مفروضوں کی دنیا سے نکل کر آنکھوں دیکھا حال ہمیشہ درست حقائق کی غمازی کرتا ہے ۔ چین کے علاقے سنکیانگ (XINJIANG)میں ایغور (UYGHUR) مسلمانوں کی مذہبی آزادی ، انسانی حقوق اور معاشی ترقی کے حوالے سے مغربی دنیا کی سوچ صرف مفروضوں پر مبنی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی سوچ کے زیر اثر مغربی ممالک کی تنظیمیں جو سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کی زندگیوں کے حوالے سے تشویش رکھتی ہیں انہوں نے عملی طور پر وہاں جا کر نہ حقائق معلوم کئے ، مقامی لوگوں سے بات چیت کی اورنہ ہی آزادانہ ذرائع سے معلومات اکٹھی کیں ۔ چند دن پہلے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ چین کے علاقے سنکیانگ کے دو شہر وںکاشغراور ارومچی جانے کا اتفاق ہوا ۔ مغربی پروپیگنڈے سے متاثر اور لا علمی کے باعث زیادہ تر وفد کے ارکان شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ ایغور مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ، ان کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںبھی ہو رہی ہیںاور جبراًمزدوریاں بھی کرائی جارہی ہیں۔ مگر کچھ دن گزارنے کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں ۔ کاشغر میں 9ہزار کے قریب مساجد ہیں ، پروپیگنڈا کے برعکس مساجد کو منہدم کرنے کی بجائے ان کی از سر نو تزئین وآرائش کی گئی ہے ۔ چینی قوانین کے مطابق کسی پر داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کی کوئی پابندی نہیں دیکھی گئی ۔ پاکستانی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے صدر کے طور پر وفد کے ہمراہ میں نے نہ تو کوئی پولیس چیک پوسٹ دیکھی اور نہ ایسے خفیہ کیمرے دیکھے جس کا ذکر اکثر مغربی میڈیا کرتا رہتا ہے ۔ایغور مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں اور پتہ چلا کہ مغربی پروپیگنڈا گمراہ کن ہے ۔ ایک مقامی ایغور نے بتایا کہ کاشغر کی مسجد ایتی گر(ETIGAR)میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں ، میرے ساتھ دیگر مسلمان بھی نماز کے علاوہ دیگر مذہبی فرائض اور رسوما ت بغیر کسی خوف کے آزادانہ ادا کرتے ہیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہم اکثر یہ کہانیاں سنتے رہتے ہیں کہ ہمارے اوپر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے یا چین کی حکومت نے ایغور مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لی ہے ، ان کی سیاسی نشوونما میں چینی سوشل ازم کو زبردستی شامل کیا جارہا ہے ، حالانکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہم مذہبی آزادی کے علاوہ معاشی اور معاشرتی ترقی کر رہے ہیں ،ہمارے لئے روزگار سمیت کاروبار کے وسیع مواقع موجود ہیں ، ہم کسی قسم کی محرومی کا شکار نہیںہیں ، ہمارے پاس وہ تمام حقوق موجود ہیں جو کہ ایک چینی شہری کو حاصل ہیں ۔ ایتی گر کی جامع مسجد کے امام جناب محمد صاحب نے کہا کہ وہ آٹھ سال سے اس مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، میں نے کبھی ایغور مسلمانوںکو مذہبی یا معاشی اذیت میںنہیں دیکھا ۔ انہوں نے کہاکہ امریکی اور مغربی پروپیگنڈے کا توڑ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کاشغراور ارومچی کے دیگر علاقوں کا دورہ کریں اور حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ مزید براں سنکیانگ ادارہ اسلامی جانے کا اتفاق ہوا وہاںکے صدر مفتی شیخ عبد الرقیب نے بتایا کہ سنکیانگ ادارہ اسلامی میں ہزار کے قریب مسلم طالبعلم قرآن، حدیث او فقہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ طالبعلموںکو چین کے قوانین اور تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ، اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد طالبعلم یا تو سکالر کی خدمات سر انجام دیتے ہیںیا کسی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ چین کے علاقے سنکیانگ میں تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لئے مکمل آزادی ہے ۔ مسلمان، عیسائی، بدھ کے پیروکاروںسمیت دیگر مذاہب کے ماننے والے چین کے قوانین کے تحت اپنی زندگیاں خوش و خرم گزار رہے ہیں ۔ چین کا قانون مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندی، دہشتگردی اور دیگر جرائم کی بیخ کنی کرتا ہے ۔ چین کے قانون کے مطابق کسی فرد یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی پر اپنی سوچ یا مذہب کو زبردستی لاگو کرے ۔ چین کی اسلامک ایسوسی ایشن ہر سال مسلمانوںکے لئے حج کے انتظامات کرتی ہے ، عازمین حجاج کے لئے علاج معالجہ،سفر اور دیگر سہولیات کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔ عیدین سمیت رمصان پورے مذہبی جوش و خروش منایا جاتا ہے ، ریسٹورنٹس میں حلال کھانوں کو یقینی بنایا جاتا ہے ، کووڈ 19کے دنوں میں مذہبی عبادات ، روزے اور دیگر رسومات پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ۔ سنکیانگ میں قرآن کی ترویج سمیت صحیح بخاری کی تدوین اشاعت اور اس کے ترجمے مقامی زبانوںمیں بھی شائع کئے جاتے ہیں۔ چینی اسلامک ایسوسی ایشن مقامی ایغور زبان میں مذہبی مواد کی اشاعت کے لئے ویب سائٹ کو بھی چلاتی ہے ۔تمام مساجد میں پانی ،بجلی، گیس اور مساجد تک پہنچنے کے لئے سڑکوں کی سہولیات میسر ہیں۔ مساجد کمپیوٹر ،ریڈیو ،ٹیلی وژن، ایل ای ڈی اسکرینز، ائیر کنڈیشنڈ، واٹر ڈسپنسر، علاج اور آگ بجھانے والے آلات سمیت دیگر چیزوں سے آراستہ ہیں۔ باقاعدہ وضوخانے موجود ہیں جہاں سردیوں میں گرم پانی میسر ہوتا ہے۔ اسلامی اسکالرز کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتاہے ۔ چینی حکومت نے سنکیانگ اسلامی انسٹیٹیوٹ کے نئے کیمپسز کیلئے 200ملین چینی کرنسی فراہم کی ہے۔ سنکیانگ اسلامی انسٹیٹیوٹ 2017ء میں قائم ہوا تھا اور اس کی شاخیں 8مختلف علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔