• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمِ سرما کےآغاز ہی سےمُلک بھر سے ڈینگی کے کیسز سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں، جب کہ کئی کیسز میں تو یہ مچھر کا معمولی سا کاٹنا موت کا بھی سبب بن جاتا ہے۔ یاد رہے، پاکستان میں ایک عرصے سے ہرسال ڈینگی وائرس سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ ڈینگی وائرس، دراصل ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے، جو بعدازاں بخار کا سبب بنتا ہے۔ اِس مچھر کا نام Aedes Aegypti ہے اور اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر زیبرے کی طرح کی سفید اور کالی دھاریاں ہوتی ہیں، جب کہ یہ مچھر صاف پانی میں پرورش پاتاہے۔ 

ڈینگی بخارکی صُورت میں مریض کو ابتدائی ایّام میں کم زوری ونقاہت کے ساتھ سردرد بھی لاحق ہو جاتا ہے، اس کے بعد تیز بخار، سردی کا لگنا اور کمردرد اِس کی اہم علامات ہیں۔ نیز، عضلات اور جوڑوں میں شدید درد کے باعث اسے ’’ہڈی توڑ بخار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ آنکھوں میں درد، متلی، اُلٹیاں، پیٹ میں درد، ڈائریا، کھانسی کے ساتھ خون میں سفید ذرّات اور پلیٹلیٹس کی کمی بھی اِس کی بڑی علامات ہیں۔ ڈینگی بخارعام طور پر7 سے8 دن میں رفع ہوجاتا ہے اور زیادہ ترمریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ 

تاہم، کچھ متاثرہ افراد میں پلیٹلیٹس کی تعداد کافی کم ہو جاتی ہے، بعض اوقات تو یہ تعداد دس ہزار سے بھی نیچےچلی جاتی ہےاوریہ صُورتِ حال مریض اورمعالج دونوں ہی کے لیے باعثِ تشویش ہوتی ہے۔ پلیٹلیٹس میں تشویش ناک حد تک کمی کے باعث ناک، منہ، مسوڑوں کے ساتھ پاخانے میں بھی خون آنےلگتا ہے، جب کہ جِلد پر سُرخ دھبّےنمودار ہوجاتے ہیں،طبّی ماہرین اسے ڈینگی کی تشویش ناک صُورتِ حال کہتے ہیں اور یہ Hemorrhagic fever dengue میں نظر آتی ہے۔ 

ڈینگی ہیمرجک فیور میں مبتلا افراد کو ڈینگی آئسولیشن کےخصوصی یونٹ میں داخل کر کے اُن میں خون اور پلیٹلیٹس کی کمی دُور کرنے کے لیے خون اور پلیٹلیٹس ٹرانس فیوژ کیے جاتے ہیں۔ جب کہ پانی کی کمی دُور کرنے کے لیے ڈرپس دی جاتی ہیں۔ مریض کو اِس تشویش ناک صُورتِ حال سےنکالنےکے لیے خصوصی مہارت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی تصدیق بلڈ ٹیسٹ ہی کے ذریعے ممکن ہے، تاہم خون کے سفید ذرّات اور پلیٹلیٹس میں کمی بھی اس بخار کی خاص نشانیاں ہیں۔

ڈینگی بخارکااب تک کوئی باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہوسکا، جب کہ اینٹی وائرل میڈیسنز بھی اس مرض میں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ اِسی لیے طبّی ماہرین متاثرہ افراد کو مکمل آرام، پانی اور تازہ پھلوں کےجوسزکےزیادہ سے زیادہ استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ نیز، ایسے افراد کو متوازن، صحت بخش خوراک اور پپیتے کے پتّوں کی بجائے پپیتا کھانے کی بھی ہدایت کی جاتی ہے۔ 

پیراسیٹامول بخار اور درد میں کمی لاسکتی ہے، تاہم اسپرین اور آئبوبروفن استعمال نہیں کرنی چاہیے۔نیز،بیماری کی حالت میں گھریلو ٹوٹکوں سے حتی الامکان بچیں اورماہرڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ دل، پھیپھڑوں، گُردوں، ذیابطیس کے مریضوں کے علاوہ حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد کےلیے ڈینگی وائرس خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اِس لیے انہیں باقی افراد کی نسبت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نیز، ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں کہ احتیاط بہرحال علاج سےبہتر ہے۔ 

دروازوں، کھڑکیوں پرجالیاں لگوائیں، پوری آستین والے کپڑے زیبِ تن کریں، چھت کے ٹینک اور پانی سے بَھرے برتن ڈھانپ کر رکھیں، گھروں اور گھروں سےباہرپانی جمع نہ ہونے دیں، کیاریوں اورگملوں میں ایک دن چھوڑ کر صبح کے وقت پانی دیں، گھروں اوردفاتر کو روشن، ہوادار اورنمی سےمحفوظ رکھیں، اپنےگھر اور محلّے کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں، سوتے وقت جسم پر مچھر بھگاؤ لوشن لگائیں۔ خیال رہے،ڈینگی مچھرعلی الصباح اورشام کے اوقات میں کاٹتا ہے، لہذا محکمۂ صحت اور متعلقہ ادارے صبح وشام کے اوقات میں ڈینگی سے بچاؤ کے اسپرے کریں۔ 

انتقالِ خون سے پہلےخون میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ضرور کرلیں۔ ڈینگی کے مریضوں کو آئسولیشن وارڈ میں رکھا جاتا ہے تاکہ دوسروں کو بھی ڈینگی وائرس سے بچایا جائے۔ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئےڈینگی وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر پھر بھی کوئی خدانخواستہ اس مرض میں مبتلا ہوجائے، تو گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، حوصلہ رکھیں کہ زیادہ تر لوگ ڈینگی سے صحت یاب ہوجاتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ کم زوری اور نقاہت رفتہ رفتہ ہی جاتی ہے۔ ( مضمون نگار، سِول اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئر میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)