افسوس رہے گا کہ ہم سال2023 میں1973کے آئین کی ’ گولڈن جوبلی ‘ نہ منا پائے ۔ مناتے بھی تو کیسے کبھی آئین پر عمل کیا ہوتا تو جشن بھی مناتے ہمیشہ آئین کو اپنے مطلب اور منشا سے چلانے کی کوشش کی اس دوران دوفوجی حکومتیں 20سال رہیں اور نیم فوجی یا لولی لنگڑی جمہوریت30 سال ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھا ، ایک شہید ہوئی، چار بار حکومتیں مارشل لا کے 58-2(b)کا شکار ہوئیں صرف دوحکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی مگر کوئی بھی وزیر اعظم مدت پوری نہیں کرسکا۔
اس سے بڑی مثال ایک غیر مستحکم پاکستان، غیر مستحکم معیشت اور غیر مستحکم نظام سیاست کی کیا ہوسکتی ہے۔ سال2023سبق سیکھنے کا سال تھا مگر اس سال ریکارڈ غیر آئینی، غیر سیاسی اقدامات نے پورے ’ نظام‘ پر سوالیہ نشان کھڑے کردئیے ۔ نہ سیاستدان کچھ سیکھنے کو تیار نہ ریاستی ادارے اور نہ ہی عدلیہ ایسے میں منقسم اور جانبدارانہ میڈیا کیا معاشرہ کا عکاس بنے گا بقول شاعر سے وہ جس کی روشنی کچےمکانوں تک پہنچتی ہو۔
نا وہ سورج نکالتا ہے
نا اپنے دن بدلتے ہیں
اس ملک کی خوش قسمتی یہ کہ اس کی60 فیصد آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے بدقسمتی یہ کہ ہم بحیثیت قوم اس کی سمت کا تعین ہی نہیں کرپائے جو ہمارا 75سالہ المیہ ہے ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بنے گا۔ پاکستان کو تقریباً ہم نے ’ رئیل اسٹیٹ‘ بنا دیا، بس بلند وبالا عمارتوں کو ہم اپنی معیشت بنارہے ہیں۔ زمینوں کے سوداگر ضمیروں کا سودا کررہے ہیں’ سیاست ‘ میں بھی اور ’ صحافت ‘ میں بھی بس یوں سمجھ لیں پہلے شہروں میںDHAہوتے تھے اب شہر ان میں ہوتے ہیں۔
سیاسی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ابھی بھی وقت ہے۔ قومیں ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں پرانی غلطیاں بار بار نہیں کرتیں۔ہمارے بعد آزاد ہونے والے یا بننے والے ممالک ہم سے آگے کیسے نکلے ان ہی کی تاریخ پڑھ لیں۔ دو ’ قومی نظریہ‘ پر ملک تو بنالیا مگر ایک قومی نظریہ بھی قائم ناکرسکے اور اپنے ہی بھائیوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگتے رہے کبھی مذہب کے نام پر کبھی زبان کے نام پر تو کبھی فرقہ کے نام پر قوم کیا بنتے آدھا ملک ہی گنوا بیٹھے ۔
کہاں تک دوستوں کی بے رخی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سرِمقتل نکلتے ہیں
ماضی پر نظر ڈالے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کیونکہ ایک بار پھر ہم نئے سال میں ایک پرانے پاکستان کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں جس ملک میں بچوں کے نصاب میں آمریت دور کے فوائد گنوائے جاتے ہوں وہاں آمریت ہی کی پیداوار ہوگی، چاہے اس کی شکل بظاہر جمہوری نظر آئے ۔ ہمارے بیشتر سیاستدان جمہوری نرسریوں میں جائے بغیر سیاسیات میں ایم اے کرلیتے ہیں اور پھر ہم ان کو خطاب بھی دیتے ہیں کہ اس نے سیاست میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ اگر پوچھوں کہ بھائی کبھی طالبا یونین میں حصہ لیا یا کبھی بلدیاتی الیکشن لڑا تو جواب میں زیادہ تر صفر نظر آئے گا۔
آخر کوئی تو وجہ ہے کہ18ویں ترمیم کے باوجود نہ صوبے خوشحال ہوسکے نابلدیات با اختیار ہوسکیں، البتہ چند سو سیاسی وغیر سیاسی گھرانے ارب پتی ہوگئے۔ طلبہ یونین قانونی طور پر بحال ہیں، مگر کالجوں اور جامعات میں یونین کے الیکشن نہ ہوتے ہیں نہ کروانے کو حکومتیں اور کالج، یونیورسٹی انتظامیہ تیار ہوتی ہے۔
ایسا نہیں کہ ان 75سالوں میں ہم آگے نہیں بڑھے البتہ ایک قیامت تو دہشت گردی کی صورت میں سامنے آئی جس سے آج تک لڑائی جاری ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ جب تک ’انتہا پسندانہ‘ سوچ کا خاتمہ ایک روشن خیال، صاف شہر اور تعلیم یافتہ معاشرہ سے نہیں کریں گے، ملک کو اور قوم کو اس ’ دلدل‘ سے نکال ہی نہیں پائے گے اور پھر شاید دیر نہ ہوجائے۔ مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں میں نے اپنی40سالہ صحافت میں ان تمام معاملات کو بہت قریب سے دیکھا۔ ملک کے معاشی سب کراچی میں ہزاروں لوگوں کے خون کے دھبے دیکھے بھی اور درد محسوس بھی کیا ہے، کئی دوستوں کےلاشے بھی اٹھائے ہیں۔
ایک شہر جو پورے ملک کو آج بھی چلاتا ہے ہم اس شہر کو ایک مضبوط مستحکم معاشی جب نہ بنا سکے۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ کا معاشی استحکام اسی سے جڑا ہے۔ پہلے یہاں سے دارلحکومت منتقل ہوا اور پھر اس کو ’جمہوری‘ ہونے کی سزا دی گئی۔ فاطمہ جناح کی سزا ملی میرٹ کا کلچر ختم کیا گیا۔ صوبہ کو سیاسی طور پر تقسیم کیا ،یہاں کے بسنے والوں نے مل کر ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تو لسانی ، فرقہ وارانہ اور تنگ نظر سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آج بھی ملک کا اور شہر کراچی کا میرٹ اورمضبوط با اختیار بلدیاتی نظام ہے جن کو آئینی طور پر سیاسی نرسریوں کا درجہ دینا چاہیے۔ روشنیوں کا شہر روشنیوں کا بنے گا تو ملک کی روشنی بحال ہوگی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کے سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام ، دہشت گردی اورمعاشرتی ناہمواریوں کی اپنی اپنی حقیقتیں ہیں اور زخم میں بلوچستان دیکھ لیں یا خیبر پختونخواہ کو یا پنجاب میں جنوبی پنجاب کو۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھے اقدامات کے بھی وہ ثمرات دیکھنے کو نہیں ملے۔
سوال یہ ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے شاید ہمیں ذہنی طور پر جمہوری ہونا پڑے گا اور اس کا راستہ ’ آئین‘ سے ہی نکالنا ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہماری اعلی عدلیہ اور معزز جج صاحبان بشمول چیف جسٹس یہ تاثر قائم کریں کہ بینچ بنتے ہی پتا چل جائے کہ فیصلہ کیا آنا ہے…2007 ہماری سیاسی وآئینی جدوجہد کا میرے نکتہ نظر سے انتہائی اہم سال تھا، جب ہماری عدلیہ بشمول ججز ، سول سوسائٹی، وکلا برادری، سیاسی وصحافتی ساتھیوں نے متحد اور یک زبان ہوکر آزاد عدلیہ میڈیا اور شہری وسیاسی آزادی کی جدوجہد کی۔ وہ سال آگے بڑھنے کا سال تھا ہم کچھ آگے بھی بڑھے جب ایک مشترکہ آئینی وجدوجہد کی۔ لیکن شاید اتنا نہ بڑھ سکے، جس کی ایک بڑی وجہ عدلیہ کی حدتک سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا رویہ رہا ،خاص طور پر جب جولائی2007 میں وہ بحال ہوئے پھر نومبر3،2007کو ایمرجنسی لگا کر انہیں دوبارہ برطرف کیا۔
سال2023 سبق سیکھنے کا سال تھا مگر اس سال ریکارڈ غیر آئینی، غیر سیاسی اقدامات نے پورے ’ نظام‘ پر سوالیہ نشان کھڑے کردئیے
اس کے خلاف بھی ایک متحد تحریک چلی اور جب اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف نے میڈیا اورکئی اینکرز پر پابندی لگا دی جس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس نے 90 روز تک آزادی صحافت کی لڑائی لڑی، پھر ایک سانحہ نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا اس ملک کی سب سے مقبول رہنما، سابق وزیر اعظم پوری اسلامی دنیا کی پہلی حاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں۔ 27دسمبر2007کے اس واقعہ نے نا صرف پورے سال کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ 2008کے عام انتخابات کے بعد وہ سیاسی قوتیں جنہوں نے مشترکہ لڑائی لڑی تھی، آزادی عدلیہ کی، وہی ججزز کی بحالی پر آپس میں لڑ پڑیں، جس کے نقصانات ہمیں آنے والے 15سالوں میں 2008 سے 2023تک نظر آئے، شائد یہی وجہ ہے کہ، جب ہم 2023میں داخل ہوئے تو ہم اس سے زیادہ تقسیم ہو گئے تھے اور یہی بنیاد بنی کر ہم سے نا 2008کا الیکشن ہضم ہوا نا 2013کا اور نا ہی 2018اور پھر 2022میں عد م اعتماد کی تحریک کا۔
سیاسی قائدین کی ان ہی غلطیوں اور عدلیہ کی بے جا مداخلت نے غیر سیاسی قوتوں کو اتنا اسپیس دے دیا کہ ہائیرڈ نظام قائم ہو گیا جو آج پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آ رہا ہے۔ پہلے ہم آگے کتنا بڑھے ہیں اس کی تھوڑی سی بات کرلیتے ہیں پھر یا غلطیاں کیا ہوئیں ان دو باتوں کے جواب سے آپ کو اندازہ ہو گا۔ 2023 میں کیا ایسا ہوا کہ ہم 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی مناسکے نا ہی برسی۔ 2006میں دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے ایک تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔
جسے آج ہم ’میثاق جمہوریت‘ کہتے ہیں جس کا مقصد نا صرف ماضی کی سیاسی غلطیوں کا ازالہ اور اعتراف تھا بلکہ آگے بڑھنے کا طریقہ کار بھی طے کیا۔ اس پر اگر عمل درآمد ہو جاتا تو ناہی کسی وزیر اعظم کو اس طرح نکال جاتا ناہی این آر او ہوتااور شائد پچھلے 15 سالوں میں جمہوریت مزید مستحکم ہوتی۔ یہ کہنا کہ کس نے پہلے خلاف ورزی کی ،اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ کس نے نہیں کی۔ اس ’میثاق‘ کے بعد 9 مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا انکار اور وہ بھی ایک آمر کے سامنے بہت بڑی تبدیلی تھی اس عدلیہ کی جس نے آنکھ ہی نظریہ ضرورت میں کھولی اور اس میں پروان چڑھی۔
یہ بھی پہلی بار دیکھنےکو ملا کہ، ایک معزول چیف جسٹس نکالے جانے کہ بعد گھر نہیں بیٹھا بلکہ بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر خطاب کرنے گیا تو حاضر ججزز حضرات بھی اس کا خطاب سننے آئے اور یوں پوری عدلیہ ایک طرف کھڑی تھی اور آمریت دوسری طرف۔ بہرحال ہم نے وہ اہم ترین لمحہ گنوا دیا مشرف کمزور ہو رہا تھا۔ ہم نے این آر او کے ذریعہ سے سیاسی سہارا دے دیا۔ یہ وہی تاریخی غلطی تھی جو 2002میں متحدہ مجلس عمل نے 17ویں ترمیم اور LFOکر کے کی تھی یا اس سے پہلے 1977کے مارشل لاء کی حمایت کر کے اور پھر بھٹو کی پھانسی کی خاموش حمایت کر کے کی، پھر انہی قوتوں نے وہ کھیل کھیلا جس کے بعد شائد ہم نظام کو مضبوط ہی نا کر سکے۔
دو ستون مضبوط ہو کر ابھرے 2007 میںعدلیہ اور میڈیا، اب دونوں تقسیم ہیں۔ اگر متحرمہ کی شہادت کے بعد بھی 2008کے الیکشن ہوتے ہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین اور ججزز کی بحال اور رہائی کا اعلان ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر عمل بھی کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔ ججزز رہا ضروری ہوئے بحال نہیں ہوئے۔ اسی طرح طلبہ یونین کے الیکشن آج تک نہیں ہوئے۔ پی پی پی کی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 10سال رہیں۔ پی ٹی آئی کی ساڑھے تین سال اور پھر پی ڈی ایم کی 16 ماہ۔
سال 2008میں الیکشن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوئے تو تقریباً ایک نئی پی پی پی نے جنم لیا۔ آصف زرداری جوڑ توڑ کے ماہر سیاستدان ضرور ہیں، مگر وہ کبھی بھی عوامی سیاست نا کر سکے۔ انہوں نے پہلے سال ہی صدر بننے کے بعد بوربن معاہدہ کے برخلاف سابق چیف جسٹس کو بحال نہیں کیا اور معاہدہ کو ایک کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر تقریباً رد کر دیا، یوں میثاق جمہوریت میں گہری دڑاڑ آ گئی۔
مسلم لیگ (ن) چند ماہ کے ہنی مون کے بعد مخلوط حکومت سے باہر آ گئی اور زرداری صاحب گجرات کے چودہدریوں کے گھر پہنچ گئے جس کے بارے میں ایک بار چوہدری پرویز الہٰٓی نے کچھ اس طرح مجھے بتایا ’’ہمارے خاندان کے لئے ایک خوشگوار حیرت کا مقام تھا کیونکہ خود بی بی نے شائد کسی غلط فہمی کی بنیاد پر 18 اکتوبر کے واقعہ کے بعد مجھ پر بھی الزام لگا دیا تھا ، جب کہ لڑائی ان کی مشرف سے تھی۔
بہرحال ہم نے ان کو خوش آمدید کہا اور انہوں نے بھی گرم جوشی دکھائی اور کمال جملہ کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے دشمنیوں میں جواں ہوں۔ ہم نے بھی کہا ہماری آپ سے یا کسی سے بھی کوئی دشمنی نہیں، ہاں سیاسی اختلافات ہیں۔ پھر انہوں نے کہا اب اگر دوستی ہو ہی گئی ہے تو آپ حکومت میں آئیں۔
میں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر انہوں نے اصرار کیا اور مجھے ڈپٹی وزیر اعظم تک کا عہدہ دے دیا اور یوں ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ میں نے پوچھا چوہدری صاحب کیا اس موقع پر چوہدری شجاعت صاحب نے زرداری صاحب کو وہ قلم واپس کر دیا جو جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو سزائے موت سنانے کے بعد ان کو تحفہ کے طور پر دیا تھا اور کہتے ہیں وہ چوہدری صاحب کے بیڈروم میں آج بھی موجود ہے۔
اس سوال پر بس پرویز الہیٰ نے اتنا کہا ’’نا انہوں نے مانگا نا چوہدری صاحب نے دیا۔‘‘ اب تو خود چوہدری تقسیم ہیں اور سال 2021 میں انتہائی قریب ہونے کے بعد اور تقریباً ہر چیز پر متفق ہونے کے بعد نا جانے کون سا فون آیا کس کا آیا کہ چوہدری صاحب نے مٹھائی زرداری ہائوس میں رکھائی اور گاڑی کا رخ بنی گالہ کی طر ف موڑ لیا اور کھیل پلٹ گیا۔ جس کا ذکر آگے بیان کرپڑھیے گا۔
زرداری صاحب نے اپنے دورہ صدارت میں صدر کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے جو آنے والے وزرائے اعظم کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ 18 ویں ترمیم بہت بڑی ترمیم تھی جس پر آج تنقید کرنے والے 9ماہ تک سوتے رہے جب کہ شائد ہی کسی آئینی ترمیم کے لئے عام شہریوں اور مختلف شعبہ زندگی سے رائے طلب کی گئی اور اشتہارات بھی دیئے۔ بہت سے لوگوں نے اپنی رائے بھی دی، البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس ترمیم کے نتیجہ میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا مگر اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی وزرائے اعلیٰ ہائوس سے باہر نا آسکی تو کیا جس طرح 75برس صوبوں نے مرکز سے لڑائی بڑی اب شہری حکومت اور عوام صوبوں سے لڑائی لڑیں اپنے حقوق کے لئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا یہ کام بھی ہو جاتا۔
بہرحال 18ویں ترمیم ایک مثبت قدم تھا اور متفقہ تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے ہم روزانہ کی بنیاد پر کبھی ہفتوں اس ہال کے باہر ہوتے جب بھی اندر اجلاس ہو رہا ہوتا ،مجال ان 9 ماہ میں چیئرمین کمیٹی رضا ربانی سمیت کسی نے دو جملے بھی ادا کیے ہوں۔ بعد میں پتا چلا سب نے حلف لیا تھا کہ باہر کوئی گفتگو نہیں کرنی ورنہ معاملات بگڑ جائیں گے اور ترمیم تیار نہیں ہو پائے گی۔
زرداری صاحب کی صدارت اور وزیر اعظم گیلانی اور بعد میں راجہ پرویز اشرف کے دور میں 2008سے 2013تک پاکستان نے دہشت گردی کی خلاف جنگ تیز کر دی ایک ایسے موقع پر جب سوات جیسی حسین وادی بھی تحریک طالبان پاکستان اور مولوی فضل اللہ جس کو مولانا ریڈیو بھی کہا جاتا تھا زیر اثر آ گئی تھی۔ اس جنگ کو 2013 کے بعد آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی جاری رکھا مگر 2013 کے الیکشن میں اس کی بھاری قیمت عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی نے اور کچھ ایم کیو ایم نے بھی ادا کی۔
اے این پی کے کئی سو کارکن اس کا نشانہ بنے کئی رہنمائوں نے خود یا ان کے بچوں نے اس کی قیمت ادا کی۔ ہم نے بشیر احمد بلور جیسے مخلص سیاستدان یا میاں افتخار حسین نے جواں سال بیٹے کو خود اسفند یار ولی پر خود کش حملہ ہوا، مگر ساتھ میں زرداری صاحب نے ایک غیر ضروری لڑائی ایم کیو ایم سے لے لی اور وہ بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ذریعہ ہی نہیں لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیز بلوچ کے ذریعہ جس سے شہر کراچی میں تقریباً سول وار والی صورتحال پیدا ہو گئی حالانکہ ماضی میں متحدہ کے عروج کے وقت بھی ان کا کوئی تنازعہ بلوچوں سے نہیں رہا جب پورا شہر ہڑتال کی وجہ سے بند ہوتا تھا تب بھی لیاری کھلاہوتا اور بند کرانے کی کوشش نہیں ہوتی۔
پھر 2010میں تو وہ واقعہ ہوا جس نے پاکستان کے حوالے سے بڑے سوالات کھڑے کر دیے یعنی القائدہ کے نمبر 1اور سربراہ اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں ایک امریکی خفیہ آپریشن میں مارے جانا۔ امریکی کمانڈوز آئے بھی آپریشن بھی کیا مارا بھی اور لے بھی گئے۔ بعد میں پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن میں اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ، ایس آئی سے بہت سے سخت سوالات بھی ہوئے ایسا موقع بھی آیا کہ وہ مستعفی ہونے کو تیار تھے۔ داخلی سکیورٹی کی ناکامیپر، مگر معاملہ ٹل گیا۔
2008سے 2013کے دوران جہاں یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہیں پاکستان کی ایک تیسری سیای جماعت کے طور پر پاکستان تحریک انصاف نے اچانک زور پکڑا جسے آج ان کے بہت سے نقاد ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ کہتے ہیں۔ ہماری سیاست میں برسا برس سے کوئی نا کوئی پروجیکٹ مارکیٹ میں لایا جاتا ہے کیونکہ ہمارے غیر سیاسی دوستوں کا شوق سیاست ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، مگر صرف یہ کہہ کرمسئلہ حل نہیں ہوتا۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے بطور ’’تیسرا آپشن‘‘ آنے کی ایک وجہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی مجموعی طور پر خراب گورننس رہی، دوسری وجہ بینظیر کی شہادت کے بعد پی پی پی پنجاب میں تقریباً ختم ہوگئی کیونکہ ان کے ورکرز نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے فارمولہ کو قبول نہیں کیا اور جب عمران نے شریفوں کو نشانہ بنایا اپنی تنقید کا تو پی پی پی کا ایک بڑا حصہ پی ٹی آئی میں چلا گیا۔ لحاظ اگر 2013 میں RTSکھڑا بھی رہتا مطلب ’’بیٹھتا نہیں‘‘ تب بھی نتائج پی پی پی کے حق میں نہیں نکلتے بلکہ پی ٹی آئی کو کچھ نشستیں اور مل جاتیں۔
بہرکیف 2011کے بعد پی ٹی آئی بڑی جماعت بن کر ابھری جس میں نوجوانوں اور مڈل کلاس خاندانوں کی بھی بڑی تعداد گئی کچھ عمران کی شخصیت سے متاثر تھے کچھ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سے خوش نہیں تھے، مگر اس سب کے باوجو مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں سیاسی گرفت مضبوط رہی اور حقیقت یہی ہے کہ 2013کا الیکشن وہی جیتے۔ پی ٹی آئی بڑی جماعت بن کر ابھری ،مگر شائد عمران کو اتنا آگے جانے کی ضرورت نہیں تھی جتنا وہ چلے گئے۔ 126 دن کا دھرنا، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ اور سب سے بڑی غلطی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا (جو غلطی 2022میں بھی دھرائی) ۔
اس تحریک کے دوران سیاست کے سالوں سے 12ویں کھلاڑی ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے حامیوں پر ماڈل ٹائون میں واقع منہاج القران کے ہیڈ کوارٹر کے باہر جو تصادم ہوا اور کئی لوگ بشمول ان کے کارکنوں کے مارے گئے پولیس کے ہاتھوں اس نے مسلم لیگ، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو مشکل میں ڈال دیا،کیونکہ ہماری سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل نہیں ورنہ ان کو مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود عمران کو کامیابی نامل سکی۔ پی پی پی نے ایک بڑا سیاسی فیصلہ اور روایتی اپوزیشن سے عمران کو کامیابی نامل سکی۔
پی پی پی نے ایک بڑا سیاسی فیصلہ اورروایتی اپوزیشن سےہٹ کر پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے رہناےکا فیصلہ کیا مگر یہی فیصلہ 2008 کے بعد جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے پر بھی کرنا چاہئے تھا کیونکہ پھر آپ کو گارنٹی کے لئے جنرل کیانی کی ضرورت نا پڑتی۔ یہ غلطی میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بھی ہوئی۔ اگر میاں صاحب راحیل شریف سے یہ کہنے کے بجائے کہ وہ عمران خان سے بات کریں خود عمران سے ملاقات کرتے تو زیادہ جمہوری رویہ ہوتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے وزیراعظم ہائوس میں میاں صاحب نے ٹی وی اینکرز اور پرنٹ نےکچھ صحافیوں کو بلا کر پوچھا آپ کے نزدیک حل کیا ہے۔
میں نے کہا میاں صاحب وزیراعظم ہائوس سے نکل کر عمران کے کنٹینر پر چلے جائیں راستہ بات چیت سے ہی نکلتا ہے۔ ویسے تو اگر آپ چار حلقے کھول دیتے یا ادھر دوبارہ ان حلقوں میں الیکشن کرا دیتے تو تحریک جنم ہی نا لیتی۔ آخر میں جوڈیشل کمیشن بنا اور اس کی رپورٹ کو خان کو تسلیم کرنا پڑا۔ اس دور میاں صاحب نے بلوچستان کے حوالے سے بھی بڑا سیاسی فیصلہ کیا اپنی پارٹی کی اکثریت کے باوجود ایک قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔
میاں صاحب کی ہمیشہ سے یہ رائے ہے کہ معیشت کی بہتری کے لئے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ضروری ہیں واجپائی سے لے کر مودی تک ان کی پوزیشن یہی رہی ہے اب اس پر دو رائے ہوسکتی ہیں مگر اس وقت اس میں سب سے بڑی روکاٹ خود بی جی پی سے زیادہ وزیراعظم نریندر مودی کی تنگ نظر اور انتہا پسند سیاست حائل ہے۔
میاں صاحب2014 کے بحران سے خوش اسلوبی سے باہر نکل آئے تھے اور عمران مشکل میں تھے۔ جوڈیشل کیشن کی رپورٹ کے بعد 2015میں بلدیاتی الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ کو کامیابی ملی، بشمول کنٹونمینٹ بورڈ کے۔ الیکشن میں پھر 2014 میں ’’پانامہ لیک‘‘ نے جہاں دنیا میں تہلکہ مچا دیا وہیں عمران خان کو ’’سلور لائن‘‘ مل گئی کیونکہ اس بڑے ’’آف شور کمپنی اسکینڈل‘‘ میں میاں صاحب کے بچوں کے نام بھی گئے۔ گو کے ان کا اپنا نام نہیں تھا، مگر بہرحال مسلم لیگ میں یہ معاملہ زیر بحث آیا تو بہت سے ساتھیوں کی رائے تھی کے پارلیمنٹ میں جائیں جبکہ کچھ نے مشورہ دیا کہ سپریم کورٹ جائیں۔
پاکستان کی لسٹ میں چار سو کے قریب ایسے لوگوں کے نام شامل تھے جن کی ’’اوف شور کمپنی‘‘ میں مگر اس میں سب سے اہم نام بہرحال میاں صاحب کے صاحبزادوں کا تھا ظاہر ہے خان صاحب کے لئے یہی کافی تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا میاں صاحب پہلے نا اہل ہوئے اور سزا یافتہ یوں2016 اور 2017 ان کے لئے ان کی سیاست کا مشکل ترین سال تھا۔ مریم نواز، کیپٹن صفدر غرض یہ کہ پورا خاندان مشکل میں آیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ خود ہی ٹرائل کورٹ بن گئی۔ JIT بیٹھا دی گئی، اس کی نگرانی کے لئے بھی ایک جج مقرر کردیا گیا۔ جب اعلیٰ عدلیہ جس کا بنیادی کام اپیل سننے کا ہے، ٹرائل کرے گی اور سزا سےپہلے ہی نا اہلی ہو جائے گی تو ٹرائل کورٹ تو صرف رسمی کارروائی ہی کرسکتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ میاں صاحب نے اس کارروائی کا کسی بھی مرحلے پر بائیکا ٹ کیوں نہیں کیا یا وہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں گئے۔
اب عمران خان کے لئے اسٹیج سیٹ تھا یا تیار تھا۔ بی بی اس دنیا میں نہیں اور میاں صاحب میدان میں نہیں ،رہ گئی بات زرداری صاحب کی تو وہ عوامی سیاست کے کھلاڑی کبھی بھی نہیں رہے۔ اس سب کے باوجود بھی 2018 کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف بغاوت کروائی گئی جس میں غیر سیاسی لوگوں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کا بھی ہاتھ بتایا جاتا ہے جس کا بہت گہراتعلق میاں صاحب کے 2015 کے کراچی آپریشن سے ہے جس میں ایک طرف ایم کیو ایم ٹارگیٹ ہوئی تو دوسری طرف زرداری صاحب کے قریب ترین دوستوں خاص طور پر ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری، جس پر میاں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’آج میاں صاحب نےمیری پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہے‘‘۔
یہ خلیج بڑھتی چلی گئی اور دونوں جماعتیں 90 کی دہائی میں چلی گئیں اور بظاہر راستہ عمران اور پی ٹی آئی کے لئے مزید ہموار ہوگیا۔ دوسری اہم بات جو ان کے حق میں گئی وہ کراچی کی سیاست تھی جہاں 22اگست 2016 میں متحدہ کے بانی الطاف حسین کے کراچی پریس کلب کے باہر پارٹی کے احتجاجی کیمپ سے خطاب کے دوران ’’پاکستان مخالف‘‘ نعرہ تھا۔ بس پھر کیا تھا پولیس اور رینجرز حرکت میں آئیں اور چند دنوں، ہفتوں میں متحدہ کے مزید ٹکڑے ہوگئے۔
سال 2018 عمران خان کا سال بنتا نظر آ رہا تھا میدان خالی تھا مگر اس سب کے باوجود ماسوائے ،کے پی کے جہاں ان کی جماعت نے مسلسل دوسری بار کامیابی کا ریکارڈ بنایا اور دو تہائی اکثریت لی، قومی اسمبلی کی نشستوں پر مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ مسلم لیگ (ن) تمام مشکلات کے باوجو پنجاب میں بڑی جماعت بناکر اُبھری۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی نشستیں بھی مبینہ طور پر کم کی گئیں اور یوں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ، جنوبی پنجاب محاذ، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا گیا تو حکومت قائم ہوسکی یعنی خان صاحب کی حکومت کا انحصار ’’اتحادیوں‘‘ پر تھا اور جو لوگ ان اتحادیوں کو ساتھ لائے تھے ان پر خان صاحب کو اعتماد تھا۔ یہ تھی وزیراعظم عمران کی ابتدا۔ اچھی بات یہ تھی کہ دو حکومتوں کے تسلسل کے بعد تیسری مسلسل جمہوری حکومت قائم ہوئی۔
سال2018میں عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کے ارد گرد جو لوگ نمایا ںنظر آئے وہ جہانگیر ترین، عون چوہدری ، اسد عمر، عارف علوی، عمران اسمعیل، علی زیدی، شیریں مزاری، عندلیب عباس، ڈاکٹر یاسمین راشد، مراد سعید خان، پرویز خٹک، علی محمود خان، شاہ محمود قریشی شامل تھے۔ خان صاحب کا سب سے حیران کن فیصلہ پنجاب اور کے پی کے کا تھا۔ پنجاب میں الیکشن سے چند دن پہلے ہی شامل ہوئے ایک غیر معروف سیاست دان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا اور ان کو چوہدری پرویز الٰہی پر فوقیت دی۔
اس حیران کن فیصلےکا سوائے عمران خان کوئی پی ٹی آئی کا رہنما دفاع نہیں کرسکا۔ یہاں تک کے خود خان صاحب کو یہیں تک لانے والے بھی اس فیصلے سے حیران تھے خیر ایسے سارے لوگ چند ایک کو چھوڑ کر 9مئی 2023 کے واقعات کے بعد ساتھ چھوڑ گئے جن میں بزدار صاحب بھی شامل تھے۔ اسی طرح خان صاحب نے الیکشن سے پہلے جس انداز میں اسد عمر کی تعریف کی تھی اور پھر انہیں وزیر خزانہ بھی بنایا مگر چھ ماہ بعد تبدیل کردیا۔
عمران کے پاس وقت بھی تھا اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی مکمل سپورٹ تھی اور انہوں نے بہت جلد ہی بہت سارے محاذ کھول ڈالے جس میں آخری لڑائی یا ’’تنازع‘‘ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہوا۔ خان صاحب کے دور میں تعمیراتی شعبہ کو بہت فائدہ ہوا جس سے کاروباری طبقہ خوش تھا۔ البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے کے پی میں پرویز خٹک کو کیوں تبدیل کیا کیونکہ دو تہائی اکثریت میں آنے کے بعد یہ فیصلہ حیران کن تھا کہ محمو د خان کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔
شائد بزدار کی جگہ اگر پرویز الٰہی ہوتے اور محمود خان کی جگہ خٹک تو آج معاملات مختلف ہوتے۔ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ابھی حکومت کو ایک ڈیڑھ سال ہی گذرا ہوگا کہ ’’کرونا‘‘ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی اور اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات ترقی پذیر اور غریب ممالک پرہوئے۔ جو صورتحال تھی اس کا مقابلہ ’’اتحاد‘‘ سے ہی ممکن تھا۔ اس وقت دو نکتہ نظر تھے اور دونوں میں ہی وزن تھا ’’مکمل لاک ڈائون‘‘ کچھ عرصہ کے لئے دوسرا جزوی لاک ڈائون۔ اس میں سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ اسد عمر کی سربرائی میں قومی سطح پر ایک ادارہ بنا دیا گیا جس نے انتہائی بہتر انداز میں کام کیا۔ ہماری یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ ہماری اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے ہمارے یہاں جانی نقصان اتنا نہیں ہوا جتنا دنیا کے کئی ممالک میں ہوا۔
خان صاحب نے نیب کو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کے بجائے شہزاد اکبر جیسے لوگوں پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا اور شریفوں اور زرداری سے لڑائی میں کچھ زیادہ آگے چلے گئے۔ پولیس کا جو بہتر نظام کے پی میں آئی جی ، ناصر درانی صاحب نے کھڑا کیا تھا 2013 میں وہ خان صاحب پنجاب میں نا لا سکے۔ بین الاقوامی تعلقات میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہوگئیں۔ میاں صاحب کی طرح خان صاحب بھی بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے تھے حلف برداری میں اپنے زمانہ کرکٹ کے سپر اسٹارز سنیل گواسکر اور کپیل دیو کو بھی بلایا تھا ،مگر دونوں نے اپنی مصروفیت کے باعث معذرت کی لیکن مبارک باد کا پیغام ضرور بھیجا۔ کرتارپور راہداری بھی اسی دور میں مکمل ہوئی۔
سیاسی محاذ پر کشیدگی، سفارتی محاذ پر مشکلات خاص طور پر افغانستان کی بدلتی صورتحال میں اور معاشی طور پر کرونا نے خان صاحب کی حکومت کو آہستہ آہسہ غیر مقبول بنا دیا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا بھی برا حال رہا۔ پی ڈی ایم کوئی موثر تحریک نا چلا سکی۔ اسی دوران ایک اور دل چسپ صورتحال نے جنم لیا ،جس کے نتیجے میں میاں صاحب جو اس وقت جیل میں تھے باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا بعد میں عمران نے اسے جھوٹ قرار دیا اور تمام میڈیکل رپورٹس مسترد کیں مگر ان تمام رپورٹس کو خود ان کی ٹیم نے درست مانا مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
دسمبر2020میں اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات زیادہ کھل کر سامنے آگئے۔ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام اس بات پر متفق تھے کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر اسلام آباد مارچ کیا جائے جبکہ پی پی پی کا خیال تھا کہ پہلے اسلام آباد تک مارچ کیا جائے پھر وہاں جاکر صورتحال دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ اس اجلاس میں جو مسلم لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری کی رہائش گاہ پر ہوا میاں صاحب آن لائن شریک تھے جبکہ زرداری صاحب کراچی سے ویڈیو لنک پر تھے مولانا بھی موجود تھے شاہد خاقان بھی اور مریم نواز بھی، تلخی اتنی بڑھی کہ زرداری صاحب نے میاں صاحب سے کہا آپ اسلام آباد مارچ کو لیڈ کریں پاکستان واپس آئیں اور یوں پی پی پی۔ پی ڈی ایم سے الگ ہوگئی۔ یہ عمران خان کے لئے اچھی خبر تھی۔
سال 2021 اور 2022میں خان صاحب کو پنجاب میں خود پارٹی کے اندر اور اپنے مضبوط اتحادی مسلم لیگ (ق) سے مخالفت کا سامنا تھا۔ خان صاحب کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے حکومت بناتے وقت مونس الٰہی کو لینے سے انکار کردیا یہ کہہ کر اس کی شکل پسند نہیں وہ حکومت بنانے کے بعد بھی کوئی ڈیڑھ سال تو چوہدریوں سے ملے ہی نہیں۔
دوسری طرف بزدار کی کرپشن کی کہانیاں اور پارٹی کی اندر کی مخالفت نے معاملات خراب کرنے شروع کردیئے یہاں تک کے خود جنرل باجوہ کو یہ مشورہ دینا پڑا کے اسے (بذدار) کو تبدیل کردیں۔ اس سب کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا گراف نیچے آنا شروع ہوگیا بیشتر ضمنی الیکشن وہ ہار رہے تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی اور زرداری صاحب کے درمیان معاملات تقریباً طے پاگئے تھے جس پر خان صاحب ناراض ہوئے اور نیب کے ذریعے کیس کھول دیا بعد میں چیزیں بہتر ہوتیں تو کیس بند ہوگیا۔
اکتوبر 2022 میں آرمی چیف جنرل باجوہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو تبدیل کرنا چاہتے تھے جبکہ عمران ان کے ٹرانسفر کے اس وقت خلاف تھے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ ابتدا تھی یا شروعات تھی اختلاف کی جس کی انتہا اپریل 2022 میں عدم اعتماد تحریک اور خود خان صاحب کے اتحادیوں کی ان سے علیحدگی تحریک 8مارچ کو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی اور 10اپریل کو وزیراعظم عمران خان ایک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیراعظم نہیں رہے۔ یہ ان کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان تھا۔ پی ڈی ایم اور پی پی پی کو خوف تھا کہ اگر وہ یہ ناکرتے تو خان صاحب کے ارادے خطرناک تھے وہ جنرل فیض کو آرمی چیف بناکر تمام اپوزیشن کا وہی حشر کرنے والے تھے جو ترکی میں ہوا۔ مگر کیا سیاست ’’خوف‘‘ کا نام ہے۔
اول تو ایسا کرنا آسان نہ تھا اور اگر ہوتا بھی تو ماضی میں بھی اس طرح کے اقدامات کے خلاف آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ دوئم ان جماعتوں سے دوسری بڑی سیاسی غلطی عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن کرانا۔ اگر ایسا کرتے تو زیادہ مضبوط اخلاقی پوزیشن میں ہوتے۔ تیسری غلطی شہباز شریف کا انتخاب بحیثیت وزیراعظم۔ عام طور پر ان کی پنجاب میں کارکردگی کے بعد وہ میاں صاحب کے لئے ایک ٹرم کارڈ تھے اور یہ ایک عبوری دور تھا،ا س کے لئے کوئی بھی دوسرا سینئر لیڈر ہوسکتا تھا۔
پی ڈی ایم کے ان 16ماہ میں عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوا اور وہ جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) جو عمران کے دور میں مسلسل ضمنی الیکشن جیت رہی تھی اس کے ہارنے کا سفر شروع ہوگیا اور جو پی ٹی آئی یاد رہی تھی وہ دوبارہ مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئی، مگر پھر کیا ہوا اور خان صاحب بڑی سیاسی غلطیاں کہاں کر گئے۔ عام طور پر حکومتوں کی ناکامیاں اپوزیشن کی کامیابی تصور ہوتی ہے۔ خان صاحب کی پہلی غلطی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا تھی۔
یہ غلطی انہوں نے 2014 میں بھی کی تھی اور پھر واپس جانا پڑا۔ اگر یہ نظام کے خلاف بغاوت تھی تو پھر یہ اقدام پوری تیاری سے سب سے آخر میں ہوتا۔ دوسری غلطی بنا کوئی تیاری اسلام آباد کی طرف ’’لانگ مارچ‘‘ اور پھر خود ہی اعتراف کرنا کہ تیاری نہیں تھی۔ دوسرے لانگ مارچ میں بھی یہی غلطی کی۔ اعلان تھا غیر معینہ مدت کے لئے دھرنا ،جو ایک روز میں ہی ختم ہوگیا۔ تیسری اور شائد سب سے بڑی سیاسی غلطی پنجاب اور کے پی جہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں ان کا خود ہی خاتمہ کردیا۔
سال 2023الیکشن کا سال تھا پی ٹی آئی کا گراف اوپر تھا پنجاب اور کے پی میں اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومتیں تھیں۔ شہباز حکومت سے حکومت چل نہیں پارہی تھی مہنگائی نے عام آدمی کی چیخیں نکال دی تھیں، ایسے میں خان صاحب کو صرف الیکشن کی تیاری کرنی چاہئیے تھی ایکشن کی نہیں۔ صرف اگست 2023 تک بڑے آرام و سکون سے آئندہ انتخابات کا انتظار کرتے پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے اور میاں صاحب ملک سے باہر۔ کے پی میں گو کہ محمود خان کی کارکردگی اچھی نہیں رہی پرویز خٹک کے مقابلے میں مگر اس بات کا قوی امکان تھا کہ تیسری بار بھی پی ٹی آئی جیت کر اپنا ہی ریکارڈ توڑتی۔
کراچی میں بھی 2018 میں جو نشستیں کسی کے ’’فیض‘‘ میں ملی تھیں وہ اس بار بن فیض بھی مل جاتیں۔ بس صرف پی ٹی آئی خود ان تمام عوامل پر سنجیدگی سے غور کرے تو نتیجہ سامنے نظر آئے گا۔ جو کھیل تماشہ شہباز شریف صاحب نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو ’’چند دن‘‘ کے لئے وزیراعلیٰ بناکر کیا وہ بھی ناکام رہا۔
غرض یہ کہ سال 2023 جس کو تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانا چاہئے تھا وہ آئین کی مسلسل خلاف ورزی کرکے منایا گیا۔ پی ٹی آئی کی بڑی سیاسی غلطیاں اپنی جگہ مگر اسمبلی اگرکوئی حکومت آئینی طور پر ختم کردے یا توڑ دے تو الیکشن تو بہرحال 90روز میں ہونے ہیں، اپنے وقت پر توڑی جائے تو 60روز میں پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے توڑنے سے بے شک ایک سوال یہ ابھرا کے جب پورے ملک میں عام انتخابات ہوں گے تو ان دو صوبوں میں نگراں حکومتیں نہیں ہوں گی اور ناہی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں گے، جو بھی صوبائی حکومت ہوگی وہی قومی اسمبلی کی ان نشستوں کے انتخاباتات کرائے گی جو اس کے صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی وہی نگراں ہوں گے۔ لحاظہ یہ ابہام تو ہوتا اور کچھ ایسے ہی سوالات جنم لیتے جیسا کے آج پی ٹی آئی مطالبہ کررہی ہے کہ انتظامیہ جانبدار ہوتی ہے الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں ہوں۔ اس وقت کیا ہوتا۔
مگر یہ سیاسی سوالات ہیں آئینی معاملات تو واضح کہتے ہیں الیکشن کے بارے میں 90روز اور 60روز۔ نا الیکشن 90روز میں ہوئے نا 60روز میں ۔پی ٹی آئی کو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی الیکشن لڑنے کے اہل ہوتے ہیں، انتخابی نشان، ’’بلا‘‘ موجود ہوتا ہے تو اسے الیکشن میں کامیابی مل سکتی ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہو رہا ۔اس کی ایک بڑی وجہ 9 مئی کا خود کش حملہ ہے جو پی ٹی آئی نے خود اپنے اوپر کر ڈالا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس واقعہ کی گہرائی تک جانا بہت ضروری ہے اس سے پہلے خان صاحب پر جو حملہ ہوا تھا اس میں انہوں نے برائے راست ایک جنرل کا نام لے دیا تھا حالانکہ اس وقت وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی تھے انہوں نے FIR میں جنرل کا نام لکھوانے سے انکار کردیا تھا۔ 9مئی ہماری سیاسی تاریخ کا بہت منفر واقعہ بظاہر ہے۔
ایسا نہیں ممکن کہ اس میں محض پی ٹی آئی شامل ہو کیونکہ جس منظم انداز میں قومی سلامتی کے اداروں پر حملے ہوئے اس نے جنرل مشرف کے دور میں GHQ پر حملے کی یاد تازہ کردی تھی۔ اس میں جو لوگ بھی ملوث ہیں انہیں آپ گرفتا کرکے سزا دیں مگر کیا اس کی سزا پوری جماعت کو دینا دانشمندی ہے۔ اس وقت یہی نظر آرہا ہے ایک ایک پی ٹی آئی کے لیڈر پر کئی کئی مقدمات، ایک میں ضمانت دوسرے میں گرفتاری اور کچھ نہیں تو ایم پی او کے تحت نظر بند۔ ایسا ہی کچھ 22اگست، 2014میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہوا تھا وہ مقدمہ آج بھی لٹکا ہوا ہے جب جی چاہتا ہے تاریخ پڑ جاتی ہے اس میں تو بانی متحدہ کی تقریر پر تالی بجانے والوں پربھی مقدمہ قائم ہوا۔
آئینی طور پر یہ ضروری تھا کہ الیکشن نومبر میں ہوتے اور ملتوی کرنے کا جو جواز پیش کیا گیا وہ انتہائی کمزور تھا یعنی مالی مشکلات جو رقم فروری کے الیکشن کے لئے دستیاب ہے وہ نومبر میں کیوں نہیں تھی۔ اب میاں نواز شریف جو اپنے بھائی کی حکومت میں نا اپائے اب تمام مقدمات س ’’باعزت بری‘‘ ہوگئے ہیں مگر لگتا ہے انہیں اب بھی انتظار ہے کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کے ساتھ نا ہو تو الیکشن آسان ہو جائے گا۔ پچھلے دو سالوں کا جائزہ لیں تو ان دونوں بڑی جماعتوں نے خود اپنے اوپر خود کش حملے کئے ہیں جس سے دوسرے فریق کو فائدہ ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔
سال 2023پچھلے 75سال کا تسلسل ہی نظر آتا ہے یعنی کوئی بھی سبق سیکھتا وہی پرانی غلطیاں دھرا رہے ہیں اور جمہوری طور پر اپنی ہی’’ اسپیس‘‘ سیاستدان غیر سیاسی قوتوں کو دیئے جارہے ہیں۔ آج بھی سب ’’لاڈلے‘‘ بننے کو تیار ہیں بس یہ بنانے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس کے ہاتھ میں ’’کھلونا‘‘ دیتا ہے کیونکہ ہم نے تو پورے ملک کو ہی ایک کھلونا بنا دیا ہے جہاں آئین کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہماری سیاست گیٹ نمبر 4 سے نکلتی ہے اور کورٹ نمبر 1 میں آ کر پھنس جاتی ہے۔ کسی کو تا حیات نا اہل کیا جاتا ہے تو کسی کو پانچ سال کے لئے کبھی نا اہل اچانک سے اہل کردیئے جاتے ہیں اور کسی پر پھانسی یا عمر قید کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے۔ آئین سے کھلواڑ آئین بنانے والے بھی کرتے ہیں اور اس کی اپنے مطلب سے تشریح کرنے والے بھی۔ ایسے ماحول میں 8فروری 2024ا الیکشن ہو بھی گیا تو کیا، کوئی بظاہر منتخب ہو بھی گیاتو کیا جمہوریت اور سیاست بہرحال ’’گیٹ او کورٹ‘‘ کے درمیان ہی رہے گی۔ دیکھتے ہیں اس بار کون ’’سلیکٹ‘‘ ہوتا ہے اور کون ’’نا اہل‘‘؎
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
حقیت یہی ہے کہ1973ء کے آئین کے پورے پچاس سال بعد بھی ہم آئین کی حکمرانی قائم ناکرسکے اور آج بھی یہ سرزمین آئین کے ہوتے ہوئے بھی بے آئین نظر آتی ہے۔
……٭٭……٭٭……