• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے گھری کا مطلب ہے گھر سے بے گھر ہوجانا یا اپنے ہی ملک میں اور اپنے ہی علاقوں سے مجبوراً بھاگنے پر مجبور ہونا۔ بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کر کے کسی دوسرے ملک میں یا پڑوسی ریاست میں پناہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ پہلے اپنے ہی ملک میں گھروں سے بے گھر ہوتے ہیں اور پھر وہ پناہ گزین بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

2023 پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا نے اس برس بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہوتے دیکھا۔ ان میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یوکرائن اور جنوبی امریکا کے کئی ممالک سے لوگ ہجرت اور ترکِ وطن کر کے دیگر ممالک میں آباد ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں گویا بے گھری، پناہ گزینی، ہجرت اور ترکِ وطن آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

فلسطین… 1948 کے بعد2023 ء میں فلسطینی عوام کی سب سے بڑی بے گھری ہوئی۔ پہلے اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور وہاں شدید تباہی پھیلائی پھر اس کے بعد جنوبی غزہ میں بھی اپنی افواج بھیج دیں اور غزہ شہر کے ساتھ دیگر شہروں کو بھی خالی کرنے کا حکم دے دیا۔

اسرائیل کو یہ پروا نہیں کہ دس کلومیٹر چوڑی اور چالیس کلومیٹر لمبی غزہ کی پٹی میں پچیس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں جن کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بے گھر افراد پانی سے بھی محروم ہیں لاکھوں عورتیں اور بچے بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ا سپتال، مساجد، گرجا گھر سب تباہ کیے جا چکے ہیں ان کے اسکول اور کالج جہاں یہ پناہ لے سکتے تھے وہ بھی ملبے کے ڈھیر بنا دیے گئے۔ اس طرح 2023 میں بے گھر افراد کی تعداد اور ان پر پڑنے والی مصیبتوں کے لحاظ سے فلسطین کا خطہ بڑا بدقسمت ثابت ہوا ہے ۔

دنیا کا اجمالی جائزہ… اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2023 میں گیارہ کروڑ سے زیادہ افرادبے گھر ہوئے، یہ تعداد 2013 کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ ہے جب پانچ کروڑ افراد دنیا بھر میں بے گھر تھے۔ گیارہ کروڑ میں سے تقریباً چار کروڑ افراد پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے یعنی پہلے اپنے ملک میں بے گھر ہوئے اور پھر سرحد پار کر کے کسی غیر ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 

ان میں سے تین چوتھائی یا پچھتر فی صد پناہ گزین غریب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے گھری، پناہ گزینی اور ہجرت غريب ممالک کے افراد پر ہی مسلط کی گئی ہے اور امیر ممالک اس لعنت سے نہ صرف محفوظ ، بل کہ غریب ممالک کی اس بدحالی کے بڑی حد تک ذمہ دار بھی ہیں کیوں کہ زیادہ تر بربریت، تنازعے، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی نہ کسی طرح امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی حکمت عملی سے جڑی ہوتی ہیں۔ 

فلسطین کی حالیہ تباہی سے قبل یوکرائن پر تمام مغربی میڈیا کی توجہ مرکوز تھی جہاں سے تقریباً ساٹھ لاکھ افراد بے گھر بتائے گئے۔ ان کے ساتھ ہی شام اور افغانستان کے نمبر آتے ہیں جہاں کے بے گھر افراد کی تعداد بھی تقریباً ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہی بتائی جاتی ہے اور یہ تینوں امیر ملکوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

یوکرائن…2023 میں یوکرائن میں بے گھر ہونے والے ساٹھ لاکھ افراد روس کے یوکرائن پر حملے کے نتیجے میں بے گھر ہوئے۔ ان میں سے بیس لاکھ افراد کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں اور یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی غذا اور پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ساٹھ لاکھ میں سے پچاس لاکھ یوکرائن میں ہی موجود ہیں، مگر بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ دس لاکھ افراد دیگر ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ 

یہ سارا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب 2022 میں روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اور شدید لڑائی کے نتیجے میں ہر گزرتے دن بے گھر لوگوں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوتا رہا جو پولینڈ، ہنگری، ملاوا وغیرہ میں پناہ گزین بنتے گئے۔ پولینڈ نے سب سے زیادہ یعنی تقریباً ساٹھ فی صد پناہ گزینوں کو کھپایا ہے۔ رہے۔ پورا یوکرائن ایک شدید معاشی بد حالی کے دلدل میں دھنس چکا ہے اور مغربی ممالک خاص طور پر امریکا کے اپنے اسلحے اور گولے بارود کے کارخانے خوب چل رہے ہیں۔

شام…شام کی مجموعی آبادی کا تقریباً نوے فی صد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگلے کھانے کا بندوبست کہاں سے اور کیسے ہوگا۔ شام میں بیس لاکھ بچے جو پناہ گزین ہیں تعليم سے محروم رہنے پر مجبور اور مزید پندرہ لاکھ بچے بہ مشکل اسکول جا پاتے ہیں۔ اب شام کی خانہ جنگی کو بارہ برس ہوچکے ہیں مگر صورت حال میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ 

اب بھی پچاس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزین دیگر ممالک میں مدد کے طلب گار ہیں اور ان میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کے علاوہ ایسے معذور افراد کی بھی ہے جو خانہ جنگی میں بم باری یا تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ یوکرائن کی طرح شام بھی مغربی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی جنگ جویانہ پالیسی کا نشانہ بنا۔

افغانستان… دنیا کے 190 ممالک میں انسانی ترقی کے پیمانے پر افغانستان کا درجہ 180 ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کو مغربی ممالک خاص کر امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں استعمال کیا اور پاکستان کو اپنا آلہ کار بنایا۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے باوجود بے گھر افراد میں کمی اس لیے نظر نہیں آرہی کہ اب وہاں پانی، بجلی، گیس، سڑکیں اور تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس سے قبل اشرف غنی کی حکومت میں سرکاری بجٹ کا پچھتر فی صد حصہ امدادی رقوم سے آتا تھا لیکن بیرونی امداد بند ہونے سے اب طالبان کی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔2023 ء میں سینکڑوں افغان خاندان کو پاکستان چھوڑنا پڑا وہ افغانستان میں شدید غیر یقینی کا شکار ہیں، کیوں کہ اب نہ ان کے پاس روزگار کے مواقع ہیں اور نہ رہنے کے لیے گھر بار موجود ہے۔

سوڈان…افریقہ کو دیکھیں تو سوڈان میں بے گھر اور پناہ گزین افراد کی تعداد سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ تقریباً پچاس لاکھ افراد حالیہ لڑائی کے باعث بے گھر ہوچکے ہیں جن میں پندرہ لاکھ دیگر ممالک ہجرت کر چکے ہیں ۔ 2023 میں سوڈان میں ہر روز تیس ہزار افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے جن میں سے بڑی تعداد چاڈ اور جنوبی سوڈان کے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ اب سوڈان کی خانہ جنگی کے بنیادی حریف سوڈانی افواج اور ان کے مقابلے میں خود سوڈان کے ہی نیم فوجی دستے جیسے رینجرز وغیرہ ہیں۔ اس خانہ جنگی کا آغاز اپریل 2023 میں ہوا جس میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے۔ سوڈان کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں تقریباً آدھے لوگ فوری مدد کے طلب گار ہیں۔ لاکھوں لوگ خیموں میں زندگی گزارنے پراور باقی لوگ مصر اور ایتھوپیا وغيرہ کی طرف بھاگنے پر مجبور ہیں۔ پڑوسی ممالک جیسے چاڈ اور جنوبی سوڈان وغيرہ خود دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں اور پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وسائل کے طلب گار ہیں لیکن فلسطین اور یوکرائن کے مسائل میں سوڈان کا مسئلہ کہیں دب سا گیا ہے۔

روہنگیا مسلمان…برما یا میانمار میں فوج نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیے تو لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور بنگلہ دیش میں پناہ گزین بن گئے۔ اب یہ لوگ نامساعد حالات سے تنگ آکر ہجرت اور ترکِ وطن پر مجبور ہوگئے ہیں اور بے سہارا کشتیوں میں بیٹھ کر ہزاروں میل کھلے سمندر میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ برما ان روہنگیا مسلمانوں کو اپنی شہریت دینے پر راضی نہیں ہے حالاں کہ یہ صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔

برما کی حکومت انہیں بنگالی کہتی ہے اور بنگلہ دیش کی طرف مار بھگاتی ہے۔ بنگلاديش میں یہ لوگ یا خیموں میں رہتے ہیں یا در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد سمندر کی راہ اپناتے ہیں۔ تقریباً بارہ لاکھ بے گھر اور بے وطن روہنگیا برما سے نکلے اور نوے فی صد بنگلاديش اور ملیشیا میں پناہ کے طلب گار ہوئے۔ ان میں پچھتر فی صد عورتیں اور بچے ہیں، جو اب کشتیوں میں انڈونیشیا اور آسٹریلیا کی طرف ہجرت کرتے نظر آتے ہیں اور سیکڑوں سمندر برد ہوچکے ہیں۔

جنوبی امریکا سے ہجرت اور نقل مکانی…

جنوبی امریکا ایسا براعظم ہے جو صدیوں سے امریکا کے زیرِ اثر رہا ہے لیکن امریکا سے بہتر تعلقات کے باوجود وہاں غربت اور لاچاری عروج پر ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے شمال کی طرف سفر اختیار کرتے ہیں اور کئی ممالک عبور کر کے اور صحراؤں اور دریاؤں سے ہوتے ہوئے امریکا کی سرحد تک پہنچ جاتے ہیں جہاں امریکا نے طویل اور اونچی دیوار بنانے کا کام شروع کردیا ہے، پھر بھی تارکینِ وطن کہ یہ قافلے 2023 میں بھی امریکا کی طرف رواں دواں رہے اور امریکا کی سرحد پر ڈیرے ڈال دیتے اور موقع ملتے ہی سرحد عبور کرکے امریکا میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں خون خوار کتے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ وینزویلا، ایل سیلواڈور، گواٹے مالا اور ہونڈوراس خاص طور پر اس مسئلے کا شکار ہیں جہاں سے تارکین وطن کے قافلے جوق در جوق امریکا کی طرف چلتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح 2023 کا سال پناہ گزینی، ہجرت اور ترکِ وطن کرنے والوں کے لیے بڑا براثابت ہوا ہے۔