اسلام آباد (رپورٹ…وسیم عباسی) مری میں ایک خاتون اسکول ٹیچر کو شادی سے انکار پر مبینہ طور پر جلاکر ماردیئے جانے کی اطلاعات کے برخلاف فورنیسک شہادتوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ ٹیچر نے ملزم ماسٹر شوکت کے بیٹے سے تعلقات ٹوٹنے پر خودکشی کی ہے۔ پولیس نے ماسٹر شوکت کے بیٹے محمدہارون کو بلوا سطہ طور پر ذمہ دار قرار دیکرحراست میںلے لیا ہے اور اس کے خلاف قتل بالسبب کی سزا کیلئے قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔ جبکہ ماسٹر شوکت، رفعت محمود اور میاںارشد کو بے قصور قرار دےدیا ہے۔ پولیس کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق موبائل ڈیٹا ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ متوفیہ ماریہ صداقت اور ملزم محمدہارون کے درمیان 6248 کالز اور ٹیکسٹ میسجز کا تبادلہ ہوا۔ پوسٹ مارٹم اور فورنیسک رپورٹ میں ماریہ کو جسمانی تشدد یا زنا بالجبر کا نشانہ بنائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پولی گرافک ٹیسٹ اور انگلیوں کے نشانات کے ٹیسٹ سے بھی ملزمان شوکت، رفعت محمود اور میاںارشد کے مبینہ قتل میں ملوث ہونے کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی معلوم ہوا کہ یہ لوگ وقوعہ کے وقت وہاں سے میلوں دور تھے۔ پولیس تفتیش سے معلوم ہوا کہ ماریہ نے مری سے 17 کلومیٹرز دور دیوال میں ماسٹر شوکت کے اسکول میں 2014 میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا جہاں ان کا بیٹا محمدہارون اسکول کا ایڈمنسٹریٹر تھا ۔ہارون کے منگنی شدہ ہونے کے باوجود دونوں میں تعلقات استوار ہوئے، ہارون کی اگست 2014 میں شادی ہوئی لیکن بیٹی کی پیدائش کے باوجود ہارون اور ماریہ میں تعلقات برقرار رہے۔ ان دونوں کے درمیان تعلقات کا والدین کو علم2015 میں ہوا۔ ماسٹر شوکت نےہارون کے اسکول آنے پر پابندی لگادی اور ماریہ نے بھی دسمبر 2015 میں اسکول چھوڑ کر ایک اور قریبی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ تاہم 29 مئی 2016 تک دونوںکے درمیان ٹیلیفونک رابطے برقرار رہے۔ جب دونوں کے درمیان تعلقات کا راز فاش ہوگیا تو ہارون نے ماریہ کو موبائل فون اور اپنے نام پر جاری سم خرید کردی۔ رپورٹ کے مطابق ہارون اور مار یہ کے والد ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اور 5 سال قبل ملکر کاروبار بھی شروع کیا جو چل نہ سکا۔ 29 مئی کو شوکت نے ماریہ کے والد صداقت کی ورکشاپ پر جاکر کاروبار میں اپنے حصے کی رقم کا تقاضاکیا اور اس موقع پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ شوکت نے گھر جاکر اپنے بیٹے ہارون اور بیوی کو صداقت کی بدکلامی سے آگاہ کیا جس پر ہارون نے اپنے خاندان کے سامنے ماریہ کو فون کرکے تعلق توڑنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ماریہ نے کئی ٹیکسٹ میسجز کئے لیکن ہارون نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک میسج میں ماریہ نے ہارون کو دھمکی بھی دی کہ اگراس نے خودکشی کی تو ذمہ دار وہ ہوگا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ہارون نے ماریہ کے ارادے جاننے کے باوجود اسے قائل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی دھمکی سے پولیس کو آگاہ کیا۔ خاندان کے دبائو پر ماریہ کو بارہ کہو میں ایک شخص سے 4جون 2014 کو شادی کرنی تھی لیکن اس کے باوجود ہارون اسے گمراہ کرتا رہا۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود ہارون ایک معصوم لڑکی کے جذبات سے کھیلتا رہا، نتیجہ ماریہ کی موت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دونوں کے درمیان کئی بار شادی کے عہد و پیمان ہوئے۔ پولیس نے ہارون کے خلاف دفعہ 322 کے تحت کارروائی کی سفارش کی ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ماریہ کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز نے بھی تصدیق کی کہ اس نے بستر مرگ پر بیان اپنے والدین اور خاندان کے دیگر ارکان کے دبائو پر دیا۔ اس بیان کی وڈیو فوٹیج سے بھی خاندان کے ارکان کی زور دیتے ہوئے آواز میں صاف سنائی دیتی ہیں۔ پمز میں ماریہ کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر ہجوم نے ماریہ کو جلایا ہوتا تو اس کے جسم پر مزاحمت کے نشان ہوتے لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ماریہ کے جلنے میں استعمال ہونےوالا تیل صداقت کے آٹو ورکشاپ کا تھا۔