپتال کے باہر درجنوں میڈیکل اسٹور موجود ہیں۔جناب چیف جسٹس صاحب کراچی میں 50، 50 سال پرانی بسیں اتنا زہر آلود دھواں چھوڑتی ہیں کہ شہر رات تک آلودہ دکھائی دیتا ہے۔ ان ٹوٹی پھوٹی بسوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ دینے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا، جناب چیف جسٹس صاحب آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ کراچی میں عدالت لگا کر آئی جی سندھ اور رو ڈ ٹرانسپورٹ سے پوچھیں کہ ان گاڑیوں کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ کہاں سے آتا ہے ؟ شہر میں تجاوزات کی اجازت کا روزانہ کتنا بھتہ وصول ہوتا ہے۔ پانی چوری کرنیوالے اور کراچی واٹر بورڈ میں اربوں کا غبن کرنیوالے کتنے افسران کو اینٹی کرپشن یا پھر نیب نے گرفتار کیا اور اگروہ گرفتار ہوئے تو کیا کراچی والوں کےگھر کے نلوں میں پانی آیا ؟ جناب چیف جسٹس صاحب آپ کی عدالت میرے بنیادی حقوق کی ضامن ہے، اور مجھے آپ سے بہت سی امیدیں اور آپ پر مکمل بھروسہ ہے۔ خدارا، کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ کراچی کے یہ سارے مسائل حل ہوجائیں۔

تازہ ترین