سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں چوری کے الزام میں نامزد ملزم کاشف کی ضمانت کے کیس کے موقع پر ملک بھر میں ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس جاری ہونے سے متعلق حکام سے تفصیلات طلب کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ اور تمام محکمہ داخلہ سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیے۔
سپریم کورٹ نے تمام آئی جیز کو بھی نوٹس جاری کرے جبکہ اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے اور حکم نامے کی کاپی بھجوانے کی بھی ہدایت کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس کے گھر سے اسلحہ چوری ہوا پولیس نے اس سے لائسنس تک کا نہیں پوچھا، مالک خود اقرار کررہا ہے 2 کلاشنکوف اور ایک پستول سمیت دیگر قیمتی چیزیں چوری ہوئیں۔
’مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ کلاشنکوف کا لائسنس لیں‘
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ آپ کلاشنکوف کا لائسنس لیں، منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس طرح کالے شیشے لگا کر بڑی بڑی گاڑیوں میں کلاشنکوف لے کر دنیا میں کہیں کوئی نہیں گھومتا۔
عدالت میں چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کیا کہ آپ کے پاس کلاشنکوف کہاں سے آئی؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی ایسے کلاشنکوف کے کاغذ دے رہے ہیں تو کیوں ناں ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے؟ ہم سیکریٹری داخلہ کو لکھ دیتے ہیں تمام کلاشنکوف اور ان کے لائسنس واپس کریں۔
’اسکول اور بازار جاؤ تو لوگ کلاشنکوف لے کر کھڑے نظر آتے ہیں‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسکول اور بازار جاؤ تو لوگ کلاشنکوف لے کر کھڑے نظر آتے ہیں، ڈرتے ہیں تو گھروں میں رہیں، باہر اس لیے نکلتے ہیں کہ لوگوں کو ڈرایا جائے اور اپنا اثر و رسوخ دکھا سکیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں کلاشنکوف لے کر گھروں کے باہر گارڈ کھڑے ہیں، کالے شیشے کے ساتھ لوگ کلاشنکوف لے کر جاتے ہیں اور پولیس کی ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیسے پتہ ہوگا کلاشنکوف والے دہشتگرد تھے یا کوئی اور تھے، بغیر لائسنس کا اسلحہ رکھنا جرم ہے اور پولیس نے انکوائری میں مالک سے پوچھا تک نہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ملزم کاشف کی 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منطور کرلی۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔