مرتب: رضیہ فرید
کہاجاتا ہے، انسانوں کوجانچنے اور پہچاننے کے بہت سے پیمانے ہوتے ہیں، زاویے ہوتے ہیں، اس کے لیے کبھی ہم اپنی آنکھوں پر اعتبار کرتے ہیں، کبھی اپنے احساسات پر، کبھی اپنوں کی رائے پر، کبھی پرائے لوگوں کے تاثرات پر، میرصاحب کے بارے میں کیا اپنے کیا پرائے، سب کہتے تھے کہ، وہ خبر بننے سے پہلے اسے اڑا لیتے تھے۔اُڑتی چڑیا کے پَر گِننے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ستارہ شناس نہ ہونے کے باوجود یہ پتا چلا لیتے تھے کہ ہوا کارخ کس طرف کو ہے اور مستقبل میں کیا حالات پیش آنے والے ہیں۔ اُنہوں نے مخالف طوفانوں کے تھپیڑوں میں جنگ کے چراغ کو مدہم نہ ہونے دیا۔
ان کا دھیما انداز گفتگو، مدلل انداز بیاں مخالف کوبھی اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیتا تھا۔ ان کے مزاج میں حلم، بردباری اور علم پروری ایسی صفات تھیں، جنہوں نے ان کو ہردل عزیز بنادیا تھا ۔ سچ تویہ ہے کہ اُن کی اصول پرستی، راست بازی وراست گوئی میں اقبال کا مردِ مومن نظر آتا تھا ۔ صحافت کے مسلمہ قائد کی حیثیت سے وہ اک جہاں تازہ آباد کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی صحافتی امپائر بنا ڈالی اور بغیر تقاضائے صلہ وتعریف اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے تاریخ صحافت رقم کرتے چلے گئے۔
میرصاحب کو اخبارات کو کام یاب بنانے کاجوفن آتاتھا ، وہ اُنہوں نے کسی شخص یا ادارے سے نہیں سیکھا تھا، یہ اُن کی غیر معمولی ذہانت، تجربہ اور استقامت تھی کہ وہ عوام کے ذوقِ مطالعہ کو پرکھتے اور پھر جدید وقدیم صحافت،پرانی اقدار اور نئی نسل کے تقاضوں کو سموکر اپنے اخبارات کوتازہ بہ تازہ رکھتے۔ میرصاحب نے صحافت کے تمام شعبوں میں اپنی انفرادیت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان کی جدت پسندی نے اردو اور انگریزی صحافت میں نئی نئی راہیں تلاش کیں۔
وہ تضع سے مبرا،اخباری دنیا کے مردِ میداں تھے۔ جذبات کے تابع نہیں تھے، اور نہ ہی پیشہ ورانہ معمولات میں اپنی ذات ، اپنی انا کو داخل ہونے دیا۔ اُن کا شمار عامل صحافیوں اور صحافت کے محنت کشوں میں ہوتا تھا ۔ ان کی حیثیت ایک تاریخ ساز صحافی کی تھی ۔ وہ خودساز شخصیت تھے۔ انہوں نے کسی مخصوص پارٹی کا نقیب بننے کے بجائے ہمیشہ ملک وملت کا ترجمان بننے کو ترجیح دی ۔ انہوں نے جنگ اخبار کے ذریعے ایک طرف تحریک پاکستان کو آگے بڑھایا اور دوسری طرف قیام پاکستان کے بعدان مقاصد کو ہمیشہ عزیز رکھا، جس کی بنیاد پریہ ملک وجود میں آیا۔ وہ کسی حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے وابستہ نہیں ہوئے۔
ان کی وفاداری اس دیس اور اس سرزمین سے رہی۔ انہوں نے غریبوں کے دلوں کی دھڑکنیں سننے میں بھی کبھی کوتاہی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے لگائے ہوئے پودے خواص کے لیے بھی ہیں اور عوام کے لیے بھی۔ انہوں نے اپنا خون پسینہ اس شجر سایہ دار وثمر آور کی آبیاری میں صرف کیا۔ اللہ نے انہیں جوہر شناس آنکھیں دیں۔ صحافت ہی نہیں، قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے، جو ’’ وژن‘‘ کی نعمت سے میر صاحب کی طرح سر فراز کئے گئے ہوں۔ ان کی زندگی کارناموں کی طویل فہرست سے عبارت ہے۔
ان کی شبانہ روز تگ ودومیں آزادی صحافت کے ایسے سنہری اوراق بھی ہیں،جن پر صرف اورصرف میر صاحب کی مہر ثبت ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں میں احساس ذمے داری، محنت کی عادت اور ٹیم اسپرٹ اس خوب صورتی سے پیدا کرتے کہ کارکنوں کے اندر یہ تبدیلیاں رونما بھی ہو جاتیں اور انہیں کوئی جھٹکا بھی نہیں لگتا۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ وہ مختلف عادات و اطوار، تصورات و نظریات، اہلیت و استعداد رکھنے والے کارکنوں میں سے ایسی ٹیم پیدا کرلیتے، جوکوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اُن کی محبت کا محور ’’جنگ‘‘ تھا۔آج میرصحافت کی برسی ہےاس موقع پر ذیل میں میرصاحب کے اے پی این ایس کی ایک تقریب سےخطاب کے چیدہ چیدہ نکات اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے انٹرویو سے اقتباسات نذر قارئین۔