(گزشتہ سے پیوستہ)
دلچسپ بات یہ ہے کہ پرانی کوتوالی پھر نئی کوتوالی اور حویلی دھیان سنگھ (جہاں پر ایک طویل مدت تک بلکہ 1975ء سی آئی اے چونا منڈی کا تھانہ رہا ہے۔ یہیں قریب ہی مشہور بودی کی سائیکلوں و پنکچروں والی دکان ہوتی تھی جو ایک مشہور سیاست دان کے والد تھے) یہیں پر کبھی ڈاکٹر انور سجاد (مشہور ڈرامہ نگار، نقاد، ادیب) اور ان کے والد ڈاکٹر دلاور حسین کا کلینک تھا۔ دونوں باپ بیٹا ایک لمبی میز کے دونوں طرف آمنے سامنے بیٹھ کر مریضوں کا معائنہ کیا کرتے تھے۔ البتہ ڈاکٹر انور سجاد تو اپنی خوبصورت اور مزاحیہ باتوں سے مریض کی آدھی بیماری تو اسی وقت ہی ٹھیک کردیا کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے سی آئی اے کے دفتر کے باہر ایک بہت بڑا کالے رنگ کاسلاخوں والا دروازہ یا پھاٹک ہوا کرتا تھا۔ جس دلچسپ بات کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان تینوں جگہوں پر ایک درخت تھا اور ان تینوں درختوں کے ساتھ مجرموں کو باندھ کر ان کی دھلائی کی جاتی تھی۔ باقی دونوں کوتوالی میں یہ درخت اب نہیں موجود، البتہ نئی کوتوالی میں پچھلے 75 سال سے یہ درخت موجود ہے اور آج بھی اس قسم کا کام لیا جاتا ہے۔ ہم نے سی آئی اے چونا منڈی والا درخت تو خود دیکھا ہے۔ جب اس حویلی دھیان سنگھ میں گورنمنٹ نواز شریف کالج برائے خواتین (پرانا نام) اور پھر نیا نام گورنمنٹ فاطمہ جناح پوسٹ گریجوایٹ خواتین کالج 1980ء کے بعد قائم کیا گیا تو یہ مجرموں کی پٹائی والا یادگار درخت 2010ء تک رہا ۔ ایک زمانے میں ہم بھی گورنمنٹ فاطمہ جناح گرلز کالج میں شعبہ صحافت ایم اے کی کلاسیں پڑھاتے رہے ہیں۔ بلکہ اس کی صحافت کی پہلی کلاس ہم نے پڑھائی ہے۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ گورنمنٹ ایف سی کالج، کوئین میری کالج اور جی سی ٹائون شپ میں ایم اے صحافت کی پہلی کلاسوں کو ہم نے پڑھایا ہے۔ خیر جب ہم چونا منڈی کالج پڑھانے جایا کرتے تھے تو یہ درخت وہاں موجود تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مجرموں کی پٹائی کے لئے آخر یہ درخت کیوں رکھے گئے تھے۔ خیر یہ تینوں درخت اس حوالے سے بڑے یادگار ہیں کہ ان کے ساتھ سیاسی قیدیوں، آزادی کے متوالوں کو بھی باندھ کر اذیت دی گئی تھی۔ ویسے لاہوریوں کے لئے یہ بات بڑی دلچسپ ہوگی کہ حویلی دھیان سنگھ (چونا منڈی کالج والی) میں ایک ایسا کمرہ بلکہ تہہ خانہ تھا جس کو ہم نے بھی دیکھا تھا کہ اس میں مہارجہ نے بچھو، سانپ اور دیگر خطرناک کاٹنے والے رینگنے والے کیڑے مکوڑے رکھےہوئے تھے اور راجہ مجرموں کو اس کمرے میں بند کرکے ایک چھوٹے سے روشن دان سے یہ اذیت ناک نظارہ کیا کرتا تھا۔ پھر جب یہ کالج بنا، تب بھی وہ کمرہ موجود تھا تو اس کی پہلی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ حسین نے ہمیں وہ کمرہ دکھایا تھا، اور ہم نے وہ کھڑکی بھی دیکھی جس پرلوہے کی چوڑی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ بعد میں اس کمرے میں کمپیوٹر روم بنا دیا گیا تھا اور ایک مدت تک اس کمر ےمیں سانپ اور بچھو دیکھے جاتے رہے۔ یہ بہت بڑا تہہ خانہ ہے حال ہی میں ہم وہاں گئے ، اب اس کی خستہ حالی دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ حالانکہ اس تہہ خانے کی دیواریں دو سے ڈھائی فٹ چوڑی ہیں اور یہ بڑا ٹھنڈا تہہ خانہ ہے۔1850ء میں انگریزوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس پرانی کوتوالی کو گرا دیا اور پھر اس وقت کے لاہور کے اسسٹنٹ کمشنر تھارن مل کی نگرانی میں نئی کوتوالی تعمیر کرائی گئی۔ کبھی اس تاریخی عمارت پر شاہی سکہ لگا ہوتاتھا یعنی اس عمارت پر یہ اس کا نشان ہوتا تھا۔ گوروں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاہور میں ایک ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ اور اسکے ایک سے زائد معاونین مقرر کئے تھے۔ اس زمانے میں پولیس چوکیداروں کی مدد سے اپنا نظام چلاتی تھی ، اور پولیس کھوجیوں کی مدد سے بھی مجرموں کو پکڑا کرتی تھی۔ لاہور میں باقاعدہ ایک محلے کا نام کھوجیوں کا محلہ یا کھوجی محلہ ہے۔ خیر اس کی تاریخ کچھ اور ہے اور شاید اندرون لاہور میں اب بھی کہیں کھوجی رہتے ہوں۔ بہرحال ابھی ہم اس سلسلے میں اپنی ریسرچ کر رہے ہیں۔ لاہور میں آج بھی پولیس کھوجیوں اور مخبروں سے بہت مدد لیتی ہے۔ گوروں کے زمانے میں کھوجیوں اور چوکیداروں کو تھوڑا بہت الائونس انعام بھی ملا کرتا تھا۔ البتہ پولیس میں گھوڑا پال الائونس آج بھی ہوتا ہے۔ ویسے انگریزوں کی آمد سے قبل قطب الدین ایبک اور اشوک کے زمانے میں بھی پولیس کا نظام موجود تھا۔ یقیناً وہ آج کے نظام سے مختلف ہوگا۔
بہرحال موجودہ کوتوالی میں آج بھی بوہڑ کا ایک درخت موجود ہے جو پچھلے 75 برس سے ہے اور اس سے آج بھی وہی کام لیا جارہا ہے یعنی آج بھی مجرموں کو باندھ کر ان سے جرم قبول کرایا جاتا ہے۔ اس تاریخی کوتوالی تھانے کی دیوار پر یہ لفظ انگریزی ، اردو اور فارسی میں درج ہیں۔ ’’خدائے تعالیٰ نے ہمیں ایک نئی مملکت کے معمار کی حیثیت سے اپنی اہلیت کے اظہار کا ایک عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے۔ اب کہیں یہ نہ کہا جائے کہ ہم اس کے اہل ثابت نہیں ہوئے‘‘۔ (11 اکتوبر1947ء، قائد اعظمؒ)
GOD HAS GIVEN US A GRAND OPpORTUNITY TO SHOW OUR WORTH AS ARCHITECTS OF A NEW STATE. AND LET IT NOT BE SAID THAT WE DID NOT PROVE EQUAL TO THE TASK. 11th OCT. 1947
(QUAID-I-AZAM)
THIS KOTWALI WAS BULIT IN 1915 ON THE SUGGESTION OF L.C. GLASCOCK M.V.O.S. POLICE IN PLACE OF LOD KOTWALI INSIDE DELHI GATE.
THE TABLET COMMEMORATING THE ERECTION OF THE OLD KOTWALI IS NOW SET UP INSIDE THIS GATEWAY.
H.V.B.HARE SCOTT SAPDt POLICE LAHORE.
(جاری ہے)