پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی درخواست منظور کرلی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سنایا جس میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کئی ماہ سے تحریک انصاف کو الیکشن کروانے کےلیے نوٹس جاری کر رہا تھا۔ آخر پی ٹی آئی نے الیکشن کروائے لیکن ان میں سقم پائے گئے، الیکشن کی جگہ مشتہر نہیں کی گئی، دیگر امیدواروں کو پارٹی الیکشن میں کھڑا ہونے کا موقع نہیں ملا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اپنے ساتھ ججز سے بھی مشاورت کرنا ہوگی، دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے۔ دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔
فیصلہ سنانے کیلئے ساڑھے 9 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس میں تاخیر ہوئی۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سنانے سے قبل فیصلہ سنانے میں ہونے والی تاخیر پر معذرت بھی کی۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021 میں کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔
انہوں نے فیصلہ میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک معاملہ ایک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسرے ہائیکورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کے انتخابی نشان لیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی کے 14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کروائے۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کروانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کہاں کروا رہے ہیں؟ پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل تھے۔
سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مرکزی کیس میں علی ظفر وکیل تھے وہی اس کیس میں دلائل دیں گے۔
جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بھی دلائل دینا چاہے ہمیں مسئلہ نہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے آپ نے پڑھا ہے۔
جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، پہلے علی ظفر دلائل دیں گے، میں آئینی معاملہ پر دلائل دوں گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان اور حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ادراک ہے، عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے، وکیل تو بس دلائل دے کر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزے کی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو کے تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلّے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے، پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، میری پانچ قانونی معروضات ہیں جن پر دلائل دوں گا، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022ء کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، ہم نے الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل درآمد کے ساتھ اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے فارم 65 داخل کیا اور پھر 14 ارکان جنہوں نے کہا ہم مبینہ رکن ہیں، الیکشن کو چیلنج کر دیا، ان مبینہ پی ٹی آئی ارکان کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کی، ان 14 شکایتوں پر کارروائی میں ہم نے زبانی طور پر نشان دہی کی کہ یہ پارٹی ارکان نہیں، سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن نے ہمیں دو سوالات کے جوابات دینے کے لیے کہا، پارٹی نے ان سوالات کا تحریری جواب داخل کیا، کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دیے، الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی مؤقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن کا حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔
جمہوریت سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے: چیف جسٹس
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، انتخابات جو بھی ہوں ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہوتا، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہو گی، صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہو گیا؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟ عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کر سکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ عمومی نوعیت کے ہیں، انتخابی نشان بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، اگر ایوب کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلز پارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا، اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتِ حال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آج کل ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام واپس لے لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کہ کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقے کار سے ہوئے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےجن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سےہی کی ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بےضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایس بابر کو الیکشن لڑنے دیتے، سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل بانی پی ٹی آئی باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا، تو کیا ہو گا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اس کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہوجائیں گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈراما کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے، ہمیں اپنے تمام اداروں کی ضرورت ہے جن کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا، کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ صرف سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے ہمارے تمام اداروں کا نقصان ہوتا ہے، پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے، پارلیمنٹ پر الزام لگانا آسان ہے، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن سب ہمارے ادارے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، پارلیمنٹ کا قانون ہے کہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت لائیں، آپ ایسے دلائل نہ دیجیے جو آپ کے مؤقف کے خلاف جائیں، آپ بتائیں کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان بنیادی حق ہے، یہ چیزیں قانون میں ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ قانون کے تحت الیکشن کرانا ہے، اگر کوئی پارٹی الیکشن میں بےقاعدگی ہے تو رکن سول کورٹ جاسکتا ہے کمیشن کو اختیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی میں الیکشن کرائیں، پارٹی کے ان 14 ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں نہیں دی؟
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔
بیرسٹر علی ظفر کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جمہوریت چاہیے مگر گھر میں نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے، جمہوریت نہیں چاہیے، یہ تشریح نہیں مل سکتی کہ 2 لاکھ دے کر آپ پارٹی میں الیکشن نہ کرائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب پارٹی الیکشن ہو رہا تھا اس وقت پارٹی ہیڈ کون تھا۔
وکیل علی ظفر نے بتایا کہ اس وقت سربراہ بانی پی ٹی آئی تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کے تحت اقدام کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آ رہی، آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی، سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے، ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہو گا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں، جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہو گی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو کر کچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے، اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگا کہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے پہلے چیئرمین کون تھے؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پہلے چیئرمین تھے۔
چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے۔
’’پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے‘‘
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایسی بات ہے کہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے، کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑے عہدوں پر بڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کے خلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں، جو چھوٹے عہدے ہیں ان پر بھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے، اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار 326 امیدواروں کو ان کے گھروں میں بند کر دے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسے الیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 میں الیکشن کمیشن کو اختیار سماعت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا، مخصوص لوگوں کو کیسے پتہ کہ الیکشن ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کے کاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو پھر آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کے آئین میں درج ہے کہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اور باقی عہدیداروں کا 3 سال بعد ہونا ہے، سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پر کون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹرا پارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں، تو پھر آپ کے مطابق جو پشاور کے علاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈر کی عزت کے تحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے، مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پر کوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نہیں میں ایسے الیکشن کو الیکشن نہیں کہوں گا، اب اگر 8 فروری کے انتخابات میں پارلمینٹ میں 326 لوگ بلامقابلہ آجائیں تو کیا وہ الیکشن ہوگا؟ لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس اب بہت ہو گیا ہے، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی، بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پر یقین کریں جو 2 سال پہلے آیا، اکبر ایس بابر پر نہ کریں جو بانی رکن ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دکھائیں برطرفی کا لیٹر، کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار رکن نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا، باقی امیدواروں کو سرکار اٹھا کر گھروں میں بند کر دے، اگر ایسے ہونے لگا یہ جمہوریت تو نہیں، اب ہم مکمل جمہوریت پر چلیں گے، سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت آنی چاہیے، آپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی الیکشن لڑنے دیا جائے بس اتنی سی بات ہے، آپ کو ان کی شکل کیوں بری لگتی ہے اگر ایک آدھ سیٹ لے بھی گئے تو کیا ہو گا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں، یہ بھی پتہ چل گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پتہ کیا چل گیا ان کا قد کاٹھ آپ سے کہیں زیادہ ہے، علی ظفر آپ نے کب پارٹی جوائن کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں نے تو ابھی حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہے، ڈیڑھ سال پہلے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ علی ظفر اس سے پہلے آپ کس سیاسی جماعت میں تھے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی تھے تو مخصوص لوگوں کے پاس کیسے پہنچے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دکھادے بات ختم، پی ٹی آئی 2021 سے انٹرا پارٹی انتخابات سے کیوں گھبرا رہی ہے، الیکشن کمیشن کب سے پوچھ رہا ہے، انتخابات کرائیں مگر پی ٹی آئی تاخیر کرتی رہی، پی ٹی آئی تو کاغذات نامزدگی کی فیس کا بھی کوئی کاغذ نہیں دکھا رہی، ہم نے اس کیس کے جلد فیصلے کے لیے پی ٹی آئی وکلاء کو سنا، پی ٹی آئی وکلاء کو نہ سنتے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کل ہی معطل کر دیتے، پی ٹی آئی وکلاء سوالات کا جواب نہیں دیں گے تو مجبوراً پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہو گا، صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو جاتی، آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، انگلینڈ میں اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر وزیرِ اعظم تبدیل ہوتا تو کوئی نہ مانتا، انٹرا پارٹی انتخابات کے کاغذات نامزدگی دکھا دیں۔
چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ کھولیں شاید اس پر تفصیلات ہوں، سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں، پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کوئی کاغذات نامزدگی نہیں ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ویب سائٹ سے کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے ہیں، کاغذات نامزدگی چاروں صوبائی دفاتر میں دستیاب تھے، تمام پارٹی ارکان کو معلوم تھا کہ فارم کہاں سے ملے گا اور جمع کہاں ہو گا، کاغذات جمع کرانے کے لیے تین دن کا وقت دیا گیا تھا، کاغذات نامزدگی کے ساتھ 50 ہزار روپے فیس بھی تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 50 ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں؟
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی فیس کیش لی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے؟ پیسے کہاں گئے؟ عدالت کی دلچسپی صرف جمہوریت میں ہے، تکنیکی نکات میں نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات میں ٹربیونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا، پارلیمان نے انٹرا پارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، اکبر ایس بابر انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے تھےاور ان کو کاغذات جمع کرانے دیے گئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اکبر ایس بابر کے آنے کا ثبوت تو آپ نے جیو نیوز کی خبر کی صورت میں دیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اکبر ایس بابر نے کاغذات جمع کرائے تو 50 ہزار فیس کہاں ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اکبر ایس بابر سے پوچھیں کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ فیس کیوں جمع نہیں کرائی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے آپ نے اپنے آئین کی فلاں شق فلاں شق پر عمل نہیں کیا، علی ظفر آپ مخدوم علی خان کی وکٹ پر مت کھیلیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ مختلف صوبوں سے چار چار پینل تھے، میں اسپن بال نہیں لوں گا کہ وکٹ گنوا بیٹھوں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیاز اللّٰہ نیازی پی ٹی آئی کے پرانے رکن ہیں؟
جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ نیاز اللّٰہ نیازی نے 2009 میں پی ٹی آئی جوائن کی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لگتا ہے آپ دستاویزات میں کمزور ہیں، جو دستاویز مانگتے ہیں آپ کے پاس نہیں ہوتیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں سب نئے نئے لوگ آ رہے ہیں پرانے لوگ کہاں گئے، اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچر کا تاثر مل رہا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، پینل بنانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ جمہوریت کے خلاف نہیں ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے نیاز اللّٰہ نیازی کو بات کرنے سے روک دیا۔
نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ آپ نے میرے بیٹے کے لائسنس انٹرویو میں بھی پی ٹی آئی کے سوالات پوچھے تھے، آپ میری تذلیل کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیاز اللّٰہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، کیا ہم نیاز اللّٰہ نیازی کو نوٹس جاری کریں؟
علی ظفر نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، میں اس کا الزام خود پر لیتا ہوں کہ کاغذات داخل نہ کر سکے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کتنا وقت مزیدلیں گے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پشاور میں پارٹی کا کوئی آفس ہے؟
جس پر علی ظفر نے کہا کہ جی چمکنی میں جہاں الیکشن ہوا، آفس کے ساتھ ہی گراؤنڈ ہے جہاں پر الیکشن ہوا، فیصلہ ہوا کہ اگر پولنگ ہوئی تو نشتر ہال میں، ورنہ پھر گراؤنڈ میں منعقد ہو گا، الیکشن پینل کے ذریعے ہوں گے، یہ واضح نہیں کہ ایک شخص لڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ چیئرمین پارٹی براہ راست خفیہ ووٹ سے منتخب ہو گا، فرض کریں آپ نے عہدہ چھوڑ دیا، الیکشن ہوا تو کیا ووٹنگ نہیں ہو گی، ووٹنگ یہ بھی ہو سکتی ہے میں کسی کو پسند نہیں کرتا یا پارٹی پسند نہیں کرتی، میں ووٹ نہیں دیتا، تو آپ منتخب تو نہیں ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے آپشن لے کر سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا، الیکشن کمیشن نے آئی جی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہم کرنے کا خط لکھا، جیسے جیسے لوگ آتے گئے، میڈیا پر مطلع کیا جاتا رہا، جب آئی جی کو خط لکھ دیا تھا تو انہیں بتا دیا گیا تھا، پولیس نے سائٹ کا دورہ کیا اور تمام نیوز پیپرز نے جگہ کے بارے خبر دی، عوام کو علم تھا، اکبر ایس بابر جب آئے تو کاغذات لینے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کا مطلب الیکشن ہوتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عوامی نیشنل پارٹی کو بھی 20 ہزار جرمانہ کیا، اےاین پی کو نشان الاٹ کردیا اور کہا کہ الیکشن دوبارہ کرالیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا مائنڈ سیٹ نہیں، ہم تو سوال پوچھتے ہیں کبھی چبھتے ہوئے سوال بھی کرتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں، کیا وہ بتائی گئیں؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کردیاتھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے، کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہو گا، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ایک بھی شخص نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، عام انتخابات میں بھی ہوتا ہے کہ ہر شخص الیکشن لڑ سکتا ہے چاہے ووٹ نہ ملیں، عام انتخابات میں بھی ہوتا ہے کہ اتنی تعداد میں ووٹ ہوں ورنہ دوبارہ انتخابات ہوں گے، ایسے تو پی ٹی آئی آمریت کی طرف جا رہی ہے، کسی اور کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات لڑنے ہی نہیں دیا، سینیٹ میں بھی اگر ایک بھی ووٹ نہ پڑے تو وہ منتخب نہیں ہوتے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ایسے تو میں بھی سینیٹ میں بلامقابلہ سینیٹر بنا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پوری باڈی بغیر مقابلے کے آئی، پی ٹی آئی میں لوگ الیکشن سے نہیں سلیکشن سے آئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے این پی کو بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر شاید جرمانہ لگا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پارٹی فنڈنگ سمیت الیکشن کا معاملہ پرانا چل رہا ہے، ملک کون چلاتا ہے، وہ سیاسی جماعت جو منتخب ہو جائے، سیاسی جماعت کا تو نام ہوتا ہے، وہ لوگ کون ہوتے جو ملک چلاتے ہیں، لوگ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ملک غلط لوگوں کے حوالے کر دیا ہے، عوام کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون لوگ منتخب ہوئے، اگر 6 پینل تھے اور 6 کے 6 منتخب ہوگئے تو پھر اجتماع کی کیا ضرورت تھی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق عوامی طور پر نتائج کا اعلان کرنا پولنگ وینیو پر ضروری تھا، وینیو پر پانچ سو، سوا پانچ سو لوگ جمع ہو گئے تھے، عدالت سوال پوچھتی ہے وکیل اس کا جواب دیتا ہے تو اس طرح کا ماحول ہمیں بنانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات واضح ہو گئی کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے لیکن پھر آپ نے آئین بدل لیا، حامد خان صاحب نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ وہ بانی رکن ہیں، میں ایسے ہی پوچھ رہا ہوں ازراہ تفنن کہ چیئرمین بننے کا زیادہ حق حامد خان کا تھا یا گوہر خان کا، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے، سب کو پتہ ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی نشان کے بغیر آپ اپنا امیدوار میدان میں نہیں اتار سکتے، امیدوار یا تو پارٹی نشان کے تحت آئے یا آزاد الیکشن لڑے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ مطلب کیا آپ الیکشن لڑ نہیں سکتے؟
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ پارٹی نہیں لڑ سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات آپ نے کہاں سے لی ہے، کیا اگر کوئی سیاسی جماعت کہے انتخابی نشان نہیں چاہیے، پارٹی نام کافی ہے تو کیا وہ الیکشن نہیں لڑ سکتی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کچھ بھی نہیں، کسی کا انتخابی نشان چھڑی ہو گا کسی کا جھاڑو ہو گا۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انہیں انتخابات لڑنے سے روک رہا ہے۔
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ میری یہ ہدایات نہیں ہیں، یہ انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن لڑ سکتی ہے، الیکشن کمیشن بار بار کہہ رہا تھا کہ الیکشن کرالو، یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کرایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ہو جائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں، پی ٹی آئی یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں یا نہیں، ہماری مرضی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان کسی بھی جماعت کا بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ووٹنگ نہیں ہوئی، پی ٹی آئی پر کچھ لوگوں نے قبضہ کر لیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آپ نے خود فیصلہ دیا ہے کہ کسی کے انتخابات لڑنے کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ کس کیس میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے کیس کا بھی تذکرہ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو تب اصول کیوں نظرانداز کر دیے جاتے ہیں، ہم یہ باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے، 2018 میں ایک پارٹی صدارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم کر دیا گیا، کچھ لوگ اس فیصلے کا شکار ہوئے، آپ نے اس فیصلے کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جو آپ کو میسر نہیں تھے، علی ظفر صاحب، آپ اس ایوان کے رکن ہیں، آپ سمجھ گئے ہوں گے، کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے وہ آپ کو الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتا، انتخابی نشان ایک الگ معاملہ ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر انتخابی نشان نہیں ہو گا تو کیا ہم ہوا میں الیکشن بطور پارٹی لڑیں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کے اپنے پارٹی چیئرمین نے بیان دیا ہے کہ کوئی بھی انتخابی نشان دے دیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں کوئی بھی انتخابی نشان دے دیں یہ بھی ٹھیک ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الیکشن لڑنا چاہیں آپ لڑ سکتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر سپریم کورٹ میں واپس آئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حالات بہت سنگین ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو معاملہ جلد حلد کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی معاملے کو طے کریں۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں، اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں۔ جس پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں، اگر ہم اس معاملے کو حل نہ کرسکیں تو آپ ہمیں کہیے گا۔ ہم چاہتے ہیں اس معاملے کو فکس کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسا ہی ہوگا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر میں اس عدالت کو نہیں بتاؤں گا تو پھر کس کو بتاؤں؟ مجھے ان پر اعتماد نہیں ہے۔
بیرسٹر گوہر کے گھر پر چھاپے کے معاملے میں چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دوبارہ روسٹرم پر بلایا اور سوال کیا کہ کیا اٹارنی جنرل یہیں ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی اٹارنی جنرل سے مل کر آیا ہوں۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل سے کہیں کیس کے بعد مجھ سے چیمبر میں ملیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے استفسار کیا کہ ریکارڈ کے مطابق ہائیکورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے؟ دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پرعمل بھی کردیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں فل بینچ بنا ہوا تھا اس لیے وہاں سے رجوع کیا تھا، دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتوا ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل آپ کوغلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التوا مانگا تھا، میں پہنچا تو بینچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، اگر 2 ہائیکورٹس بیک وقت کیس سننے کیلئے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ایک ہائیکورٹ میں مقدمہ زیرالتوا ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہونے دینگے کہ ایک جگہ سے اسٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں۔ بیرسٹرگوہر کو پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین گوہر ہٹ جاتے ہیں تو دوبارہ بانی پی ٹی آئی کیا بن سکتے ہیں، اگر گوہرعلی کہیں کہ میں عہدہ نہیں چھوڑتا پھر کیا ہوگا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پارٹی انتخابات کے بعد نیا چیئرمین منتخب ہوسکتا ہے جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ نئے چیئرمین کےلیے گوہر علی کو استعفیٰ دینا پڑے گا؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہاہیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوئی زبردستی نہیں کرسکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دے دے تو کیا ہوگا؟ جس پر بیرسٹر علعی ظفر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے بانی پی ٹی آئی کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چیئرمین تبدیل کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹاسکتا ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے۔ جسٹس مستر ہلالی نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے، ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون میں کوئی فرق نہیں آیا۔
عدالت نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا، اسد عمرپی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل تھے، اسد عمر کو اٹھا لیا گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی عہدہ چھوڑ دیا۔ اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈپٹی سیکریٹری جنرل عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ اسد عمر نے پہلے عہدہ بعد میں پارٹی چھوڑی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد عمر نے 9 مئی واقعات کی وجہ سے پارٹی چھوڑی، استفسار کیا کہ سارے مسئلے آپ کی پارٹی کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایک بندے کو کاغذات نامزدگی نہ ملنے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ٹرائل کرنا ہے تو ہمیں شواہد پیش کرنے کا موقع بھی دیتا، کسی اور جماعت کیساتھ یہ رویہ نہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ اگر الیکشن نہ کرواتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا، الیکشن کمیشن کو ٹریبونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جاسکتا ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔
کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا گیا، وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو بیرسٹر گوہر کے گھر مبینہ چھاپے کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد آئے تھے شاید باہر گئے ہیں، آجائیں گے۔
آئی جی اسلام آباد عدالت میں آئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پولیس بیرسٹر گوہر کے گھر کیوں گئی تھی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ اشتہاری ملزم وہاں گئے ہیں، جب علم ہوا کہ گھر بیرسٹر گوہر کا ہے تو پولیس پارٹی واپس چلی گئی۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی آئی جی اسلام آباد سے فوری رپورٹ طلب کرلی، اور ریمارکس دیے کہ آپ تحریری رپورٹ داخل کیجئے، یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آئی جی آپ گوہر صاحب کے گھر خود جائیں، ہمارے سامنے شکایت آئی جو ناقابل برداشت ہے، فوراً بیرسٹر گوہر کے گھر جائیں اور ساری معلومات لیں۔
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اطلاعات کے مطابق کچھ اشتہاریوں کی موجودگی کی اطلاع پر بیرسٹر گوہر کے گھر پولیس گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ہر شہری کو تحفظ دینا اس کا حق ہے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریڈ ہوا یا نہیں؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ جی سر پولیس کی ٹیم بیرسٹر گوہر کے گھر گئی ہے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو ہدایت کی کہ اگر یہ آپ کا مسئلہ حل نہ کریں تو تحریری آگاہ کریں، آئی جی گوہر صاحب کی شکایت کا ازالہ کریں یہ برداشت نہیں ہوگا۔ گوہر خان اگرآپ کو بدستور شکایت ہو تو آپ عدالت میں لکھ کر دے سکتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کے گھر پر ہونے والے واقعے کا نوٹس لینے پر عدالت کا شکریہ، وکیل پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے گھر جو ہوا اس کا نوٹس لینے پرعدالت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں انتخابات کرائے، ہمارے ہزاروں کارکنوں اور خواتین کو گرفتار کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کرنے کیلئے وکیل کی ضرورت ہے کارکنوں کی نہیں۔
حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا، ضمانت ملنے کے باجود لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے،
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟ دس منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا، انتخابات میں بے ضابطگی پر نشان واپس نہیں لیا جاسکتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کروانے والا کون ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سپریم کورٹ کا اس بارے میں 1968 کا فیصلہ موجود ہے، الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر اعتراض تو درخواستگزاروں نے بھی نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگرانہیں معلوم ہوتا تو شاید اعتراض کرتے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جج کی تعیناتی بھی خلاف قانون قرار پائے تو اسکے فیصلوں کو تحفظ ملتا ہے۔ الیکشن کمشنر کی تعیناتی اگر غلط بھی تھی تو انتخابات کالعدم نہیں ہوسکتے۔
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ تاثر یہ ہے کہ یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، پشاور میں الیکشن اس لیے کرایا کہ پنجاب، اسلام آباد کی انتظامیہ نہیں کروانے دے رہی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر سیکیورٹی مہیا نہیں کرتے تو پھر سیکیورٹی کےلیے بھی لکھا، اگر ایسی بات تھی تو چپکے سے الیکشن کرالیتے نہ بتاتے، ہم بھی پاکستان ہی کے اندر رہتے ہیں۔ جیسے ہی ضمانت ملتی ہے تو باہر نکلتے ہی پکڑ لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حامد خان یہ بتائیں لاہور ہائیکورٹ میں 5 رکنی بینچ کس لیے بنا تھا؟ ایک بار دائرہ اختیار کا انتخاب کرلیا تو پھر پشاور جانے کی بات سمجھ نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان کا وقت 7 بجے تک بڑھادیا ہے، پتا نہیں یہ گڈ نیوز ہے یا بیڈ نیو، ہم اس سے پہلے کیس نمٹا دیں گے۔
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت نہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے پشاور ہائی کورٹ کی پیٹیشن میں امتیازی سلوک کا کونسا گراؤنڈ لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ دونوں کیس الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کےلیے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ اپیل کےلیے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کرسکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ معاملہ کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ معلومات تک رسائی سے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا عدالت درخواستگزار نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن کے خلاف کیس ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کرسکتے؟ اگر ہائی کورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان جمع کروانے کےلیے 7 بجے تک کا وقت دیا ہے، یہ پتا نہیں آپ کےلیے اچھی خبر ہے یا بری، حامد خان نے کہا کہ اس بارے میں استدعا دلائل کے آخر میں کروں گا۔
چیف جسٹس نے حامد خان کو جلد دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے ساتھ دہرا معیار ہے۔ باقی تمام جماعتوں کو الیکشن کمیشن کچھ نہیں کہہ رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو 13 سے زائد جماعتوں کو ختم کردیا ہے، ایسی بات ہوا میں نہ کریں کسی جماعت سے شکایت ہے تو فریق بنائیں جس پر پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا استحصال کر رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تب بھی پی ٹی آئی کا استحصال ہو رہا تھا؟ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، الیکشن کمیشن تو سب کو کہہ رہا تھا پارٹی الیکشن کرائیں۔ آپ کی پارٹی نے کہا کہ کوڈ ہے، الیکشن نہیں کرسکتے، مہلت مل گئی۔ وجیہہ الدین نے جو انٹراپارٹی الیکشن کرائے وہ کس سال کے تھے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ وہ الیکشن تو ہم نے ہی کرائے تھے سال 2012 تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم الیکشن کمیشن کا کنڈکٹ دیکھ رہے ہیں تو پارٹی کا کنڈکٹ بھی دیکھیں گے، یہ پارٹی کا اپنا اندرونی معاملہ ہے، ہم ان انتخابات سے متعلق کمیشن میں نہیں گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میرے خیال میں جس قانون پرعدالتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ فیصلہ مؤثرنہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کاغذات جمع کرواتے تو عمدہ الیکشن ہوتا۔
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ آج ایک پیش رفت ہوئی ہے، الیکشن کمیشن نے آج جو فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک پارٹی ہمارے سامنے نہیں، ان کو فائن لگادیا ایسا نہ کریں۔ ایک محلے میں قتل ہوتا ہے ایف آئی آر نہیں ہوتی، دوسرے محلے میں قتل ہوتا ہے ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے، اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایف آر درج نہیں ہوسکتی اور یہ امتیازی نہیں ہوسکتا۔
پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ جس قانون کے تحت الیکشن کمیشن اختیار استعمال کر رہا ہے انکا انداز امتیازی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ پارٹی کہےالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پرجرمانہ نہیں کیا اور وقت دے دیا تو کیا یہ درست ہوگا؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن اپنا اختیار امتیازی انداز میں استعمال کر رہا ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان کیا آپ الیکشن لڑ رہے ہیں؟ ایسے ہی پوچھ رہا ہوں، جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ نہیں میں اس بار الیکشن نہیں لڑ رہا، صرف اس ایک وجہ سے کسی سیاسی جماعت کو باہر نہیں نکالا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان نے یہ تسلیم کیا اور کہا پشاور ہائیکورٹ کو اختیار سماعت تھا، مخدوم علی خان کا کہنا تھا لاہور ہائیکورٹ میں ہوتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ نہیں جانا تھا جس پر حامد خان نے کہا کہ حقیقی معاملہ پارٹی کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب اچھا نہیں لگتا آپ جیسے سینئر وکیل سے پوچھا جائے مزید کتنا وقت لیں گے؟ مکمل کریں۔ حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اس اقدام سے پارٹی بلکہ عوام کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا اقدام کیا، انتخابات میں حصہ لینا ہر سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کوئی انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روک رہا، حامد خان نے کہا کہ بس مزید تھوڑا سا وقت لوں گا، جس پر حامد خان نے کہا کہ آپ جتنا وقت لیں گے اس کا نقصان آپ کو ہوگا، حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن لاکھوں پی ٹی آئی ووٹرز کا حق نہیں چھین سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بار آپ کہیں اکبر ایس بابر رکن ہے پھر کہیں کہ ممبر نہیں ہیں، آپ اکبر ایس بابر سے متعلق بھی ثبوت دے دیں کہ انہوں نے دوسری پارٹی جوائن کرلی، فوزیہ قصوری پارٹی کی رکن ہیں یا نہیں ہیں؟ آپ کسی رکن کو نکالنا چاہیں خوشی سے نکالیں لیکن جو طریقہ ہے وہ اختیار کریں، اگر صرف الیکشن کمیشن آتا تو ہم چھوڑ دیتے اب اکبر ایس بابر سامنے کھڑا ہے تو ہم کیا کریں؟ اگر حامد خان صاحب آپ کو غیرقانونی طور پر نکالا جائے تو آپ کیا کریں گے۔
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ انتخابی نشان نہ دے کرپی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہنے والے لاکھوں ووٹرز کو حق سے محروم کیا جارہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان یہ بات ہوگئی ہے، کتنی بار دہرائیں گے؟ دلائل آگے بڑھائیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ اگر ایک پارٹی جس کی بہت زیادہ فالوونگ ہے اسے باہر کردیں گے؟، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے یہ دیکھ کر دے اسکے کیا اثرات ہوں گے؟
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں استدعا تھی الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کرسکتا، الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 14 درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے اندرونی معاملے میں کیسے مداخلت کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے، الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے؟ بانی رکن اپنی پارٹی کے خلاف کیسے عدالتوں میں جاچکا ہے۔ اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا۔ حامد خان
چیف جسٹس نے کہا کہ شو کاز نوٹس دکھا دیں، اکبر بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے۔ تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ پارٹی کسی کو ممبر نہ مانے تو اس کا کام ہے خود کو عدالت میں رکن ثابت کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب وقت زیادہ لگے گا تو نتائج کےلیے بھی تیار رہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ کوشش ہے، جلدی بات مکمل کر لوں۔ مقبول سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کرنے سے ووٹرز کے حقوق متاثر ہوں گے، آئین قانونی اور سیاسی دستاویز ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک رکن یوسف علی روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ سال 2013 میں سیکریٹری جنرل تھا، ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس پارٹی سے ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ میں رکن ہوں صوبائی الیکشن بھی لڑا، بلوچستان سے لوگ بھی آئے تھے لیکن کسی کو کاغذات ہی نہیں ملے۔
ایک اور رکن محمود علی خان نے کہا کہ میرا نام محمود علی خان ہے، 2006 میں پی ٹی آئی جوائن کیا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ اب کس پارٹی میں ہیں؟ جس پر محمود علی خان نے کہا کہ ایک ہی پارٹی میں تھا، ایک ہی پارٹی میں رہوں گا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو کاغذات ملے تھے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کوئی علم ہی نہیں تھا۔
پی ٹی آئی کی ایک اور رکن نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی 1999 میں جوائن کی تھی، پارٹی کے خواتین لیبر ونگ کی صدر بھی رہی، پی ٹی آئی نے جی ایٹ میں تین منزلہ عمارت بنائی۔
ایک اور پی ٹی آئی رکن بلال اظہر رانا کا کہنا تھا کہ جب پارٹی بنی تو 10 مئی 1996 میں جوائن کی۔ ایک اور رکن محمد مزمل سندھو نے کہا کہ مجھے نہ ووٹنگ لسٹ نہ ہی کوئی فارم دیا گیا، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے یو سی 22 کا صدر تھا، کاغذات لینے دفتر گیا تو بتایا گیا کوئی فارم نہیں، جسے چیئرمین بنانا چاہیں گے وہی بنے گا۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن شاہ نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ نام کا بانی ممبر نہیں، پارٹی آئین حامد خان سے مل کر بنایا، سرٹیفیکٹ پیش کر رہا ہوں۔
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ شروع میں پارٹی آئین میں پینل نہیں تھا، پہلے آئین کے بعد پھر آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں، حامد خان کو بھی پارٹی کی جانب سے شو کاز دیا گیا تھا۔ شوکاز نوٹس دسمبر 2019 میں دیا گیا تھا۔
احمد حسن شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان کےلیے اہلیت ہونا لازمی ہے، انتخابی نشان آٹو میٹک الاٹ نہیں ہوتا، الیکشن رول پی ٹی آئی 15 کو بھی عدالت نوٹ کرلے، پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہیں۔
وکیل اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ پارٹی بنی تو بلے کے نشان کےلیے اکبر ایس بابر کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا کہا گیا، اکبر ایس بابر کو پارٹی کے خلاف بیانات پر شوکاز جاری کیا گیا تھا، اکبر ایس بابر کو شوکاز نوٹس 2019 میں جاری کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکی کہ اکبر ایس بابرپی ٹی آئی ممبر ہیں۔
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اکبر بابر کی رکنیت کا اعتراض اٹھایا گیا تھا، پارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو انتخابی نشان نہیں مل سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے بارے میں کہہ رہے ہیں انکی پارٹی سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، جس پر اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ بلے سے پہلے 2002 کے انتخابات میں پارٹی کا نشان چراغ تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے جواب الجواب دلائل شروع ہوئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انکی پارٹی سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، مخدوم علی خان آپ پہلے اس سوال کا جواب دیں جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار سماعت پر اعتراضات کا پہلے جواب دیتا ہوں۔ عدالت کے پاس قانون کالعدم قرار دینے کا حق ہے اسے بےاثر کرنے یا برا کہنے کا نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کاغذات جمع کروا کر بینک میں رقم جمع کروائی اسکی رسید ہے، جیسے دوسروں سے آپ رسیدیں مانگتے تھے؟
بلے کے نشان سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت مکمل کرلی گئی، بلے کے انتخابی نشان کے کیس میں الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محفوظ فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائے گا، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمیں سانس لینے دیں، اپنے ساتھی ججز سے بھی مشاورت کرنا ہوگی، دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے، دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔