• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں انصاف کے معیار کی بات تو یوں کی جاتی ہے کہ جیسے انصاف کوئی مادی شے ہے جسے دیکھ کر یا چھو کر با آسانی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ یا انصاف ہو رہا ہے یا نہیں۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، انصاف سائنسی طور پر کوئی قابلِ پیمائش شے نہیں ہے۔ نہ تو انصاف کو کسی پیمانے کے ذریعے ماپا جا سکتا ہے اور نہ ہی سب لوگ کسی ایک فیصلے کو لے کر متفق ہو سکتے ہیں کہ اس میں انصاف ہوا ہے یا نہیں۔ ہم اس موضوع پر جتنی مرضی بحث کر لیں یا انصاف کو ایک عالمگیر شے سمجھ لیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک شخصی یا انفرادی تصور ہےاور اس کے تقاضے بھی انفرادی ہیں۔ اسی لیے، کسی بھی معاملے کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس میں انصاف ہوا ہے یا نہیں، ایک انفرادی رائے ہے۔ اسی لیے قوانین اور ضابطے بنائے گئے تاکہ انصاف پہلے سے طے شدہ اصولوں پر ہو نہ کہ لوگوں کی انفرادی رائے پر ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا دکھائی بھی دینا چاہیے، لیکن ایک انتہائی جانبدارانہ ماحول میں کسی کو انصاف ہوتا کیسے دکھائی دے سکتا ہے۔ جب کسی نے پہلے سے ہی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ فلاں معاملے میں انصاف یہ ہے کہ اُسے ہر صورت حق پر ٹھہرایا جائے تو اُس کے برعکس فیصلہ اُسے انصاف کیسے لگے گا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق دیے گئے فیصلے کو درست قرار دیے جانے کے بعد عدالتِ عظمیٰ پر جو تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں، اُس تناظرمیں یہ سب باتیں بہت ضروری ہیں اور دو مختلف آرا قائم کی جا رہی ہیں۔ پہلی رائے یہ قائم کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے سے جمہوری عمل کو زک پہنچی ہے اور یہ کہ جمہوریت اور شفاف و غیر جانبدارانہ الیکشن کیلئے سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن درست قرار دیتے ہوئے اُسکا انتخابی نشان واپس کر دینا چاہیے تھا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن، الیکشن ایکٹ ء اور الیکشن رولز کی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق شقوں کے مطابق نہیں کروائے، اس لیے ان انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں آنی چاہیے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جنہوں نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کی واپسی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ہونے والی پوری سماعت سنی ہو گی اور اس سماعت کے دوران زیر بحث آنے والے قانونی پہلوئوں پر غور کیا ہوگا یعنی وہ قانونی ضابطے جو انصاف کو ذاتی رائے سے الگ کرتے ہیں۔ کیا کسی کی خوشنودی کی خاطر قانون کو یکسر نظر انداز کر دینا اور ایک نئے نظریہ ضرورت کو جنم دینا انصاف ہوتا؟ اس سوال کا جواب اس جانبدارانہ ماحول میں قطعاً آسان نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاملہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں ہے جتنا اسے بنایا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے قانونی پہلوئوں پر غور کیے بغیر یہ کہنا کہ اس فیصلے سے جمہوریت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، درست نہیں ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے اس فیصلے پر مچائے جانے والے واویلے پر اس لیے بھی حیرانی ہوتی ہے کیونکہ اُس کی قانونی ٹیم نے بہت بے دِلی سے یہ کیس لڑا ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ وکیل کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم سے زیادہ بہتر دلائل تو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم دے رہی تھی۔ زمینی حقائق کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن دو غلط مل کر صحیح نہیں ہو سکتے۔

آج کل حالات ایسے ہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھنا آسان کام نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ کہ آج جو کچھ بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے اُس کی وہ خود ذمہ دار ہے اور اس سے قبل یہی سب تحریک انصاف کی خاطر دیگر جماعتوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اُس وقت تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ مخالفین کو جیسے گالم گلوچ کرتی تھی، اُن کے خلاف آنے والے اس فیصلے سے بہت زیادہ متنازعہ فیصلوں پر جشن منایا جاتا تھا، اُن فیصلوں کو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا جاتا تھا، تحریک انصاف کو تو آج بھی ویسے رویے کا سامنا نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے تو اپنے مخالفین کی بیماریوں پر بھی ٹرولنگ کی، جیسے بیگم کلثوم نواز بسترِ مرگ پر تھیں لیکن پی ٹی آئی کے ٹرولز تب بھی ٹھٹھا اُڑا رہے تھے۔ یہی سب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو تب جھیلنا پڑا جب صدرِ مملکت کی طرف سے اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بد نیتی پر مبنی ریفرنس دائر کیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو پی ٹی آئی کے ٹرولز کی طرف سے آج بھی اُسی قسم کے طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی دور کے کرپشن اسکینڈلز سامنے لانے اور اُن کی حکومت کی ناقص کارکردگی پر سوال اٹھانے والے صحافیوں کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا رہا۔ دیکھا جائے تو جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے خود پہنچایا ہے اور اُسے آج جس صورتحال کا سامنا ہے وہ اُس کی ناقص کارکردگی اور اقتدار میں ہر صورت آنے کا شاخسانہ ہے۔

لیکن دو غلط مل کر پھر بھی صحیح نہیں ہو سکتے۔ اس لیے تحریک انصاف اُسی صورت ہمدردی کی مستحق ہے جب اُسے اپنی غلطیوں کا احساس ہو۔ یہ احساس پی ٹی آئی کی قیادت کو ابھی تک نہیں ہوا اور نہ مستقبل قریب میں ہوتا نظر آ تا ہے۔ اب تحریک انصاف والے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ نظام میں موجود نقائص کھل کر سامنے آ گئے ہیں لیکن اُنہیں شاید یہ یاد نہیں کہ یہ نقائص اُن کے دور میں ہی سامنے آ چکے تھے لیکن تحریک انصاف تب اپنے مخالفین کو دبانے میں مصروف تھی اس لیے اُسے یہ نقائص تب نظر نہیں آئے۔ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں میں کچھ حلقے ایسے ہیں جو آج بھی تحریک انصاف کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں لیکن جب تحریک انصاف اقتدار کیلئے جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑا رہی تھی اور اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا رہی تھی تو پی ٹی آئی کا کوئی رہنما اُن کے حق میں آواز بلند نہیں کرتا تھا۔ آج بھی پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں میں سے کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ جیل میں عمران خان کا ٹی وی یا گھر کا کھانا بند کرو لیکن عمران خان اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں امریکہ میں بیٹھے یہ دعوے کرتے تھے کہ واپس جا کر میں نواز شریف کا جیل میں اے سی بند کروا دوں گا۔ آج بھی تحریک انصاف جمہوریت کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کواوراپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسے میں اس کیلئے ہمدردی رکھنا بہت مشکل ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین