الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے8فروری 2024 ء کی تاریخ کے اعلان کے بعد پاکستانی سیاست کےسمندر میںمدوجزرہے۔ حلقہ بندیوں کے فائنل ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انٹرویوز اور نام فائنل ہونے کا مرحلہ جاری ہے۔ دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انتخابات کیلئےنئے منشور کی تیاریاں جاری ہیں۔ پارٹیو ں میں ٹکٹ کیلئے امیدواروں میں رسہ کشی ہورہی ہے۔ غرض کہ ہر طرف سیاسی تلاطم عروج پر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سےمسلسل لیو ل پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ انکے کارکنوں پر مقدمات کی بھرمار اوررہنماؤں کو پابند سلاسل کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے گزشتہ دنوں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سپریم کورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری ہونے کے باوجود انہیں پہلے ایم پی او کے تحت نظر بند کر دیا گیا مگر پھر9مئی کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ۔ اڈیالہ جیل کے صدر دروازے پر جس طرح ان کی گرفتاری عمل میںلائی گئی اس پر پاکستان کےسنجیدہ سیاسی حلقوںکے علاوہ بین الا قوامی سطح پر بھی تشویش دیکھی گئی اور بین الا قوامی فورمز پر پاکستان کے سوفٹ امیج کو نقصان پہنچا۔ یہاںتک کہ صدر مملکت عارف علویٰ سےبھی اسکی مذمت کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریزکرنے کی نصیحت کی گئی ۔سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اورسابق وفاقی وزیر مملکت محمد علی خان کو بھی ان حالات کا سامنا کرناپڑا ،ایک مقدمے میں ضمانت ہوتی تو جیل کے باہر دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا اس طرح کئی ماہ تک تحریک انصاف کے ان راہنمائوںکو جیل میں بند رکھا گیاپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میںپیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کے دوران اپنا دس نکاتی منشور پیش کرتے ہوئے عوام سے انہیں کم ازکم ایک سو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب کرنے کی درخواست کی تا کہ وہ اپنا ایجنڈا پورا کر سکیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود پاکستان بھر کے حلقوںکیلئےمناسب امیدواروںکے چناؤ کیلئے مسلسل انٹرویوز کر رہے ہیں ۔ وہ عملی طور پرسیاسی مہم شروع کرنے سے قبل اپنے امیدواروں کے ٹکٹ فائنل کرنے کے مشن پر ہیں تاکہ پیپر ورک مکمل کر کےمیدان میں اترا جائے۔اس سلسلے میںجانفشانی اور عرق ریزی سے دن رات کام ہو ہو رہا ہےزیادہ سے زیاد ہ الیکشن جتنے والےا مید واروں کا چناؤ ہو رہا ہے۔سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ہم خیال پارٹیوںسے بات چیت ہو رہی ہے،حال ہی میں جھنگ کے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھنےوالے اور پیپلز پارٹی کےسابق راہنما فیصل صالح حیات نے میاں شہباز شریف کی موجودگی میںن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ لہٰذ ا نظر یات اور سیاسی سوچ کو پس پشت ڈال کر زیادہ سے زیادہ سیٹوں کی جیت کو ممکن بنانے کیلئے کام ہو رہا ہے تا کہ اقتدارحاصل کیا جا سکے۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر پاکستانی سیاست دانوں کی طرف سے قومی سطح کی متحد آواز نہ اٹھ سکی۔ جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ریلیوں کا انعقاد کیا مگر قومی سطح پر متحد ہو کر غزہ کے مسلما نوں کا قتل عام کو رکوانےکیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ ہر موقع پر مسلم امہ کےقائد کا کردار اد اکرنے والا پاکستان آج اپنے سیاسی مسائل سے دوچار ہےاخباری بیانوں کےذریعے اسرائیلی مظالم کی مذمت کرنے والے سیاسی راہنماؤں نے اپنے سیاسی مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول رکھی اور مسلم امہ کے مسائل کو فراموش کر دیا ۔ غزہ کے باسیوں پر ان کے اپنے وطن کی زمین کو تنگ کرتے ہوئےان پر ٹنوں بارود برسایا جا رہا ہےغزہ کی زمین اجتماعی قبروں کے قبرستان میں تبدیا یل ہو چکی ہے مگر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہیں۔سلامتی کونسل اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہےامریکہ اپنی طاقت کے زعم میںہر جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر کے اپنے ناجائز بچے اسرائیل کو قتل عام جاری رکھنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔غزہ کےمسلمانوں کے قتل عام پر اب یہودی بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے اسرائیلی مظالم اورغزہ کےمسلمانوں کے قتل عام کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایاکیونکہ ان کے نزدیک اس کی کوئی ا ہمیت نہیں ہے انہیں تو اپنے اقتدارکیلئےزیادہ سے زیادہ سیٹیںجیتنے کی جدوجہد کرنی ہےتاکہ اقتدار حاصل ہو۔پاور میں آکر وہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کی بیخ کنی کیلئے جابرانہ اقدامات کریں ۔ہماری سیاسی جماعتوں کی یہ بے حسی ہمیں مسلم امہ کی قیادت سے محروم کر دے گی اور ہم اپنے عوام اور سیاسی کارکنوں کی بیخ کنی کیلئے اقدامات کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس بے حسی سے نکلناہو گا اور مسلم امہ کے اتحادکیلئے کام کرنا ہو گا۔