• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی صحافتی تاریخ بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ اس میں چھپنے والے مضامین میں نظریاتی اختلافات کے باوجود پالیسی پر اختلاف کو استدلال کے ساتھ پیش کیاجانا اور خوبصورت اسلوب اس کا زیور تھے اور احترام اس کا جزوِ لاینفک ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹاک شوز سے متاثر ہو کر اس عہد کے قلمکار اپنے مضامین میں الزامات تو عائد کرتے ہیں لیکن ان کو ثابت کرنے کے لئے شواہد کے بجائے کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اختلاف تو کرتے ہیں لیکن دلیل کے بجائےدشنام کا استعمال زیادہ کیاجاتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ جو گومگوں صورتحال سے دوچار رہی اور اسے متعدد چیلنجوں کا سامنا بھی رہا۔ صحافتی برادری بھی مشکلات میں رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ابلاغی اقدار کا ساتھ نہ چھوڑا۔ گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ میں محترم شاہین صہبائی کا مضمون ’’مک مکا اور قدرت کا انصاف‘‘ نظر سے گزرا۔ موصوف اپنے گزشتہ مضامین میں سندھ کی دوسری بڑی اور پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خاتمے کی تاریخیں لے کر رونق افروز ہوئے تھے۔ بالکل اسی طرح انہوں نے اپنے موجودہ کالم میں بھی فروری کے مہینے میں ایم کیو ایم کے بت گرنے کی خوشخبری سنانے کی سعی کی اور ان کا موضوع ایک بار پھر ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل تھا۔
بقول اس کہانی کے، کہ عمران فاروق کو قتل کرنے والے دو افراد 16ستمبر 2010ء کی رات کو لندن سے روانہ ہوئے اور کسی اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر سری لنکا پہنچے اور وہاں سے 19ستمبر کو کراچی ائیر پورٹ پر آن پہنچے اور وہ اب پاکستان کی داخلی سلامتی اداروں کی تحویل میں ہیں جبکہ اس گرفتاری سے پاکستان کے تمام ادارے انکاری ہیں۔ بالکل اسی طرح انہوں نے افضاء الطاف کے لیپ ٹاپ کی برطانوی حکام کی تحویل میں جانے کا تمسخر اڑاتے ہوئے لکھا کہ جب الطاف حسین اس مقدمے سے بری ہوں گے تو یہ واپس مل جائے گا۔ پاکستان کی طرح غائب نہیں ہوگا۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اسی کالم میں وہ رقم طراز ہیں کہ الطاف حسین پاکستان میں زیادہ محفوظ ہیں بہ نسبت برطانیہ کے۔ جبکہ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان میں سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء، وزیرا عظم کا بھائی، ارکان پارلیمنٹ، علماء اور وکلاء سمیت بڑی تعداد میں اہم شخصیات قتل کی گئیں اور وہ پھر بھی الطاف حسین کو پاکستان واپس آنے کی صلاح دیتے ہیں اور انہیں محفوظ بھی گردانتے ہیں اور پھر خود ہی لیپ ٹاپ کے حوالے سے پاکستانی حکام کی تذلیل کرتے بھی نظر آتے ہیں جنہیں وہ الطاف حسین کی سلامتی کا ضامن سمجھتے ہیں۔
یہاں یہ بات ہمارے زیر نظر رہنی چاہئے کہ خدانخواستہ جب کوئی قتل ہوتا ہے تو سب سے پہلے تحقیقات گھر اور خاندان والوں سے شروع ہوتی ہیں۔ ان سے پوچھ گچھ بھی ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض کو تحویل میں بھی لیاجاتا ہے۔ عمران فاروق کا گھر ایم کیو ایم اور خاندان والے ایم کیو ایم کے کارکنان اور ذمہ داران ہیں۔ اگر کوئی تحقیقات کے دائرے میں آرہا ہے تو اسے ہم جج بن کر مجرم قرار نہیں دے سکتے تاوقت یہ کہ وہ مجرم ثابت ہو کر سزا نہ پائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کالم نگار آج خود ہی وکیل استغاثہ و وکیل صفائی بن رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ منصف کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اختلاف ہے کہ ہم تحقیقات کے اندھیروں میں اگر ثبوت کے چراغ نہیں جلا سکتے تو اندھیروں میں تیر چلا کر ہم کسی کی کردار کشی کا باعث کیوں بن رہے ہیں؟ بالکل اسی طرح ایک اور مضمون ’’بلف گیم‘‘میں شہرئہ آفاق کالم نگار حفیظ اللہ نیازی بھی پاکستان کے سیاسی اکابرین ، سابق حکمرانوں کی تعریف میں ایسے قصیدے پڑھتے دکھائی دئیے جنہیں ضبط تحریر میں لانا بھی راقم اخلاقی اقدار کی توہین سمجھتاہے۔ اس مضمون میں نیازی صاحب رقم طراز ہیں کہ لندن میں ہونے والی ہلچل اور طالبان سے مذاکرات کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک بریکنگ نیوز بھی قارئین کو سنائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم طالبان کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کی قیادت کی متمنی ہے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں کیوں اٹھا، اس کی وہ وضاحت تو نہ کرسکے لیکن کراچی کی پینتیس سالہ تاریخ میں وہ آگ اور خون کا جو کھیل ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس کا ذمہ دار بھی وہ ایم کیو ایم کو بادی النظر میں گردانتے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں جن سیاسی جغادریوں کو ان کی ضمانتیں ضبط کروا کر بیلٹ کے ذریعے شکست دی، وہ عناصر ڈرائنگ روم کی سیاست تک محدود رہے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے لے کر عہد حاضر تک جتنی قوتوں کو ایم کیو ایم کے سامنے لاکھڑا کیاگیا، وہ سب کے سب مہمان اداکار ثابت ہوئے۔ کچھ عرصہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے نظر آئے اورا س کے بعد مفاد پورا ہونے کے سبب راہِ فرار اختیار کر گئے اور ایم کیو ایم آج بھی سندھ کے شہری علاقوں کی واحد اسٹیک ہولڈر ہے جو انتہائی استقامت کے ساتھ انتہائی نچلی سطح پر بھی اپنی اساس کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ رہی بات کراچی میں ہونے والے قتل و خون کے حوالے سے کراچی پولیس چیف شاہد حیات محسود کی وہ بات کہ ان کو ٹٹولا جائے تو بہت سے بڑے نام سامنے آسکتے ہیں۔ تو راقم کا انہیں مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ اگر شاہد حیات محسود مصلحتوں کا شکار ہیں تو وہ ان ناموں کا انکشاف کردیتے تاکہ شاہد حیات صاحب اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ یوں تو کراچی پولیس چیف نے ہزاروں افراد کی گرفتاری کے دعوے کیے اور مختلف اوقات میں کراچی میں ہونے والے تشدد کے الزامات کبھی انتہا پسندوں پر ، تو کبھی سیاسی جماعتوں پر عائد کیے ۔ بظاہر تو وہ مصلحتوں کا شکار نظر نہیں آتے لیکن فاضل کالم نگار نے ان کی شخصیت کو متنازعہ کرڈالا۔
انہوں نے اپنے آرٹیکل میں پاکستان کی تکلیف دہ سیاسی تاریخ میں ایک ایسے سنہری دور کی نشاندہی کی جس میں پاکستان نے ادارے قائم کیے، فوج بنائی اور ترقی کی ایسی منازل طے کیں کہ کیلیفورنیا اور جاپان کو بھی مات دے دی۔ وہ دور تھا سابق فوجی حکمراں جنرل ایوب خان کا لیکن ان کی نسلی محبت یہ لکھنے سے قاصر رہی کہ اسی آمر کی گیارہ سالہ حکومت کے دور میں ہونے والی محرومیوں نے اس مملکت خداداد پاکستان کو 16دسمبر1971ء کو دو لخت کردیا۔ آخر میں راقم حکمرانوں سے یہ درخواست کرے گا کہ طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ذمہ داری حفیظ اللہ نیازی کے سپرد کی جائے کیونکہ انہوں نے اپنے اس کالم کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی طاقتوں کو ناک آئوٹ کردیا ہے تو آج وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو سنگین مسئلے سے نکالنے کے لئے ہم ایسی جہاندیدہ شخصیت کو استعمال کریں تاکہ ملک دہشت گردی سے پاک ہوسکے اور ایک بار پھر 60ء کی دہائی کی طرز پر ترقی و کامرانی کی منازل طے کرے۔اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ خدایا ملک کو ہر قسم کی پسماندگی سے بچا۔ خواہ وہ علم کی پسماندگی ہو یا قلم کی۔ اس پسماندگی کا تعلق صنعتی ترقی سے ہو یا معاشرتی ترقی سے، پاکستان کو اس سے محفوظ فرما (آمین)۔
تازہ ترین