1882 میں قائم ہونے والی پنجاب یونیورسٹی ملک کی قدیم ترین اور عظیم الشان مادر علمی ہے۔ گزشتہ چند روز سے قومی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلباء تنظیم کے چند عناصر کا ایک مبینہ دہشت گرد کو ہاسٹل میں پناہ دینے کا معاملہ ہو ،اساتذہ پر تشدد کا گھناوٗنا اور شرمناک واقعہ ہو یا طالبات کے تحفظ اور بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر انتظامیہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات کی فراہمی پر پرتشدد مزاحمت، پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل لاکھوں کروڑوں ایلومینائی اور والدین کو مادر علمی سے متعلق کئی خبریں ، کالم ، تجزیے وغیرہ دیکھنے اور پڑھنے کو ملے جس میں ملک کے غیر جانبدار اور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے والے صحافیوں نے حقائق سب کے سامنے لا کھڑے کئے اور پنجاب یونیورسٹی میں ماضی میں قائم ’’سٹیٹس کو ‘‘ کو بری طرح بے نقاب کیا۔ اسلام کے نام پر دوسروں کو ورغلانے والے عناصر جن گھناوٗنے جرائم میں ملوث ہیں، لوگ میڈیا کی وساطت سے اچھی طرح جان چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے ان واقعات کو دہرانے اور حقائق کو واضح کرنے سے قطع نظر ہو کر یہاں ان عداد و شمار پر مبنی پنجاب یونیورسٹی کے اس روشن تعلیمی و تحقیقی پہلو کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس سے عوام اور پنجاب یونیورسٹی سے منسلک کروڑوں افراد جان سکیں گے ان کی مادر علمی ڈاکٹر مجاہد کامران کی قیاد ت میں تمام شعبوں میں کئی سو گنا، جی ہاں ، کئی سو گنا ترقی کی منازل طے کر چکی ہے اور ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کئے جارہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ’’سٹیٹس کو ‘‘کے پروردہ عناصر اور یونیورسٹی کو ذاتی جاگیر سمجھنے والے اس حد تک سکڑ چکے ہیں کہ اخبارات اور پروپیگنڈہ میں اپنا نام استعمال کرنے سے بھی گریزاں ہیںاور نامعلوم ’ذرائع ‘، بغیر دستخطوں کے پمفلٹ، ’’پنجاب یونیورسٹی کے طلباء و طالبات ‘‘ یا ’’پائینرز‘‘ کا نام استعمال کرتے ہیں کیونکہ مخالفین کا قول و فعل کا تضاد بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ان پر لگے ’’لیبل‘‘ کے باعث ان کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ کسی بھی یونیورسٹی کا بنیادی اور سب سے اہم کام نئے علم کی تخلیق ہوتا ہے۔اور اس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے بھرپور محنت کی ۔سال 2012 میں پنجاب یونیورسٹی نے صرف ایک سال میں 206 پی ایچ ڈی پیدا کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے جبکہ کوئی بھی یونیورسٹی 150 سے زائد پی ایچ ڈی ایک سال میں پیدا نہیں کر پائی۔ موجودہ انتظامیہ کے چارج لینے سے قبل سال 2007 میں تحقیقی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے باعث امپیٹکٹ فیکٹر جرنلز میں پنجاب یونیورسٹی کے صرف 162 تحقیقی مقالہ جات شائع ہوئے ۔ یہ تعداد بھی کئی سو گنا بڑھ چکی ہے اور گزشتہ سال پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے 552 تحقیقی مقالہ جات امپیکٹ فیکٹر جرنلز میں شائع ہوئے ہیں جبکہ 2012 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب یونیورسٹی کے 1000سے زائد تحقیقی مقالہ جات ہائرایجوکیشن کمیشن کے منظور کردہ جرائد میں شائع ہوئے جو کہ یونیورسٹی میں پروان چڑھتے ہوئے تحقیقی کلچر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پنجاب یونیورسٹی نے اپنا قومی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے ہر شعبے کے ہر پروگرام میں بلوچستان کے طلباء و طالبات کے لئے ایک ایک خصوصی سیٹ مختص کی ہے اور ان سے نہ تو کوئی فیس لی جاتی ہے اور نہ ہی ہاسٹل کے اخراجات۔
یہاں تک کے بلوچستانی طلباء کے جیب خرچ کے لئے انہیں تین ہزار روپے کی ماہانہ سکالرشپ بھی فراہم کی جارہی ہے جو کہ موجودہ انتظامیہ کی قومی سوچ کی واضح عکاس ہے۔ گزشتہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں کمی کے باعث پاکستان بھر کی سرکاری جامعات کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ پانچ سرکاری جامعات کو بینکوں سے قرض لے کر ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا پڑیں مگر پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ اپنی عقلمندانہ مالی پالیسوں کے باعث اس بحران سے بخوبی نبٹ پائی۔ 2012 تا2013 کے لئے یونیورسٹی کا بجٹ پانچ ارب روپے تھا جس میں سے 1.6 ارب روپے ایچ ای سی نے فراہم کئے جبکہ باقی رقم پنجاب یونیورسٹی نے خود اپنے ذرائع سے پیدا کی ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور طلباوطالباتکی مادرِ علمی ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔