• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک روز میں نے اپنے آپ سے کہا: بہت سی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آتیں؟

آپ حیران نہ ہوں۔ اس میں چھپانے یا شرمندہ ہونے والی بات نہیں ہے۔ آپ بھی زندگی بھر اپنے آپ سے باتیں کرتے رہے ہیں۔ بلکہ ہم سب اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے باتیں کرنے میں صرف فوائد ہیں۔ کسی قسم کا نقصان نہیں ہے۔ اول توہم اپنے آپ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں ڈر کے مارے اپنی بات سینسر کرنی نہیں پڑتی۔اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے ہم کبھی نہیں سوچتے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اور کیا کہنے سے اجتناب کرناچاہیے۔کیا کہنے سے ہم اپنے لیے گڑھا کھودتے ہیں۔ کیا کہنے سے ہم اپنے لیےمصیبتیں مول لیتے ہیں۔ ہم جان چکے ہیں کہ کیا کہنے کے بعد ہم غائب ہوسکتے ہیں۔ اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے۔ اگر کبھی لوٹ آتے ہیں تو ہمیں اپنا نام تک یاد نہیں رہتا۔ہم پوچھتے رہتے ہیں کہ میں کون ہوں، کہاں رہتا ہوں؟ میرے والد اور میری والدہ کا نام کیا ہے؟ ہم یہ تک بھول جاتے ہیں کہ ہم کس دیس کے باسی ہیں۔ خود کلامی کا سب سے بڑ افائدہ یہ ہے کہ کچھ بھی کہتے ہوئے ہمیں ڈر نہیں لگتا۔ آپ کو اپنے کہے ہوئے الفاظ کی کاٹ چھانٹ کرنی نہیں پڑتی۔

خودکلامی کے دوران جب میں نے کہا : بہت سی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آتیں؟تب اپنے وجود سے آواز آئی: بہت سی باتیں تمہاری سمجھ میں اس لیے نہیں آتیں کیوں کہ تم بوڑم ہو۔

میں نے چونک کرپوچھا: یہ بوڑم کیا ہوتا ہے بھائی؟ وجود سے دوسری بار آواز آئی: بوڑم کہتے ہیں بیوقوف کو۔بہت سی باتیں تمہاری سمجھ میں اس لیے نہیں آتیں کیوں کہ تم بیوقوف ہو۔

دانش وروں اور اہل علم کا کہنا ہے کہ ہمارے وجود میں ہمارا ہمزاد ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ وہ انتہائی ذہین اور غیر معمولی قابلیت والا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے وہ ہمارا رکھوالا اور محافظ ہوتا ہے۔ جب بھی ہم سے سنگین بھول چوک ہونے والی ہوتی ہے تب ہمارا ہمزاد ، ہمارا داخلی ہم نفس ہمیں روکتا ہے،ہمیں ٹوکتا ہے۔ اس کی آواز ہمارے علاوہ اور کوئی سن نہیں سکتا۔ جب اس نے کہا کہ بہت سی باتیں تمہاری سمجھ میں اس لیے نہیں آتیں کیوں کہ تم بوڑم ہو، یعنی بیوقوف ہو، تب میں نے فیصلہ کرلیاکہ میں کسی اور سے نہیں پوچھوں گا کہ بہت سی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آتیں۔ کیوں میں دنیا والوں پر ظاہر ہونے دوں کہ میں بوڑم ہوں، بیوقوف ہوں۔

اچھا ہے کہ میں اپنا موقف بیان کردوں۔ یعنی کس قسم کی باتیں مجھے سمجھ میں نہیں آتیں ان کی وضاحت کردوں۔مثلاً میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جوا اور اسٹاک ایکس چینج میں ہونے والے شیئرز میں چھوٹی موٹی رقم لگاکر آپ کروڑ پتی بن سکتے ہیں۔ دل للچانے کے بعد آپ شیئرز بازار میں بڑی رقم لگادیتے ہیں۔ اور وہ رقم آپ کی ڈوب جاتی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں پر رقم لگانے کو معاشرے میں بہت برا عمل سمجھا جاتا تھا۔ آج ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں پر رقم لگانے کو کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ اونچی اڑان رکھنے والے فیملی کے ساتھ گھوڑا دوڑ دیکھنے کے لیے ریس کورس پابندی کے ساتھ جاتے ہیں، رقم لگانے کے بعد کبھی جیتتے ہیں اور کبھی ہار جاتے ہیں۔ تعلقات بڑھاتے ہیں۔ اپنے اس عمل کو اپنے رتبے اور حیثیت کے برابر رکھتے ہیں۔ اب تو پیر سائیں، چودھری، وڈیرے ،خان اور سردار بھی عربوں کی دیکھا دیکھی گھوڑے پالتے ہیں اور ریس کورس میں بھگاتے ہیں۔ بڑے بڑے بزنس مین کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ وہ بھی گھوڑے پالتے ہیں۔ہماری حکومت کا خزانہ ایک عرصہ سے خالی پڑا ہوا ہے۔ ملک قرضوں اور امدادوں سے چلا رہے ہیں۔ قرض مفت میں نہیں ملتا۔ کچھ نہ کچھ گروی رکھنا پڑتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اربوں اور کھربوں کے مقروض ہمارے حکام نے پاکستان کاکیا کچھ بیش بہا گروی رکھا ہوا ہے۔ اجڑے ہوئے خزانے کو پھر سے آباد کرنے کے لیے حکومت نے انقلابی اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔پاکستان میں ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے۔سرمایہ دار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس بات کا علم انیس سو سینتالیس سے لیکر آج تک ہرحکومت کو ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ کون کون سےارب پتی ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومتوں نے ان کو چھوٹ کیوں دے رکھی ہے؟ اس سلسلہ میں، میں کچھ نہیں جانتا۔کئی ہفتوں سے اشتہارات شائع ہورہے ہیں جن میں مثال کے طور پر کاروباری اداروں کے نام دیے جاتے ہیں، جیسا کہ سگریٹ بنانے اور منگوا کر بیچنے والے کھربوں روپے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ یہی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ جب حکومت کے علم میں ہے کہ فلاں فلاں ادارے ٹیکس نہیں دیتے، تو پھر لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہار شائع کرنے کی بجائے سگریٹ کمپنیوں کے خلاف قا نونی چارہ جوئی کیوں نہیں کرتی؟ یہ ہم بیوقوفوں کی سمجھ سے بالا تربات ہے۔

کئی باتیں ہمیں حواس باختہ کردیتی ہیں۔ پچھلے چھہتر برس کے دوران حکومت وقت گاہےگاہے ہم بونگے پاکستانیوں کو آگاہ کرتی رہتی ہے کہ چوکنا رہیں۔اپنی اور اپنے بچوں اور املاک کی حفاظت کریں۔ کیوں کہ دس دہشت گردوں کا جتھا سرحد پار سے پاکستان میں داخل ہوچکا ہے۔ پہلے پہل مشتری ہوشیار باش قسم کے اشتہار دیکھ کر ڈرجاتے تھے۔ اب ہم اس نوعیت کے اشتہار پڑھ کرحیران ہوتے ہیں اور پھر پریشان بھی ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ہوشیار باش کرنے کی بجائے حکومت دہشت گردوں کے جتھے کو پاکستان میں آنے سے روکتی کیوں نہیں؟ دہشت گردوں کے آنے اور جانے کی مستند خبررکھنے والی حکومت دہشت گردوں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہچاتی؟ ان کی آمد سے ہمیں آگاہ کرنے سے کیا فائدہ؟ ہمارے پاس نہ ہتھیار ہیں اور نہ ہم نے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کی تربیت لے رکھی ہے۔ ہم بونگوں سے حکومتیں کیسا کھیل کھیلتی رہی ہیں؟ اور وہ بھی پون صدی سے؟ کیسے سمجھ میں آئیں ایسی گمبھیر باتیں؟

تازہ ترین