ستمبر1984میں بی بی سی ٹیلی ویژن ( ایشین میگزین)کو، جناب میر خلیل الرحمٰن نےانٹرویودیا ،جو اردو مرکز کے سربراہ ،افتخار عارف نےلیا تھا۔پاکستان میں اُردو صحافت کے حوالے سے میر صاحب نےبتا یا کہ ہم نے صحافت کے ہرشعبہ میں بتدریج ترقی کی ہے۔ اُمیدہے کہ آزادی صحافت کے سلسلے میں بھی بہتر صورت ضرور سامنے آئے گی ۔
اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے صحافت کے حوالے سے اتنا طویل سفر طے کیا ہے اب آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو کیا کسی اطمینان و طمانیت کا احساس ہوتا ہے؟ میر صاحب نے کہا،بہت اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص محنت کرے اور پھر محنت کا پھل اس کو ملے تو اسے اطمینان ہونا ہی چاہئے لیکن ایسا اطمینان نہیں ہے کہ آپ چادر تان کر سو جائیں۔ اس میں مسلسل جدوجہد ہوتی ہے اور کسی دن بھی ایسی بات نہیں ہوسکتی کہ دُکان بند کر کے اطمینان سے گھر چلے جائیں۔
اُردو صحافت اور جنوبی ایشیا کی صحافت کے مختلف ادوارکے بارے میں میر صاحب نے کہا، میں نے دہلی کا دور، آزادی سے پہلے کا اور پھر آزادی مل جانے کے بعد کا دوردیکھا، اس کے بعد سے اب تک کا جو عرصہ گزرا اس عرصہ میں دُوسری چیزوں کی طرح صحافت میں بھی بتدریج ترقی ہوتی گئی۔ جیسے موٹر، ٹیلی ویژن، ٹیلیفون میں ترقی ہوئی اسی طرح صحافت میں ہوئی۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں ، پرنٹنگ اور کمپوزنگ کےنئےنئے طریقے سامنے آتےگئے ۔پاکستان کی صحافت میں تبدیلیاں بہت سی آئیں ،خاص طور پر مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان کی صحافت نے اردگرد کے علاقہ کی نسبت بہت زیادہ ترقی کی ہے۔
یہ ترقی رنگین چھپائی، خبروں، ادارتی مواد، فیچر رائٹنگ کے علاوہ ہر شعبہ میں ہوئی ہے۔ نئے نئے لکھنے والے متعارف کرائے گئے ہیں لیکن یہ ترقی اُردو صحافت میں ہوئی، انگریزی صحافت میں نہیں ہو سکی۔ اس سوال کے جواب میں کہ ،ہم نے بہت ترقی کی ہے لیکن کیا لکھا جائے، کیا نہ لکھا جائے، اس بارے میں میر صاحب نے کہا، بات یہ ہے کہ 1947ء میں پاکستان قائم ہوا جس کے بعد ہر طرح کے دور ہم نے دیکھے۔
قائداعظم کا دور کچھ عرصہ دیکھا پھر خان لیاقت علی خان کا دور بھی دیکھا پھر کئی وزرائے اعظم اور ان کی کابینائیں آئیں۔ سب کے دور دیکھے۔ ایک بات یہ ہوتی ہے کہ کوئی حکمران بنیادی طور پر آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف ہو۔ ابتدائی دور میں، میں نے اس قسم کے حکمران نہیں دیکھے۔ حساس پن اور ذاتی کمزوریاں ہر ایک میں ہوتی ہیں ،مگر اس کے بعد کچھ ایسے دور آئے کہ لوگوں نے یہ بہتر سمجھا کہ پریس کو زیادہ سے زیادہ مقید کیا جائے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور پریس وہی کام کرے جوہم اس سے کرانا چاہیں۔ مجھ سے بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بھئی آج کل آزادیٔ صحافت کا کیا حال ہے؟ میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ جناب دیکھئے ہمارے ملک میں مارشل لا ہے اور مارشل لا میں جو بنیادی حقوق سلب کئے جاتے ہیں وہ سلب ہیں،اس کے باعث ہمارے اخبارات کے حقوق بھی سلب ہیں ہم بھی اسی کشتی میں ہیں جس میں پاکستان کے دُوسرے شہری سفر کررہے ہیں۔
اسی میں ہم بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن بہتری کی صورت ضرور آئے گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کی چیزیں، اس قسم کے قوانین، اس قسم کی پابندیاں بہت کم عرصہ کے لئے کامیاب ہوئی ہیں ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بہتر صورت ضرور سامنے آئے گی۔
اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیجئے کہ جو ہمارے آنے والے حکمران ہیں۔ اگر الیکشن ہوں گے تو الیکشن میں جو اُمیدوار ہیں ان سب کا نعرہ ایک ہی ہے کہ وہ پریس کو آزاد کریں گے۔ وہ شہری آزادیاں بحال کریں گے یعنی وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ اس کے بغیر اُن کا کام نہیں چل سکتا۔ یہ بڑی اُمید افزا بات ہے کہ کم از کم ان کے دل میں یہ ہے۔اب یہ دوسری بات ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد یہ وعدے بھول جائیں جیسا کہ ہمارے کچھ پچھلے حکمران بھول گئے۔