حسین حقانی اپنی ’ذہانت‘ اور ’فکری ارتقاء ‘کے بل بوتے پر پاکستان کے تین وزرائے اعظم کے مشیر رہ چکے ہیں جسے وہ اپنا’ ’غیر معمولی سیاسی سفر ‘‘ قرار دیتے ہیں ، اس سیاسی سفر میں آج کل وہ امریکہ میں’ خود ساختہ جلاوطن ‘ ہیں اور پاکستانی ریاست کی اصلاح احوال میں مصروف نظر آتے ہیں ۔نہ جانے اگلا ٹھکانہ کہاں ہو ۔۔۔
’’تاریخ کی درستگی‘‘ دور جدید کا مقبول ترین فیشن بن چکا ہے ، ہر وہ شخص جو مفکر ، تجزیہ کار اور دانش ور جیسے القابات اٹھائے پھرتا ہے وہ اس فیشن کا دلدادہ ہے اور آئے روز ’’تاریخ کی درستگی‘‘ بھرپور انداز میں کر رہا ہے۔ پاکستان ان حضرات کو ’’غلطیوں کا مجموعہ ‘‘ لگتا ہے اس لئے ہر ’دانشور ‘ اس کام میں تن من دھن سے مصروف ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ پاکستان سے محبت پر بھی سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں ، حسین حقانی جیسے ان حضرات کا کہنا ہے کہ اصل محبت تو ہم ’’تاریخ کی درستگی‘‘ کے ذریعے پاکستان سے کر رہے ہیں ۔
موجودہ حالات میں جب امریکہ افغانستان سے انخلاء کی تیاریوں میں مصروف ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اختتامی مراحل میں ہے ، حسین حقانی کا طرز فکر کچھ اس لئے بھی نمایاں اور منفرد دکھائی دیتا ہے کہ ریاست پاکستان کے عروج و زوال کو اپنے تئیں تجزیاتی انداز میں بیان کرتے ہیں اور پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔اپنی تازہ کتا ب Magnificent Delusions میں ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا دوست نہیں ہے اور بہتر ہے کہ امریکہ پاکستان کو دوست کی بجائے دشمن ہی تصور کرے ۔انہوں نے اپنی کتاب کے مختلف ابواب کو پُرکشش نام دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں ریاست پاکستان کی جانب سے ادا کیا گیا کردار مکاری اور چالاکی پر مبنی رہا ، ان کے تازہ افکار کا خلاصہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ روز اوّل سے امریکہ نے تو ریاست پاکستان کو سہارا دیا اور ہر ممکن طریقے سے مدد کی لیکن پاکستان کی جانب سے احسان فراموشی کرتے ہوئے دھوکہ دہی جاری رکھی گئی ۔
اس حوالے سے چند بنیادی اصول مدنظر رکھنا از حد ضروری ہیں تاکہ اس طرح کے ’’ فکری ارتقاء ‘‘ کا شکار افراد کو مدلل جواب دیا جا سکے ۔دنیا میں موجود ہر ملک کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی معاشی و عسکری بہتری اور جغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھ کر آزادانہ خارجہ پالیسی تشکیل دے ۔اس کے ساتھ ساتھ کسی ’’سپر پاور ‘‘ ملک کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ہر قسم کی من مانی کر سکتاہے ،اور دوسرے تمام ممالک اس کی مرتب کی ہوئی پالیسیوں پر عمل کریں۔ مہذب دنیا میں یہی اصول رائج ہونے چاہئے لیکن افسوس طاقتور ممالک اور ان کے ’’قصیدہ خواں ‘‘ان اصولوں سے انحراف کو اپنا حق سمجھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ملکوں کی خارجہ پالیسیاں کسی سے دوستی اور دشمنی کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ مخصوص حالات میں اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ ہی اولین ترجیح ہوتا ہے ۔ کیا امریکہ نے پاکستان سے ’’پُر خلوص اور غیر مشروط محبت ‘ ‘ کی ؟ اس کا واضح جواب نہیں میں ہے۔ امریکہ نے خطے میں اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کیلئے ہر بار پاکستان سے مدد مانگی ۔اور یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہر بار ریاست پاکستان نے اپنے مفادات کو ہی تر جیح اوّل رکھا ، ریاست پاکستان کا ہرگز یہ فرض نہیں کہ وہ امریکی مفادات کو ترجیح دے۔ دونوں ممالک نے اپنے مفاد کے تابع بہت سے فیصلے کئے ،یہ کہنا کہ صرف پاکستان نے ہی فوائد حاصل کئے، غلط ہے۔ معاملہ الٹ ہے کہ حسین حقانی پاکستان کے تنکے کو شہتیر کہہ رہے ہیں اور امریکی شہتیر انہیں تنکا دکھائی دے رہا ہے۔
اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کا اہم اور مقبول ترین نظریہ realism ہے جسے اردو میں حقیقت پسندی کہا جا سکتا ہے،اس کے مطابق مختلف ممالک کے حالات اور مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے صورتحال سے نمٹا چاہیے۔ اسی حوالے سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی ترتیب دی جاتی ہے۔
پاکستان ایک خود مختار ملک ہے جو نہ ہی کسی سے ڈکٹیشن لیتا ہے اور نہ ہی کسی سے جنگ چاہتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا، ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کو پاکستان نے ہی ممکن بنایا جس کے نتیجے میں امریکہ اور چین میں سلسلہ جنبانی شروع ہوا اور بعد ازاں صدر نکسن کا دورہ چین بھی ممکن ہوا ۔سرد جنگ کے خاتمے اور امریکہ کی سوویت یونین پر فتح میں اگرچہ بہت سے عوامل کار فرما رہے لیکن افغان جنگ اور پاکستان کا کردار بہر حال قابلِ توجہ ہے۔ ان حقائق کا حسین حقانی کے دلائل میں کہاں مقام بنتا ہے ؟ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے دفاعی معاہدات ہوں، افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہو یا پھر موجودہ دہشت گردی کے خلاف محاذ ، ہر موقع پر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی اور ریاست پاکستان نے اپنے مخصو ص حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی فیصلے کئے کہ جن کا واحد مقصد پاکستان کا تحفظ ہی تھا ۔خطے کی صورتحال پر ایک نظر ڈالئے ، دیگ کے چند چاول پیش خدمت ہیں:ہندوستان کے پانچ ہزار ٹینک کیا ہمالیہ کے پہاڑوں پر سیر وسیاحت کیلئے ہیں یا پھر خلیج بنگال میں تیراکی کیلئے ہیں ؟؟؟ جواب آپ سب جانتے ہیں ، اسی طرح ہندوستانی فضائیہ کی سڑائیک فارمیشنز کا رخ بھی پاکستان ہی کی طرف ہے ، افغانستان میں بھاری بھر کم ہندوستانی سرمایہ کاری کس طرف اشارہ کرر ہی ہے ؟ جنوبی ایشیا کے ان تمام معاملات میں ہمارے ’’مخلص دوست ‘‘ امریکہ نے کیا کبھی ہماری طرفداری کی؟ ان تما م سوالات کا جواب آپ سب پر واضح ہے ۔ ان حالات میں ریاست پاکستان کو بھی یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اپنے تحفظ کیلئے امریکہ پر انحصار کرنا کس حد تک درست ہے ۔سابق صدر ایوب خان کی کتا ب Friends not Masters کے مندرجات ہی پاک امریکہ تعلقات کی حقیقت کو ظاہر کرنے لئے کافی ہیں ، اردو میں ’’جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی ‘‘ اس کا خوبصورت ترجمہ ہے جو اپنے عنوان میں ہی تمام تفصیل لئے ہوئے ہے ۔ امریکہ سپر پاور ضرور ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور یہاں کی ریاست نظریاتی اصولوں کو مدنظر رکھتی ہے ، یہ مصر ، تیونس یا الجیریا نہیں ہے ۔ یہاں کی افواج بھی نظریاتی رجحانات کی حامل ہے اور یہی بات فکری ارتقاء پر گامزن ان مرعوب دانشوروں کو چبھتی ہے اور رہے گی ۔
اس کتاب کے مصنف حسین حقانی ایسے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں جو اپنے فکری ارتقاءکے باعث مرعوبیت کے عروج پر ہیں ۔ میمو گیٹ تو ابھی کل کی بات ہے ، ان کے فکری کارنامے تو پہلے بھی زبان زد عام تھے ۔ میمو گیٹ تو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکہ بہادر کی گڈی اونچی ہے اس لئے ’’تاریخ کی درستگی‘‘ کا عمل بھی زور و شور سے جاری ہے لیکن بدلتے وقت کا کس کو پتہ ۔۔۔
ویسے قبلہ تبدیل کرنا بھی کافی مہارت کا کام ہے جو صرف ’ذہین ‘لوگ ہی کر سکتے ہیں اور حسین حقانی صاحب تو پہلے بھی تین مختلف الخیال وزرائے اعظم کے مشیر رہ چکے ہیں اور ان کا ’فکری ارتقاء‘ ابھی رکا نہیں ۔۔۔