• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز خٹک کا یہ الزام بے پناہ اہمیت کا حامل ہے کہ بلے کا نشان انہیں آفر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے نہیں لیا ۔وہ شخص ، جو خود کو وزیرِ اعلیٰ بنائے جانے والے کے خلاف اس تکلیف دہ وقت میں ہرزہ سرائی میں مصروف رہتا ہے ۔ وہ شخص ، جس نے اپنی پارٹی کا نام ہی تحریکِ انصاف رکھا تاکہ ملتے جلتے نام سے لوگ دھوکہ کھائیں۔ اس شخص کو بلے کانشان آفر ہو اور وہ نہ لے ، کیا یہ بات آپ کی سمجھ میں آتی ہے ؟ اگر پرویز خٹک کو نشان آفر کیا گیا تو یقیناً الیکشن کمیشن نے نہیں بلکہ ان قوتوں نے جو دراصل یہ ملک چلا رہی ہیں ۔ پرویز خٹک کے ساتھ جو کچھ مخلوق کر رہی ہے ، اسی کے ڈر سے انہوں نے یہ نشان قبول کرنے سے انکار کیا ہوگا۔

الیکشن کمیشن میں اگر کوئی جان ہوتی تو اتنے بڑے الزام کیخلاف قانونی کارروائی کرتا۔ الیکشن کمیشن کا فوکس مگر صرف اور صرف تحریکِ انصاف کو سیدھا کرنا ہے ۔ باقیوں کو سات خان معاف ہیں ۔ اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے ، جب الیکشن کمیشن یہ قرار دیتاہے کہ احد چیمہ کو منصب پہ برقرار رکھنا الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ یا تحریکِ انصاف صحیح پارٹی الیکشن نہیں کرا سکی ؛چنانچہ بلے کا نشان نہیں ملے گا۔ بھائی آپ 90دن کی آئینی مدت میں الیکشن نہیں کرا سکے۔ آئین کو آپ نے روند ڈالا ۔ آپ رو رہے ہیں احد چیمہ کو ۔ جسٹس عمر عطا بندیال زور لگاتے لگاتے چلے گئے، پنجاب میں الیکشن نہیں ہو سکے ۔ یہی صورتِ حال بھارت میں ہوتی ، انہوں نے الیکشن آئینی مدت سے باہر نکالنے والوں کو الٹا لٹکا دینا تھا ۔الٹا جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس کی آڈیو مارکیٹ میں چھوڑ دی گئی ۔ ابھی تو یہ شکر کریں کہ ساس کے خالو کی آڈیو نہیں آگئی۔ کیا کوئی شخص اپنی ساس کے افکار و خیالات کا ذمہ دار ہوتا ہے ؟ بھائی بھائی کا اور باپ بیٹے کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ جو آلات اور فنڈز دیے گئے تھے کہ ملک دشمن ایجنٹس کی ریکارڈنگ کریں ، اس سے عمر عطا بندیال صاحب کی ساس کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے ۔ اس سے پہلے وزیرِ اعظم عمران خان کی جنسی گفتگو ریکارڈ کی گئی ۔ کوئی سیاستدان اکڑتا ہے ، اس کی نازیبا وڈیو آجاتی ہے۔

جو لوگ عمران خان سے بلے کا نشان چھیننا چاہ رہے تھے ، وہ اوّل دن سے اس الیکشن کو متنازع بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ معمولی بات پر 2013ء کے الیکشن متنازع ہوئے تو کئی سال کیلئےملک دلدل میں پھنس گیا۔ ہمارے روشن دماغ صرف اپنے ہدف کا تعین کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کی نا آسودہ خواہش کی تکمیل میں چاہے ہزاروں ارب روپے کا نقصان ہو جائے، انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔

ڈالر کاریٹ 178سے بڑھ کر جب 300تک گیا تو ملک کو پندرہ ہزار ارب روپے کا فوری نقصان پہنچا۔ ڈالر مہنگا ہوا تو تیل مہنگا ہوا ۔ سینکڑوں ارب روپے کا نقصان عوام اپنی جیب سے بھر چکے۔ جنہیں تیل مفت مل رہا ہے ، انہیں کیا ۔

پشاور ہائیکورٹ اگر زیادتی کا مداوا نہ کرتی تو ملک ناقابلِ تلافی نقصان کی طرف بڑھ چکا تھا ۔ عدالتوں کا اگر کچھ رول نہ ہو تو اس ملک میں اور شمالی کوریا میں اب کوئی فرق نہیں ۔ سپریم کورٹ نے جیسے ہی سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی ساتھ ہی مریم اورنگزیب سپریم کورٹ کے در پے ہو گئیں ۔ پہلے بھی مریم نواز ، مریم اورنگزیب اور دوسرے لیگی عہدیداروں نے کھل کے ذلیل کیا اعلیٰ عدلیہ کو ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو تا رہا کہ طاقتوروں کی مکمل سپورٹ لیگی عہدیداروں کو حاصل تھی اور اب تک ہے ۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ کچھ سال قبل خود نون لیگ ہدف ہوا کرتی تھی ، اگرچہ اس کے ساتھ اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوا ، جواب ہو رہا ہے ۔

اکبر ایس بابر کو جب میں دیکھتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ غرض کے بندوں کو دوست نہ بنانے پراتنا زور کیوں دیا جاتا رہا۔پہلے انہوں نے فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو ذرہ برابر انتقامی کارروائی اکبر بابر کے خلاف نہ کی ۔ اب بلے کا نشان چھین کر انہوں نے وہی کچھ دہرایا ۔

میری غالباً2013ء میں اکبر بابر سے ملاقات ہوئی تھی ۔ اس ملاقات میں جو زہر انہوں نے عمران خان کے خلاف اگلا وہ ناقابلِ بیان ہے ۔ بیچ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عمران خان ساتھ بیٹھے شخص کی جیب میںپیسے گن لیتا ہے (اور نکلوا لیتا ہے ) ۔ میرے والد کی عمران خان سے قریبی دوستی پچھلی تین دہائیوں پہ مشتمل ہے ۔ عمران خان نے اپنی ذات کیلئے کبھی کسی شخص سے ایک روپیہ بھی نہیں مانگا۔ ہسپتال یا یونیورسٹی کو اگر آپ چندہ دیتے ہیں تو آپ کے ملک کا بھلا ہو رہا ہے ۔ عمران خان کیا کوئی فارغ یا نکما شخص تھا کہ اپنے اخراجات کیلئےآپ کا محتاج ہوتا۔ وہ اگر صرف کمنٹری ہی کرتا رہتا تو آپ کی سات نسلوں کو خریدنے کی سکت رکھتا تھا ۔ وہ تو آپ کیلئے تکلیف سے گزر رہا ہے ورنہ تو اس کی شہزادوں جیسی زندگی تھی۔

وہ واقعہ بھی اکبر بابر نے سنایا ، جب عمران خان سے تعلقات ختم ہوئے ۔ ایک معاملے پر اختلافِ رائے کے بعد اکبر بابر نے عمران خان کو اس مفہوم کہ بات کہی کہ میں تمہیں پکڑ کر سیدھا کردوں گا یا سبق سکھا دوں گا۔عمران خان کو وہ اپنے اشاروں پہ چلانا چاہتا تھا۔ انتقام کا آرزومند اپنی زندگی دلدل میں گزارتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین