• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میںایشیا کی سب سے زیادہ 39سے 40فیصد مہنگائی ہے،بنیادی اشیائے خورونوش پر شرح60فیصدتک چلی گئی ہے ۔2018میں آٹا 33روپے کلو تھا اور آج وہی آٹا 150روپے ہے ،جو لوگ اس زمانے میں 3کلو آٹا 90روپے میں لیتے تھے وہی بے چارے آج 500روپے میں خرید نے پر مجبور ہیں، دیگرچیزیں علیحدہ ہیں، دوائیں 300سے 400فیصد مہنگی ہو چکی ہیں ،بجلی مہنگی ہوگئی ہے ،لوئر مڈل اور مڈل کلاس کے وہ نوجوان جو فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں ان کی اوسط عمر 30سے 35سال ہے ۔پڑھے لکھے مڈل کلاس نوجوانوں کو پاکستان کے کل سے کوئی دلچسپی نہیں ، اسی لئے وہ پاکستان سے جا رہے ہیں ،سوال یہ ہے کہ ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے کیا کرنا ہوگا،جو کرنا چاہیے وہ بہت آسان ہے لیکن جنہوں نے یہ سب کچھ کرنا ہے وہ یہ نہیں کریں گے۔پاکستان کی 60فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے،لینڈ ریفارمز کریں جو پاکستان کے علاوہ ہمارے ارد گرد سارے خطے میں پہلے ہی ہو چکی ہیں ،اگر ہم اپنی سیاست اور خارجہ امور کو ٹھیک کرلیں تو پھر دفاعی اخراجات کی ضرورت نہیںپڑے گی،پڑوسی ملکوںسے تعلقات ٹھیک کریں ۔انڈیا اور چین کے درمیان کئی تنازعات موجودہیں ،لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں دونوں کے درمیان 137ارب سالانہ کی تجارت ہے۔کاروبار بھی ہورہا ہے اور اپنی اپنی بات بھی کر رہے ہیں ،پاکستان اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے ،ہماری ایک ارب کی ٹریڈ 38ار ب تک جاسکتی ہے ۔دفاعی ،صوبائی اور وفاقی اداروں کےاخراجات کو 5سال کیلئے منجمدکریں ،اس طرح کے اقدامات سے ملک میں مسائل کافی حد تک قابو میں آسکتے ہیں ،توانائی کیلئے سولر پر جائیں ،ایک زمانے میں آسان اقساط پر پیلی ٹیکسیاں دی گئی تھیں اسی طرح کی سولر سسٹم کیلئے اسکیم نکالیں ،ہر گھر کو آسان اقساط پر بغیر سود کے سولرپینل فراہم کردیں ،بہت ساری بجلی پٹرولیم سے بناتے ہیں یہ اس کا متبادل ہے ،پاکستان میں ہر دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ انڈیا کے ساتھ دوستی کرو،لینڈ ریفارمز ہونی چاہئیں،دفاعی اخراجات میں کمی کرنی چاہئے ،لیکن وہ اس کا باقاعدہ اظہار نہیں کرنا چاہتا ،میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے جو باتیں ہم انفارمل کرتے ہیں اسے فارمل طریقے سے کیا جائے تب ہی یہ سوسائٹی آگے جائے گی،بصورت دیگر ہم جس جال میں پھنسے ہیں اس سے باہر نہیں نکل پائیں گے ۔اعدا دو شمار کے مطابق پاکستا ن میں غربت کسی دور میں بھی کم نہیں ہوئی ،یہ اعدادوشمار عالمی بینک کے ہیں جو اپنی پالیسی کے دفاع کیلئے ضرورت کے مطابق اعدادو شمار کو ڈھالتا ہے ۔غربت سماجی اور سیاسی ایشو ہے ۔ہر سال ایک بجٹ آتا ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ہے،قوم کے وسائل کی تقسیم کس طرح ہوگی،کتنے پیسے کس کی جیب سے نکالے جائیں گے اور کتنے پیسے کس کی جیب میں ڈالے جائیں گے۔جس کا پلہ بھاری ہوتا ہے وہ اپنی جیب سے کم سے کم پیسے نکلواتا ہے اور دوسروں کی جیب سے زیادہ نکلواکر اپنی جیب میں زیادہ ڈلواتا ہے ہر بجٹ میں یہ ہی ہوتا ہے ۔

ہماری گندم افغانستان اور تاشقند تک جاتی ہے اور ہم اسے روک نہیں پائیں گے تو ہمیں اپنی ضرورت میں افغانستان اور تاشقندکو بھی شامل کرنا پڑے گااگر نہیں گریں گے تو گندم کی قلت پیدا ہو جائے گی۔تو جو گندم یہاں سے افغانستان اور تاشقند اسمگل ہوگی وہ10سے 15فیصد گندم ہمیں 300ڈالر کے مطابق کسی دوسری جگہ سے امپورٹ کرنا پڑےگی ۔زمین ہمارے پاس ہے خود کیوں نہ پیدا کریں ۔دالیں 100فیصد پیدا کرسکتے ہیں ،ہمارے پاس ایک پورا خطہ ہے،جیکب آباد،شہداد کوٹ،ڈیرہ غازی خان کا علاقہ دالوں کی کاشت کیلئے بہت اچھا ہے ۔سن فلاور کیلئے بہت اچھی زمین کی ضرورت نہیں ہوتی زیادہ پانی بھی نہیں چاہیے ہمارے پاس زمین موجود ہے،سن فلاور کی کاشت سے ہم پام آئل کی در آمد روک سکتے ہیں ۔جب ہم بنیادی کھانے پینے کی چیزیں خود پیدا کریں گے تو وہ مہنگی نہیں ہوں گی اور غربت میں کمی آئے گی۔ہماری پی آئی اے ،اسٹیل مل اور دیگر انڈسٹری کو کوئی خریدنے پر تیار نہیں ،ہم بار بار انہیں بیچنے مارکیٹ جاتے ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں ہے ،لہٰذا اب ہم اپنی زرعی زمین بیچ رہے ہیں یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے ۔عوام کو اداروں یا ملک سے نفرت نہیں،عوام طبقاتی تقسیم کی وجہ سے بد ظن ہیں۔اگر ملک واقعی مشکلات میں ہے تو یہ مشکلات سب پاکستانیوں کو پیش آنی چاہئیں۔لیکن یہاں ایک طبقے کو ڈسپرین نہیں مل رہی اور ایک طبقے کا علاج یورپ میں ہو رہا ہے ۔ایک طبقہ اپنے گردے بیچ کر بجلی کا بل دے رہا ہے اور ایک طبقے کو بجلی مفت مل رہی ہے ۔ایک طبقے کے پاس سائیکل تک نہیں اور ایک طبقہ ہیلی کاپٹروں اور اربوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں گھوم رہا ہے ۔ایک طبقہ آٹے کی لائنوں میں کھڑا ہے ایک طبقہ کینڈل لائٹ ڈنر کر رہا ہے ۔ایک طبقہ فٹ پاتھوں پر رہ رہا ہے ،ایک طبقہ یورپ میں جزیرے خرید رہا ہے ۔ایک طبقے کے پاس کتاب خریدنے کے پیسے نہیں،ایک طبقے کے بچے یورپ میں پڑھ رہے ہیں ۔ایک طبقہ روٹی کا ٹکڑا چرانے پہ ساری عمر جیل میں رہتا ہے،ایک طبقہ اربوں روپے چرانے اور قتل و غارت کر کے بھی آزاد گھومتا ہے ۔جب اتنی شدید تفریق ہوگی تو پسماندہ طبقہ چیخے گا۔ان کا چیخنا جائز ہے۔آپ انہیں غدار نہیں کہہ سکتے ۔یہ طبقہ ملک یا اداروں سے نفرت نہیں کرتا بلکہ عیاش طبقے سے نفرت کرتا ہے۔جب تک یہ تفریق ختم نہیں ہوگی تب تک یہاں عدم استحکام رہے گا۔حل صرف یہی ہے کہ یا تو دونوں طبقے غریب ہو جائیں یا دونوں امیر ہو جائیں۔

تازہ ترین