• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا اٹارنی جنرل حلفیہ بیان دینگے کہ آج سے ریاست کسی کو لاپتہ نہیں کریگی؟ چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ---فائل فوٹو
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ---فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جبری گمشدگی اور لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت جاری ہے جس کے دوران فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

اعتراز احسن کےوکیل شعیب شاہین اور آمنہ مسعود جنجوعہ روسٹرم پر موجود ہیں۔

دورانِ سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ گزشتہ روز پہنچ نہ سکنے پر معذرت خواہ ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی نے کہاکہ آپ کے کیس میں بہت گہرائی اور تفصیل سے دلائل ہو چکے ہیں۔

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ

دورانِ سماعت شعیب شاہین نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا فیصلے میں لکھ رکھا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٓ نے شعیب شاہین کو ہدایت کی کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا پیرا گراف 53 پڑھیں، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کا وہ حصہ بتائیں جو بلوچ دھرنے کے شرکاء پر لاگو ہوتا ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قرار دیا گیا کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، فیصلے میں ہے کہ جو شہری راستے روکے یا تشدد کرے ان کے خلاف کارروائی ہو۔

’’حیران ہوں فیض آباد دھرنا فیصلے کا حوالہ دیا جا رہا ہے‘‘

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے کہا کہ حیران ہوں کہ آپ فیض آباد دھرنا فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتا رہا ہوں، اگر فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے، نہ ہمیں عدالت آنا پڑتا۔

شعیب شاہین نے صحافی مطیع اللّٰہ جان کیس کا حوالہ بھی دیا

شعیب شاہین نے صحافی مطیع اللّٰہ جان کیس کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل تو آپ مطیع اللّٰہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے، آج ان کا حوالہ دے رہے ہیں، اُس وقت جس کی حکومت تھی کیا اس نے ذمے داری لی؟

شعیب شاہین نے کہا کہ اُس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی مطیع اللّٰہ پہلے دن رہا ہو گئے، ورنہ عمران ریاض 4 ماہ لاپتہ رہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا تھا، یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے آپ کی، مطیع اللّٰہ جان واقعے کی ویڈیو ریکارڈ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں رہا کرنا پڑا، مطیع اللّٰہ جان کیس ایک ریکارڈڈ دستاویزی کیس تھا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض والے واقعے کی بھی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل شعیب شاہین سے کہا کہ رک جائیں مجھے اب بات کرنے دیں، اگر اُس وقت آپ لوگ سامنا کرتے تو آج والے واقعات نہ ہوتے، اگر مطیع اللّٰہ جان کی رہائی میں آپ کی کوئی مداخلت تھی تو ریکارڈ پر لائیں۔

عمران ریاض کا پیغام ہے سیکیورٹی ملے تو سب بتانے کو تیار ہیں: شعیب شاہین

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض کی کل مجھے کال آئی، عمران ریاض کا پیغام ہے کہ اگر عدالت انہیں سیکیورٹی دے تو وہ آ کر سب بتانے کو تیار ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پھر اس فورم کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں، ایک واقعہ ابصار عالم کا بھی ہوا تھا، ہم نے کہا کہ میڈیا پر بات کرنے کی بجائے عدالت آ کر بولیں، اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا، ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی، عدالت میں آ کر بات کی۔

شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ تیار ہیں، عدالت پروٹیکشن دے۔

عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم کسی کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟ عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا کیس اور الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کے لیے کیا بات کریں گے، پریس کانفرنس کر کے بتا کیوں نہیں دیتے کہ کس نے اٹھایا تھا؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلا لیا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر 2005ء میں جبری گمشدہ ہوئے تھے، اُس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اُس وقت کس کی حکومت تھی؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ اُس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟

کیا اٹارنی جنرل حکومت کی طرف کہہ سکتے ہیں کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائیگا؟ چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل! کیا آپ حکومت کی طرف کہہ سکتے ہیں کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے سوال کیا کہ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہرکو اٹھایا ہو گا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013ء میں مردہ قرار دے دیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کے لیے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ 2007ء میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کس دور میں سب سے زیادہ لوگ لاپتہ ہوئے؟

مشرف دور میں لاپتہ افراد کی شرح سب سے زیادہ تھی: آمنہ مسعود جنجوعہ

آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ مشرف دور میں لاپتہ افراد کی شرح سب سے زیادہ تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا اب بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ جی موجودہ دور میں بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے افراد لاپتہ ہوئے وہ پرانا مسئلہ تھا تو ہم آج تو لوگوں کو لاپتہ ہونے سے روک سکتے ہیں۔

کوئی تو ریاست سے کہے کہ لاپتہ کرنے کی پالیسی چھوڑ دے: آمنہ مسعود جنجوعہ

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ کوئی تو ریاست سے کہے کہ لاپتہ کرنے کی پالیسی چھوڑ دے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کون سے وزارت ذمے دار ہو گی جس سے جواب مانگیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارتِ داخلہ متعلقہ وزارت ہو سکتی ہے۔

’’کیا اٹارنی جنرل حلفیہ بیان دینگے کہ آج سے ریاست کسی کو لاپتہ نہیں کریگی؟‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کا الزام مشرف پر ہے تو متعلقہ وزارت وزارتِ دفاع بنتی ہے، اٹارنی جنرل کیا آپ حلفیہ بیان دیں گے کہ آج سے ریاست کسی کو لاپتہ نہیں کرے گی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں بیان دینے کو تیار ہوں کیونکہ قانون یہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ بھاری ذمے داری ہو گی، اگر آپ کے بیان کے بعد کل کوئی لا پتہ ہوا تو اس کے نتائج ہوں گے۔

6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے شمالی وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 حجام قتل کر دیے گئے، لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے ہیں، آخرت میں تو جواب دینا ہو گا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے، عدالت کا کام نہیں، حکومت کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلے۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کمیشن کے کام اور کارکردگی سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کون ہیں؟ ان کی عمر کتنی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، ان کی عمر 77سال ہو گی۔

اس موقع پر رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سےکہا کہ کیا آپ صرف تنخواہ ہی لے رہے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کتنی مرتبہ کمیشن کا اجلاس ہوتا ہے؟ کتنی ریکوری ہوئی ہے؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ میرے شوہر اور فیصل فراز سے متعلق معاملہ دیکھے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کسی سیکشن افسر کا بیان نہیں چاہیے، ہمیں حکومتِ پاکستان تحریر دے کہ مزید کسی کو غیر قانونی لا پتہ نہیں کیا جائے گا، اس ملک کو اپنوں نے ہی فریکچر کیا ہے، ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہو گا۔

اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور ریٹائرڈ جج کو کوئی سیریئس نہیں لیتا، لاپتہ افراد کمیشن میں حاضر سروس جج کو ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سے سوالات کیے کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن کیا کرتا ہے؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آئی ٹی بناتا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گئے، ہم ان سے مطمئن نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب! آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟

اعتزازاحسن نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمئن نہیں ہوں۔

’’یہاں اعتزاز احسن سمیت کوئی بھی لاپتہ افراد کمیشن سے مطمئن نہیں‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوئی بھی لاپتہ افراد کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔

سماعت 9 جنوری تک ملتوی

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید