• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری پور ی تاریخ میں قومی سطح پر اتنی بے یقینی ، بے چینی اور تذ بذب دیکھنے میں نہیں آیا جتنا آج کل ہے۔ حتیٰ کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی جب ملک دولخت ہو گیا اور اس سانحے کے بعد ملکی معیشت تباہ و برباد ہوگئی ۔ تب بھی بقیہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے بارے میں ایسے خدشات ظاہر نہیں کئے گئے تھے جن کا اظہار آج کیا جا رہا ہے۔ آج ہم سیاسی ابتری ، معاشی بدحالی اور ایک دوسرے سے نفرت کے جس مقام پر کھڑے ہیں اس نے ہمارے مستقبل کا نقشہ دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کل کیا ہوگا! اس سے ایک حقیقت تو واضح ہو جاتی ہے کہ بیرونی دشمن کے جارحانہ حملوں سے ’’ اندرونی دوستوں‘‘ کی خانہ جنگی زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ چند مہربانوں کی مہربانیاں کروڑوں عوام کی زندگیاں جہنّم بنا سکتی ہیں اور ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہیں۔آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اسے عالمِ نزع کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ریاست کے تمام ادارے ایک بند گلی میں قید ہو گئے ہیں اور اس بند گلی میں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ بظاہر ملک میں ایک خاموشی ہے لیکن یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بنتی جا رہی ہے۔ آنے والا ہر لمحہ اس بے چینی ، اضطراب اور بے یقینی کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سب اداروں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے خوفزدہ ہے او ر بے یقینی کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ ایسے خوف کے عالم میں کسی بھی غلط فیصلے کی ایک چنگاری ، خاموشی کے بارود میں خوفناک آگ لگا سکتی ہے۔ اگرچہ ملک میں 8فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسے حتمی تاریخ بھی قراردے دیا ہے لیکن چند ہفتے بعد ہونے والے اس مجّوزہ الیکشن کے انعقاد پر ابھی تک بے یقینی کے دبیز سائے چھائے ہوئے ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن کے الیکشن ملتوی کرنے کے اعلانات ہوں یا سینٹ میں پر اسرار طریقے سے الیکشن کے التواکی قرار داد کی منظوری ہو، لگتا ہے کہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں کچھ غیر معمولی اقدامات اور واقعات ہونیوالے ہیں، حد تو یہ ہے کہ جس نواز شریف کو غیر معمولی سہولتیں اور مراعات دیکر واپس بلایا گیا ہے وہ بھی اب تک انتخابی عمل میں شریک ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ انہوں نے اب تک نہ تو اپنا الیکشن منشور جاری کیا ہے اور نہ ہی عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف ایک پیپلز پارٹی ہے جسکی طرف سے نہ صرف الیکشن منشور جاری کردیا گیا ہے ، بلکہ وہ دوسری پارٹیوں کی نسبت انتخابی عمل میں زیادہ فعال دکھائی دے رہی ہے۔جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو اسے شاید کسی انتخابی عمل کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک ایسی پارٹی کو جسے چند مہربانوں نے ہر حیلے بہانے سے اس ملک کے عوام پر زبردستی مسلّط کیا اور جس نے اس ملک کی معاشی ، سیاسی اور اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہماری ریاست ’’مظلومیت ‘‘ کے پردے میں نہ صرف اسکی انتخابی مہم چلا رہی ہے بلکہ ایک ایسا ’’سیاسی عفریت‘‘ بنا رہی ہے جس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ یہ وہی پارٹی ہے جو اپنی پونے چار سالہ بدترین کارکردگی کے بعد اپنی طبعی موت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس نے تیرہ میں سے بارہ الیکشن ہارے ، یہی نہیں بلکہ اپنے سب سے بڑے گڑھ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات بھی شرمناک طریقے سے ہار گئی ۔ لیکن اقتدار سے باہر نکلتے ہی ہمارے ریاستی اداروں کے تعاون اور غلط فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے مردہ بدن میں ایک نئی روح پھونک دی گئی۔ اگر عمران خان کی مقبولیت کی وجہ ان کی کارکردگی ہوتی تو وہ اپنی حکومت کے دوران تقریباََ تمام ضمنی انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچار نہ ہوتے۔ آج کی دنیا ، سوشل میڈیا کی دنیا ہے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ نے مکمل فتح حاصل کر لی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ملک پر چھائی ہوئی بے یقینی اور مایوسی کی فضا کا ایک ہی علاج ہے کہ 8فروری کے انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ آج ملک میں ہر طرف یہی ایک سوال چھایا ہوا ہے کہ کل کیا ہوگا؟ میری ایک پرانی غزل آج کے حالات کی مکمل عکّاسی کرتی ہے۔

کل کا خوف لگا ہوا ہے ، کل کیا ہوگا

ہر چہرے پر یہی لکھا ہے، کل کیا ہوگا

جس رستے پر بھی جاتا ہوں ، رستہ روکے

آگے ایک سوال کھڑا ہے، کل کیا ہوگا

کہنے کو یہ سادہ سے الفاظ ہیں، لیکن

سوچو تو یہ کڑی سزا ہے، کل کیا ہوگا

آج تو جیسے تیسے کر کے بیت گیا ہے

دل کو جانؔاب یہ دھڑکا ہے، کل کیا ہوگا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین