مری کی ٹیچر ماریہ کو جلاکر قتل نہیں کیا گیا تھا، پولیس کا دعویٰ ہے کہ ماریہ کو ماسٹر شوکت کے بیٹے ہارون سے تعلقات ٹوٹنے کا رنج تھاجس کی وجہ سے اس نے خودکشی کرلی۔
پولیس نے محمدہارون کو بالواسطہ طورپر ذمے دار قرار دے کر حراست میں لے لیا، ماسٹر شوکت، رفعت محمود اور میاں ارشد کو بے قصور قرار دے دیا گیا۔
مری میں شادی سے انکار پر خاتون کو مبینہ طور پر جلا کرمارنے کا دعویٰ فورنسک رپورٹس نے غلط ثابت کردیا،پولیس تحقیق میں یہ بات سامنےآئی کہ ماریہ نے ماسٹرشوکت کے اسکول میں 2014ءمیں ملازمت شروع کی،جہاں ماریہ کی دوستی ماسٹر شوکت کے بیٹے ہارون سے ہوئی جو اسکول میں ایڈمنسٹریٹرتھا۔
ہارون منگنی شدہ تھا پھربھی دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہوئے جو ہارون کی شادی کے بعد بھی برقراررہے ،ماسٹر شوکت کو معاملے کاعلم ہوا تو ہارون کے اسکول جانے پرپابندی لگا دی گئی ،ماریہ نے بھی اسکول چھوڑدیا تاہم 29مئی 2016ءتک دونوں میں ٹیلی فونک رابطہ برقراررہا۔
کارباری تنازع پر ہارون اور ماریہ کے والدین میں تلخ کلامی ہوئی تو ہارون نے ماریہ سے تعلق ختم کرنے کااعلان کیا،ماریہ نے ہارون کو تعلق ختم کرنے پر خودکشی کی دھمکی دی لیکن ہارون نے کوئی جواب نہ دیا،پولیس کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق موبائل ڈیٹا رکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماریہ صداقت اور ملزم محمدہارون کے درمیان 6248 کالز اور ٹیکسٹ میسجز کا تبادلہ ہوا۔
پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹ میں ماریہ کو جسمانی تشدد یا زنا بالجبر کا نشانہ بنائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوا کہ ملزمان وقوعے کے وقت وہاں سے میلوں دور تھے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق علاج کرنے والے ڈاکٹرز نے تصدیق کی کہ ماریہ نے بستر مرگ پر بیان اپنے والدین اور خاندان کے دیگر ارکان کے دباؤ پر دیا،یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بھی حقائق جاننے کےلیے ماریہ کے گھر اور علاقے کا دورہ کیا تھا ۔
ماریا کی ہلاکت کےبعد وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں وکلاء کے ایک گروپ نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا، گروپ میں شامل سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہےکہ ماریا کی موت سے پہلے جن عورتوں سے بات ہوئی تھی، ان خواتین نے عاصمہ جہانگیر کو تفصیلات بتائی ہیں لیکن وہ پولیس کے سامنے بیان دینے سے گھبرا رہی ہیں۔