• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کا انقلاب ثور مئی 1978ء میں برپا ہوا۔ انقلاب فوج کےاُن افسروں نے برپا کیا تھا جو افغانستان کی سوشلسٹ پارٹی کے خفیہ ممبر تھے۔ سوشلسٹ پارٹی روس نواز تھی ۔ امریکہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اس انقلاب کی بین الاقوامی سطح پر علانیہ مخالفت کا اعلا ن کیا تھا۔ سوئے اتفاق سے اس وقت پاکستان پر جنرل ضیاالحق کا پرچم لہرا رہا تھا۔ جنرل ضیا کو اس دور میں جتنی امریکی سرپرستی کی ضرورت تھی اس سے کہیں زیادہ اب امریکہ کو جنرل کی ضرورت پیش آگئی تھی۔سوشلسٹ پارٹی کے دو دھڑے تھے ، ایک دھڑا ’’پرچم‘‘ کے نام سے اپنا ماہوار میگزین نکالتا تھا ،دوسرے دھڑے کے میگزین کا نام ’’خلق‘‘ تھا۔ لوگ اس دھڑے کو ’’خلقی‘‘ کہتےتھے اور پہلا دھڑا ’’پرچمی‘‘ کہلاتا تھا۔ امریکہ نے جو بیانیہ جنرل ضیا الحق کو سنایا وہ کچھ یوں تھا ۔ افغانستان تو پہلے دن سے روس کے کیمپ میں تھا، فوج کی ٹریننگ سے لے کر اسلحہ تک سب کچھ روس سے آتا تھا تو پھر روس نے اپنے ایک اٹوٹ اتحادی کا یہ حشر کیوں کر دیا؟ افغانستان میں انقلاب لانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟

دراصل روس کے سارے سمندر سال میں تین ماہ تک جہاز رانی کے قابل نہیں رہتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سردیوں میں برف باری کے باعث پانی جم جاتا ہے جس کےباعث جہاز کے انجن کےپنکھے ٹوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان کے سمندروں میں سال بھر پانی رواں دواں رہتا ہے چنانچہ افغانستان روس کا پہلا قدم ہے اور پاکستان اگلا قدم ہوگا چنانچہ گرم پانیوں تک رسائی اس کا اصل مدعا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کرکے مسٹر بھٹو کوقید کررکھا تھا۔ اس نے مسٹربھٹو کے خلاف قتل کا ایک بوگس سا مقدمہ بنا رکھا تھا چنانچہ وہ گرم پانیوں کی تھیوری پر فوراً ایمان لے آیا۔ شاید جنرل ضیا نے یہ سوچا ہو کہ مسٹر بھٹو کو ٹھکانے لگانے کا یہ بہترین وقت ہوگا۔ جنرل ضیا نے جنرل حمید گل کو مجاہدین کا انچارج لگایا۔ اس کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ساری انقلاب دشمن افغان پارٹیوں کو ایک تنظیم میں ڈھال دے۔ جنرل حمید گل نےسات افغان گروپس ( گل بدین حکمت یار ) کے توسط سے ڈھونڈے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مشترکہ پلیٹ فارم بنانے پر رضا مند نہ ہوا۔ ان سب نے بالآخر اپنا اپنا علاقہ طے کرلیا کہ فلاں علاقے میں میری اکثریت ہے میں وہاں ’’جہاد‘‘ کروں گا۔ پشاور میں ان سب کو ہیڈ کوارٹر مل گئے۔ وہ مہاجرین میں سے بھی جوان آدمیوں کو اپنے اپنے گروپ میں بھرتی کرلیتے مگر کوئی آپس میں لڑتا بھڑتاتو وہ اسے جیل میں بند کروا دیتے۔ گویا ان کی اپنی اپنی حکمرانی تھی۔

کابل کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی میں مجھے مرتضیٰ بھٹو نے ڈھائی سال تک قید کروایا تھا۔ یہاں مجھے کئی ایسے قیدی ملے جنہیں کسی مقدمے کے بغیر اپنے گروپ لیڈر نے پاکستان میں جیل میں قید کروایا تھا۔ ان میں یہ خرابی عام تھی کہ وہ جیلر کے حکم پر اپنے قیدی ساتھیوں کی جاسوسی کرتے تھے۔ ملتان کا رہنے والا پچیس چھبیس سالہ ایک جہادی لڑکا ایک مجاہدین گروپ میں بھرتی ہو کر افغانستان پہنچ گیا۔ دو ساتھیوں سمیت ،افغان فوج نے گرفتار کرلیا۔ ان تینوں پر فوج کے سپاہی قتل کرنے کا الزام تھا۔ وہ تحقیقات کیلئے جیل میں بھیج دیئے گئے۔ افغانوں نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا انہیں چند روز بعد پھانسی لگ گئی مگر پاکستانی نے گونگا بہرہ ہونے کا ڈرامہ رچالیا۔ افغان جیل خانوںمیں قیدیوں کوبھیڑ بکریوں کی مانند کمروں میں ٹھونس دیا جاتا تھا۔ ان کے کمرےبھی کسی روزنامچے کے محتاج نہ تھے۔ جہاں آدمی کم ہوتے تو ساتھ والے کمرے سے نکال لاتے۔ یوں ان کے کمرے بدلتے رہتے۔ جیل میں پھانسی کا رجسٹر موجود ہوتا تھا جس کی پھانسی کی تاریخ آ جاتی تو پہرے دار کمروں کے باہر اس کا نام لے کر آواز دیتے ،وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ۔یوں تالا کھول کر اس کو جیلر کے پاس لے جاتے جو اسے پھانسی والے عملے کے حوالے کردیتا۔چھ مہینے وہ پاکستانی لڑکاگونگا اور بہرہ بنا رہا۔ پھر جو اس کی سختی آئی اس نے ایک قیدی سے دوستی کرلی، چند روز بعد اس نے اپنے دوست کو اصل راز بتا دیا۔ اس کے دوست نے فوراً جیلر کو ساری داستان کہہ سنائی، وہ پانچ چھ دن کے بعد گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔

پل چرخی کے زندان میں ہر نوع کے افراد پائے جاتے تھے۔ چور بھی، اکھڑ اور لڑاکے بھی، سیاست دان اور مُلا بھی، انقلابی بھی اور ضد انقلاب کے حامی بھی۔لیکن کامریڈعبدل جبار اپنی ہی طرز کے آدمی تھے، وہ قندھار سے تعلق رکھتے تھے ان کا شمار ایسے کارکنوں میں ہوتا تھا جو اپنی مرضی سے جیل کے سپاہیوں میں بھرتی ہو کر پل چرخی میں آئے تھے، یہ مئی کا مہینہ تھا انقلاب کی سالگرہ بھی ،پارٹی کے دو تین رہنما بھی آئے ہوئے تھے ان میں نور محمد نور اور گیلانی صاحب بھی شریک تھے۔ کامریڈ جبار نے اپنا نام مقررین میں لکھوا رکھا تھا۔ کامریڈ ایک ’’ گپ باز‘‘ شخصیت تھے، جب کامریڈ عبدل جبار کی نوبت آئی تو انہوں نے ایک نیا ہی نقشہ باندھ دیا۔کامریڈ نے یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا اصل پلان افغانستان پر قبضہ کرنا تھا۔ روس فیصلے کے راستے میں لوہے کی دیوار بن کر حائل ہوگیا۔ روس اور جرمنی کے مابین جنگ کی اصل وجہ یہ تھی۔ ہم نے اس تاریخی انکشاف پر جی بھر کر تالیاں بجائیں۔ الغرض کامریڈ نے ایسے کئی انکشاف کئے اور ہمیں ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔ بالآخر تالیوں کی گونج میں کامریڈ کی یہ تقریر اپنے اختتام کو پہنچی۔ انہوں نے پارٹی رہنمائوں سے ہاتھ ملایا اور ایک جیپ پر بیٹھ کر کابل شہر کی طرف چل نکلے۔ پل چرخی سے باہر نکلتے ہی انہوں نے پستول نکالا اور اس روز کی تجلیل منانےکیلئےنعرہ لگایا اور ایک عدد گولی داغ دی۔ انہوں نے پستول کی نالی کا منہ اوپر کی جانب رکھنے کی بجائے اپنے سامنے ہی رکھا ۔ بدقسمتی سے ایک بزرگ سامنے سے آ رہا تھا گولی اس بزرگ کی پیشانی پر لگی اور وہ وہیں پر گر کر فوت ہوگیا۔ کامریڈ کی بدقسمتی کہ ان کے پیچھے انٹیلی جنس کی جیپ آ رہی تھی انہوں نے کامریڈ کی جیپ کا نمبر نوٹ کرکے اوپر تک پہنچا دیا۔ دوسرے دن پولیس نے گرفتاری ڈال کر انہیں پل چرخی میں ہی بند کردیا۔

کامریڈ نے رہائی کے بعد قندھار میں کارکنوں کی ایک انقلابی تنظیم بنائی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات بن گئے،د و سال قبل یہ افواہ سنی کہ وہ مارے گئے ہیں۔ ؎

حق مغفرت کرے عجب مرد آزاد تھا

تازہ ترین