• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کہ ٹھہرے کشتہ سُلطانی و مُلّائی و پیری۔ ہمیں علمی باتیں گراں گزرتی ہیں۔ آج پھر علم کی دُنیا کے بادشاہ ارسطو کا تذکرہ مقصود ہے یہ مضمون بھی جمیل جالبی صاحب کی عنایات میں سے ہے۔

ارسطو ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہے جس کا نام رہتی دُنیا تک زندہ رہے گا۔ یونان میں پیدا ہوا۔ باپ بادشاہ کا معالج تھا۔ بچپن میں باپ کے زیراثر طب کی تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں اسے افلاطون کا شاگرد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ افلاطون اس کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا۔ اس زمانے میں کاغذ تھا نہ چھاپے خانے، نجانے کتابیں کیسے لکھی جاتی تھیں؟ لیکن ارسطو نے پھر بھی بہت سی کتابیں جمع کرلیں۔ اس کی حیرت انگیز ذہانت کے چرچے چار سُو پھیل گئے۔ بادشاہ نے اسے اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کر دیا۔ بیٹا آگے چل کر سکندر اعظم کے نام سے مشہور ہوا،اس نے اپنے اُستاد کا بہت احترام کیا۔

پچاس سال کی عُمر میں ارسطو نے ایک اسکول قائم کیا،جس میں طلبا کو کئی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسکول کا نام ’’لائی سی ایم‘‘ تھا۔ اس اسکول میں سائنس اور حیاتیات پر تحقیق کی جاتی تھیں۔ پھر بدقسمتی کا دور شروع ہوا،جب سکندر اعظم عالم جوانی میں مر گیا، اس کے مرتے ہی بغاوتیں شروع ہوگئیں۔ ارسطو ایتھنز چھوڑ کر چلا گیا اور ایک سال کے بعد وفات پا گیا۔ یہ سال 322 قبل مسیح تھا۔

ارسطو علم و دانش کا چشمہ تھا۔ ہر وقت اس کے مُنہ سے علم و دانش کے پُھول جھڑتے رہتے تھے،گو ارسطو کا بہت کلام محفوظ رہ گیا ہےلیکن اتنا ہی ضائع بھی ہوا ہے۔ دو ہزار سال گزر جانے کے بعد بھی ارسطو کی باتیں پتھر پر لکیر ہیں۔

علم کا کون سا موضوع ایسا ہے جس پر ارسطو نے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ سائنس، فلسفہ، منطق، شاعری… ارسطو کی اہم ترین تصنیف بوطیقا کہلاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی کتابیں کس طرح محفوظ رہ گئیں جب کہ نہ کاغذ ایجاد ہوا تھا،نہ چھاپہ خانے، اتنا زیادہ علم کس چیز پر لکھا گیا اور کس طرح محفوظ رکھا گیا اور یہ کہ وہ ہزاروں سال آگے کس طرح دیکھ لیتا تھا۔ آج کے اہل علم و دانش ارسطو کے کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے فن کا امام تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ارسطو کی تصنیف بوطیقاان کے مرنے کے 1800سال بعد دُنیائے علم میں اس وقت آئی جب اس کا عربی زبان سے لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا۔ چند سال کے بعد اس کا یونانی متن بھی شائع ہوا ،اس وقت ہندوستان میں بابر بادشاہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بوطیقا میں ارسطو نے فن شاعری اور فن تنقید کو موضوع خاص بنایا ہے۔ فن شاعری کا جواز پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ تنقید کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ علمی بحثیں کسی معاشرے کی ذہنی صحت کے لئے مفید بلکہ ضروری ہیں اور معاشرے کی کتھارسس کرتے ہیں۔ 

آسان زبان میں معاشرے کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ڈراموں میں ٹریجڈی کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ٹریجڈی کا مقصد رُوح کا تزکیہ ہے خوف و رحم کے جذبات اُمید اور ہمت میں بدل جاتے ہیں… سیکڑوں برس کے بعد دُنیا میں درجنوں بہترین ٹریجڈیز لکھی گئیں۔ شیکسپئرکی ٹریجڈیز، ہیملٹ اور میکبیتھ کو کون بُھول سکتا ہے۔ کچھ علما کا خیال ہے کہ بوطیقا پوری کی پوری ہم تک نہیں پہنچی۔ اس میں ارسطو نے نقل، نیچر، شاعری اور ٹریجڈی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ 

شاعری کو ایک آفاقی چیز قرار دیا ہے۔ ارسطو کے خیال میں فن جمالیات میں نقل ایک بہت اہم چیز ہے۔ ایک مصوّر یا شاعر کسی بہت خُوبصورت مقام پر جاتے ہیں۔ شاعر منظر کے حُسن کو اپنے الفاظ میں قید کر لیتا ہے۔ مصوّر رنگوں اور برش کی مدد سے منظر کو قید کرتا ہے۔ نقل کا مطلب ہے کہ حقیقی چیز کی مانند کوئی چیز تخلیق کرنا۔ عالم مثال میں اصل موجود ہے اور اس دُنیا میں جو ہے وہ اس کی نقل ہے۔

اِنسان اپنے پانچ حواس کے ذریعے کسی شے کا ادراک کرتا ہے اگرچہ ہر شےایک مثالی ہیئت میں ہے، خود اس شے سے اس کا ادھورا ادراک ہوتا ہے۔ لیکن فنکار کے ذہن میں اس کا مکمل ادراک موجود ہوتا ہے۔ وہ اس کے بھرپور اظہار کی کوشش کرتا ہے۔ ڈرامے کے ذریعے، شاعری کے ذریعے، مصوّری کے ذریعے، موسیقی کے ذریعے یا کسی اور ذریعے سے۔ اس طرح وہ عالم مثال کو سامنے لے آتا ہے۔ ہم اپنے حواس کے ذریعے جس دُنیا کو محسوس کرتے ہیں وہ حقیقت کا نامکمل اظہار ہے۔ 

طبعی دُنیا میں جو شکلیں ہمیں نظر آتی ہیں وہ مسخ شُدہ ہیں۔ ایک عالم یا فلسفی کا کام یہ ہے کہ وہ ان مسخ شُدہ شکلوں کے اندر حقیقت اور ان قوتوں کو تلاش کرے جو ہیئتی کا سبب ہیں اور اسے حرکت میں لاتی ہیں۔ شاعر کا بھی وہی کام ہے جو فلسفی کا ہے اس نظریئے کے مطابق نقل ایک تخلیقی عمل ہے۔ فلسفہ ہو کہ شاعری۔ دونوں عینی حقیقت تک دو مختلف راستوں سے پہنچتے ہیں۔

فنون لطیفہ صرف خارجی حقائق کا اظہار نہیں کرتے بلکہ وہ انسان کے اندر کی کائنات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ غالب کے کسی شعر کو لیجئے،جہاں آپ کو اس کے اندر کوئی حقیقت نظر آئے، وہاں وہ غالب کے اندر پوشیدہ ایک جہانِ اضطراب اور ایک کائنات بھی محسوس ہوگی۔ ارسطو کے مطابق شاعر کا کام یہ نہیں ہے کہ جو کچھ حقیقت میں گزرا اس کو فی الواقعی جوں کا توں بیان کر دے بلکہ ایسی باتیں جو ہو سکتی تھیں انہیں بھی اپنے تصوّر کو کام میں لاکر بیان کرے۔ مؤرّخ اور شاعر میں کیا فرق ہے۔ مؤرّخ محض وہ باتیں بیان کرتا ہے جو ہو چکی ہیں… شاعر ایسی چیزوں کو بیان کرتا ہے جو ہو سکتی ہیں۔ شاعری آفاقی صداقتوں سے سروکار رکھتی ہے جبکہ تاریخ مخصوص واقعات سے سروکار رکھتی ہے۔ 

پلاٹ کے متعلق ارسطو کہتا ہے، اس کو ایک مکمل وحدت کا مظہر ہونا چاہئے۔ اس کے مختلف حصوں کی ترتیب ایسی ہونا چاہئے کہ اگر کسی ایک حصے کو نکال دیا جائے یا اس کی جگہ بدل دی جائے تو وحدت کا تاثر ختم ہو جائے۔ اس کا اطلاق وہ قصّے پر کرتا ہے جس کی بہترین شکل ناول یا افسانہ ہے۔ ٹریجڈی میں پلاٹ کی ترتیب ایسی ہونا چاہئے کہ اسے اسٹیج پر دیکھے بغیر محض سُن کر بھی سُننے والے میں خوف اور ترس کا جذبہ بیدار ہو جائے۔ ارسطو نے جو اُصول قائم کئے اُن پر مغرب کی کلاسیکل تنقید کی عمارت قائم ہوئی۔ 

ٹریجڈی کا مقصد رُوح کا تزکیہ ہے لیکن اس فنّی اَثر تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے سینز میں، اس کے کرداروں میں، اس کے طرز میں، کورس میں اور تماشے کی نوعیت میں ایک توازن ہو۔ موزونیت ہو، وحدت اَثر ہو،قرین قیاس ہوں… ارسطو کی تصنیف بوطیقا نے مغرب کے اَدب اور شاعری پر بہت اَثر ڈالا لیکن اُردو شاعری اس کے فیض سے محروم رہی۔ بوطیقا کا کمال یہ ہے کہ اس کے موضوعات آج بھی تر و تازہ ہیں۔ ہمارا ذہن ابھی تک ارسطو کی سوچ سے آگے نہیں بڑھا۔ اقبالؒ کو احساس تھا اس لئے انہوں نے کہا۔

گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے