مری جانے کیلئے میں نے تین اوور کوٹ گاڑی میں لٹکائے، یہ سوچ کر کہ پہلا اُس وقت پہنوں گا جب برف باری ہوگی، دوسرا اُس وقت جب سردی میں باہر آگ جلا کر بیٹھیں گے اور تیسرا اُس صورت میں اگر برف باری نہ ہوئی۔وہ سردار جی یاد آگئے جنہوں نے گھر میں تین تالاب بنوائے تھے، گھر کی رونمائی ہوئی تو مہمانوں کو بتایا کہ پہلے تالاب میں ٹھنڈا پانی ہے گرمیوں کے لیےاور دوسرے میں گرم پانی سردیوں کیلئے جبکہ تیسرا تالاب خالی تھا۔مہمانوں نے پوچھاکہ یہ تیسرا کیوں خالی ہے، اِس پرسردار جی اطمینان سےبولے’کبھی کبھی نہانے کو دِل نہیں بھی کرتا!‘ لاہور سے نکلے تو سردی مزاج پوچھ رہی تھی،پنڈی بھٹیاں تک یہی حال رہا، بھیرہ تک بھی سردی کا کچھ رعب داب قائم تھا، مگر اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے سردی یوں غائب ہوگئی جیسےاپنے ملک میں بیلٹ پیپر سے انتخابی نشان ۔حالانکہ شام کا وقت تھا، کچھ لوگوں سے پوچھا کہ سردی کہاں ملے گی، کہنے لگے ہر سال تو یہیں ملتی ہے، اِس مرتبہ نہ جانے کہاں گئی۔ خیر ہم نے گاڑی کا رُخ مری کی جانب کرلیا اوربھارہ کہو فلائی اوور سے گاڑی بھگاتے ہوئے آن کی آن میں ایکسپریس وے پر پہنچ گئے۔ بھارہ کہو فلائی اوور پر گاڑی چلاتے وقت یوں لگا جیسے کسی بے حد ترقی یافتہ ملک میں داخل ہوگئے ہوں،رن وے جیسی سڑک اور تاحد نگاہ روشنیاں۔دراصل ایکسپریس وے اور موٹر ویز جہاں بھی بنی ہیں انہوں نے اُس علاقے کی خوبصورتی کو دوبالا کردیا ہے،وہ علاقے جو پہلے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے گرد بے ہنگم انداز میں پھیلے ہوتے تھے، اب پہچانے نہیں جاتے۔ایکسپریس وے پر اکا دکا گاڑیاں تھی جس کی وجہ برف باری کا نہ ہونا تھا، ہم نےیہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ برف باری تو قسمت سے ملتی ہے ،نہ بھی ملی تو خیر ہے،ہم مری کی سردی کا لُطف اٹھا لیں گے۔رات گئے مری پہنچے تو وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ٹھنڈ بس اتنی تھی جتنی لاہور میں ،شاید اُس سے بھی کم۔اہالیان مری بھی خاصے مایوس دکھائی دیے،ہر سال جنور ی تک مری میں اچھی خاصی برف باری ہوجاتی ہے مگر امسال تاحال نہیں ہوئی اور یہ خاصی پریشان کُن بات ہے۔دریا اور چشمے سوکھے پڑے ہیں اور اِس انتظار میں ہیں کہ کب پہاڑوں پر برف پڑے اور وہ میدانوں کو سیراب کریں۔صبح اٹھے تو چمکتی ہوئی دھوپ نے استقبال کیا۔ہم نے سوچا کہ نتھیاگلی کا چکر لگاآتے ہیں،شاید وہاں صورحال بہتر ہو،مگر وہاں بھی ویرانی تھی،زیادہ تر ہوٹل اور ریستوران خالی پڑے تھے، مقامی لوگ آوازیں دے دے کر بلا رہے تھے مگر کوئی گاہک نہیں تھا۔سیزن میں نتھیا گلی سے گاڑی نکالنا ایک عذاب ہوتا ہے مگر اُس وقت ہمیں بمشکل دو منٹ لگے اور نتھیا گلی ختم ہوگئی۔ہم نے وہیں سے گاڑی ایبٹ آباد کی طرف موڑ دی تاکہ وہاں سے ہزارہ موٹر وے کے راستے لاہور واپس جایا جا سکے۔اسموگ ہی سہی مگر لاہور میں کم ازکم سردی تو تھی۔موٹر وے پر گاڑی بھگاتے ہوئے اکثر پتا نہیں چلتا کہ کب رفتار ایک سو بیس سے تجاوز کر گئی ،کچھ ایساہی مری سے واپسی پر بھی ہوا،اپنی ترنگ میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ایک پولیس والاعین موٹر وے کے بیچ میں نمودار ہوا اور گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔موٹروے پر پولیس والے ہمیشہ ایسے ہی وارد ہوتے ہیں اور اِن کی یہ حرکت دیکھ کرمیں سوچتا ہوں کہ جس حادثے سے بچانےکیلئے چالان کیا جاتا ہے، اُس حادثے کا سبب کسی دن یہ پولیس والے ہی نہ بن جائیں کیونکہ جس بھونڈے طریقے سےیہ گاڑی روکتے ہیں اُس سے حادثے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔اور پھر اِن کا سارا زور اوور سپیڈنگ پر ہوتا ہے ،یہ نہیں دیکھتے کہ کون سی گاڑی کالا دھواں چھوڑ رہی ہے یا کس گاڑی کا انجر پنجر ہلا ہوا ہے،ایسی تمام گاڑیاں بلا روک ٹوک موٹر وے پردندناتی ہوئی گزر جاتی ہیں،اُن کاکوئی چالان نہیں ہوتا، برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔ ایک نہایت صالح قسم کے باریش انسپکٹر نے میرا چالان کیا، دل تو میرا چاہا کہ اپنا تعارف اُسی طرح کرواؤں جیسے نذیر سُرمے والا کرواتا ہے کہ تمہیں پتا نہیں میں روزنامہ کالک کا ایڈیٹر ہوں،مگر پھر یہ سوچ کر چُپ ہورہا کہ کہیں مولانا اِس جُرم کی پاداش میں جرمانہ دگنا نہ کردیں۔ حسبِ روایت جرمانہ کرنےکے بعد انہوں نے پرچی ایک اور شخص کے حوالے کی جو اپنے حلیے سے قصائی لگ رہا تھا،اُس نے جرمانے کی رقم وصول کرکے مجھے رسید دے دی۔یہ قصائی والی بات کچھ ایسی غلط نہیں ،موٹر وے پولیس اب جرمانے کی رقم خود وصول نہیں کرتی بلکہ عرصہ دراز سے یہ کام غالباً انہوں نے بینک کے اہلکاروں کو سونپ دیا ہےجوکسی قسم کی وردی میں ملبوس نہیں ہوتے ۔ایسا ہی تجربہ ایم ٹیگ لگواتے وقت بھی ہوا،جس نوجوان کے ذمے یہ کام تھا ،بقول مشتاق یوسفی ، وہ شاید دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا تھا۔اُس نے اپنا کام تو تندہی سے کردیا مگر کیا ہی اچھا ہو اگراُس غریب کو صاف ستھری وردی پہنا دی جائے ، اِس سے یہ تاثر ختم ہو گا کہ موٹر وے پولیس نے سب کچھ آؤٹ سورس کر رکھا ہے اور خود دھنیا پی کر سو رہی ہے۔ اگر کوئی گاڑی موٹر وے پر خراب ہوجاتی ہے تو اسے قریبی سروس ایریا کی ورکشاپ میں مفت ٹھیک کیا جاتا ہےمگر یہ بات صرف کاغذوں کی حد تک ہے ،حقیقت وہی ہے جو موٹر وے کی طریقت ہے۔سفر فقط منزل پر پہنچنے کا نام تو نہیں،سفر کی لذت تو تھکان میں بھی مل جاتی ہے بشرطیکہ ہمسفر اچھا ہو،اور میں تو اُس کے ہمراہ تھا جو میری زندگی کی ہمسفر ہے، اگراُس جیون جوگی کا ساتھ نہ ہوتا تو۔لیکن میں نے زندگی میں یہ ’اگر‘ لگا کر کبھی سوچا ہی نہیں ، یہ’اگر‘ لگانا ممکن ہی نہیں تھا ،یہ اُس کے ساتھ لگایا جاتاہے جس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور کیا جا سکےجبکہ میں نے ایسا تصور نہیں کیا۔کچھ زندگی گزر گئی ہے،کچھ گزر جائے گی، حاصلِ زندگی میری ہمسفر ہے!