• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعتوں کو عوام کی آواز اورانتخابات کو وہ ذریعہ یا طریقہ قرار دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے یہ آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی ہے اور جمہوری معاشروں میں اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ پس کسی معاشرے میں جمہوری روایات کے فرو غ کے لیے ایسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بدقسمتی سے کبھی بھی عوام کی خواہشات اور امنگوں کا پوری طرح احترام نہیں کیا گیا۔

انتخابات سیاسی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ عوام کو ا پنے نظریات، خیالات، مستقبل کے بارے میں ا پنے تصو رات اور منشور سے آگاہ کریں، ملکی اور بین الاقوامی معا ملا ت پر اپنا نقطۂ نظر واضح کریں اور عوام کی سیاسی تربیت کر یں۔ دوسری جانب عوام کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی امور کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نقطہ ہائے نظر اور ملک کے معاملات چلانے کے لیے ان کی تر جیحا ت سے واقفیت حاصل کریں۔ ساری دنیا میں سیاسی جما عتیں اور انتخابات میں آزادانہ حیثیت میں حصہ لینے والے امیدوار انتخابات کے موقعےپر عوام کے سا منے اپنا منشور پیش کرتے ہیں، جس کی روشنی میں رائے د ہندگان یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ انتخابات میں کس کے حق میں اپنی رائے استعمال کریں گے۔

پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار کسی نہ کسی شکل میں انتخابات کے موقعےپر اپنا منشور پیش کرتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران بینرز، پوسٹرز، پمفلٹس، اسٹیکرز، وال چاکنگ وغیرہ کے ذریعے اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔پا کستان کی انتخابی سیاست میں کچھ عرصے سے بعض نئے عو ا مل داخل ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے بعض استثنائی صورتوں کے علاوہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے ا نتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے حصّہ لینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

اس بات کی باقاعدہ تصدیق ماضی میں خود ایک اہم سیاست داں بھی کرچکے ہیں۔ جنوری 2008ء میں ہو نے والے انتخابات کے لیے ا لیکشن کمیشن آف پا کستا ن نے ہدایت کی تھی کہ قومی اسمبلی کی نشست کے ا میدوار اپنی انتخابی مہم کے اخراجات کو پندرہ لاکھ اور صو با ئی اسمبلی کی نشست کے امیدوار دس لاکھ روپے تک محدود رکھیں، لیکن6دسمبر2007ء کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل نے ایک خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعت کے مطالبے پر انتخابی اخراجات کی مقررہ حد کی پابندی اٹھالی گئی ہے، کیوں کہ کوئی بھی امیدوار اس ضابطۂ اخلاق کی پابندی نہیں کرتا۔دوسری جانب بعض آزاد ذرایع کے مطابق انتخابات میں حصّہ لینے والے زیادہ تر امیدوار ا لیکشن کمیشن کی جانب سے مقررکردہ حد سے کئی گنا زیادہ رقم اپنی انتخابی مہم پر خرچ کرتے ہیں۔

اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجا ت کی حدایک کروڑاور صوبائی اسمبلی کی نشست کے امیدوار کے لیے 40لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ یادرہے کہ2018کے انتخابات میں آزاد ذرایع نے قومی اور صوبائی اسمبلیز کی کُل عمومی نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کے مجمو عی ا خراجا ت کا تخمینہ 26 ارب 40 کروڑ 60لاکھ روپے تک لگایا تھا۔

آزاد ذرایع کے مطابق ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ان انتخابات کے سبب 35 ارب روپے سے زاید کی معاشی سرگرمیاں ہوئی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2008ء کے بعد سے ہونے والےتین عام انتخابات میں امیدواروں نے الیکشن کمیشن کی طے کردہ حد سے دس گنا زاید رقم خرچ کی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست کے کے امیدواروں نے اوسطاً چار کروڑ اور صوبائی اسمبلی کی نشست کےامیدواروں نےاوسطا دو کروڑ روپے سے کم رقم خرچ نہیں کی تھی۔

الیکشن کی وجہ سے ایک جانب مزدوروں، مختلف اقسام کے ہنر مندوں اور بے روز گا ر و ں کے لیے روزگار کے مواقعےپیدا ہوتے ہیں تو دوسری جانب امیدواروں کی جانب سے مختلف مزارات پر لنگر ،غر یبوں میں کھانے کی تقسیم اور انتخابی دفاتر میں وو ٹر ز کی مشر و با ت اور کھانوں سے تواضع کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی خرید و فروخت سے وابستہ ا فر ا د کےلیے بھی آمدن کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر گزشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد کو مد نظر رکھا جاتا تو قومی اسمبلی کے امیدواروں کے مجموعی ا خر اجات کا تخمینہ 13 ارب 83 کر وڑ 60 لاکھ روپے اورچاروں صوبائی اسمبلیز کے امیدواروں کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 12 ارب 57 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتا۔

الیکشن کمیشن اور انتخابی اخراجات کی نگرانی

آزاد ذرایع کافی عرصے سے انتخابی امیدواروں کی جانب سے مقررہ حد سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرنےکی شکایت کررہے ہیں۔ چناں چہ ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے پچھلے انتخابات میں ریٹرننگ افسران سے ما نیٹر نگ ٹیمزکے لیے نام مانگ لیےتھے اور کہا گیاتھا کہ عد لیہ سے ہٹ کر بھی سرکاری محکموں کےدیانت دار افراد کے نام دیے جاسکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ریٹرننگ افسران نے مانیٹرنگ ٹیمز کےلیے نام بھجوا دیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ انتخابی اخرا جا ت سے متعلق سخت نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے میں کاغذات نام زدگی داخل کرنے کی فیس یا سکیورٹی ڈپازٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے امیدوار کےلیے فیس 30 ہزارروپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 20 ہزارروپے کر دی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق اگر امیدوار اپنے حلقوں میں25فی صد سے کم ووٹ حاصل کریں گے تو یہ رقم حکومت ضبط کرلے گی۔ 2018ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھا تھا کہ6 ہزار امیدوار25فی صد سے زاید ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہےتھے، لہذا ان کی جانب سے جمع کرایا گیا سکیورٹی ڈپازٹ ضبط کرلیا گیا تھا۔

انتخابی گوشوارے جمع کرانے کی پابندی

الیکشن کمیشن کے قواعدو ضوابط کے مطابق قومی اسمبلی ، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیز کے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ میعاد میں انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کرائیں۔ اس پابندی کی وجہ سے یہ گوشوارے جمع تو کرادیے جاتے ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ اس بارے میں یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ 

امیدوار انتخابی مہم کے دوران اپنا نقطۂ نظر عوام تک پہنچانے کے لیے کس قسم کی تشہیری سرگرمیاں کرتے ہیں، اس ضمن میں کن افراد سے رجوع کرتے ہیں اور ان سرگرمیوں پر کتنی رقم خرچ کی جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے طباعت اور انتخابی تشہیر کے کام سے وابستہ بعض افراد کو ٹٹولا گیا۔ ان سے حاصل ہونے والی معلومات ہوش اڑادینے کے لیےکافی ہیں۔

آزاد ذرایع کے مطابق اس مرتبہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے ایک امیدوار صرف اشتہاری مہم کی مد میں دو تا تین کروڑ روپےکے اخراجات کر رہا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوار ایک تا ڈیڑھ کروڑ روپےکے اخراجات کر رہا ہے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کی حد سے کہیں زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ امیدواروں کو بل بورڈز اور پینا فلیکس پر اپنی تشہیری مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بڑا اشتہار 23 انچ سے بڑا نہیں ہو سکتا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ میں شاید ہی کسی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس اصول پر عمل کیا ہو۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے حربوں میں پیسے کا بے دریغ استعمال ایک اہم حربہ سمجھا جاتاہے اور کروڑوں روپےکے ا خر ا جات کیے جاتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ اشتہاری مہم میں اڑائی جانے والی رقوم انتخابات جیتنے کے بعد مختلف غیر قانونی طریقوں سے بہت بھاری سود سمیت وصول کی جا تی ہیں۔

چھبیس، ستائیس برس سے پینٹر اور آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرنے والےنثار احمد کے مطابق وہ نہ صرف ہر طرح کے بینرز بناتے ہیں، بلکہ دیواروں پر تشہیری مواد لکھتے اور اسکرین پرنٹنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کے بہ قول انتخابات کے دوران ان کے پاس تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ کام کرانے آتے ہیں۔ تاہم امیدوار خود آنےکے بجائے عموماً اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھیجتے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے عموماً امیدوار سوتی کپڑوں کے بینرز بنواتے ہیں۔ سوتی کپڑے میں ڈک بھی شامل ہے، جو زین کی طرح موٹا ہوتا ہے۔

امیدوار سڑکوں پر لگانے کے لیے عموماً 3 تا 4 میٹر لمبے اور کھمبوں وغیرہ پر لگانے کے لیے ڈیڑھ تا دو میٹر طویل بینر بنواتے ہیں۔ ان کے مطابق انتخابات کے دوران امیدوار عموماً دیواروں پر اپنے حق میں چاکنگ بھی کراتے ہیں، جو عام طور پر 8×4،10×4 اور 12×4 فیٹ رقبے پر کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق بعض امیدواروں کے انتخابی نشانات ذرا مشکل ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں بینر بنانے یا وال چاکنگ کرنے میں کچھ مشکل پیش آتی ہے اور نسبتاً زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ اسکرین پرنٹنگ کی تیکنیک متعارف ہونے سے کام میں صفائی آگئی ہے اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اس تیکنیک کی مدد سے وہ عام سائز کے 100 بینرز، ایک دن میں بنا سکتے ہیں۔

اگر ایسے بینر پر امیدوار کی تصویر اور کوئی نشان بنانا ہو تو ہاف ٹون کا تاثر پیدا کرنے کے لیے چھپائی کے لیے فلم بنوانا پڑ تی ہے۔ تاہم اسکرین پرنٹنگ کی مدد سے بینر بنوانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کم از کم 50 بینر بنوائیں اور کام کا مناسب معاوضہ دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ تعداد سے کم بینرز بنانے کی صورت میں انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ وہ اب حتی المقدور انتخابی مہم کا کام کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ انتخابات کے ایام میں ان کے پاس دیگر کام نسبتاً کم آتے ہیں ،ایسے میں اگر وہ انتخابی مہم کا کام بھی نہ کریں تو انہیں مالی مشکلات آ گھیرتی ہیں۔

فریئر مارکیٹ، کراچی میں طباعتی سرگرمیوں کا ایک بڑا اور پرانا مرکز ہے۔ یہاں یہ کام کرنے والے محمد رفیع، احسان اور دیگر افراد کے مطابق انتخابات کے موقعےپر یہاں ہینڈ بلز، بینرز، ووٹر سلپس اور اسٹیکرز وغیرہ کی طباعت کے لیے امیدواروں کے کارکنان آتے ہیں۔ ہینڈ بلز عموماً 11.5×9 سائز کے بنوائے جاتے ہیں۔ آج کل یہ عموماً چار رنگوں میں اور ہر امیدوار تقریباً لاکھ کی تعداد میں بنواتا ہے۔ 

موٹر گاڑیوں پر لگانے کے لیے 4×6 سائز کے 5 تا7 ہزار اسٹیکر زبنوائے جاتے ہیں۔ شاہ راہوں پر لگانے کے لیے 2 تا3 ہزار پوسٹر ،چار رنگوں میں 30×20 سائز کے طبع کرائے جاتے ہیں۔ عموماً آزاد امیدوار انتخابی مہم پر کم سے کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ وہ عام طور سے 11.5×9 کے 8 تا 10 ہزار پوسٹرز، 2 تا5 ہزار اسٹیکرز اور 100 تا 200 بینرز بنواتے ہیں، جس پرایک ڈھائی ،تین لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ان افراد کے مطابق آج کل زیادہ تر انتخابی امیدوار چار رنگوں والے پوسٹر طبع کرواتے ہیں، جن پر ان کی تصویر اور انتخابی نشان نمایاں ہوتا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ تر آزاد، نسبتاً کم مالی استطاعت رکھنے والے اور صوبے کے دیگر علاقوں سے امیدوار طباعت کے لیے آتے ہیں۔ پہلے کی نسبت اب طباعت آسان اورکسی حد تک سستی ہوگئی ہے، کیوں کہ چین سے پلیٹ،اسٹیکر،فلم وغیرہ سستے داموں آرہی ہے۔ کمپیوٹر کی آمد سے کاتب اور ڈیزائنرز کا جھنجھٹ بہت کم ہوگیا ہے۔ 

جگہ جگہ امیج سیٹرز لگ گئے ہیں، جدید طباعتی مشینیں آ گئی ہیں اور فلم بنانے والوں کے ملازمین دکان پر آ کر خدمات فراہم کردیتے ہیں۔ اس مرکز میں پرنٹنگ پریس والے کام کرنے سے قبل تھوڑی رقم ایڈوانس کے طور پر طلب کرتے ہیں ۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں یہاں سے امیدواروں نے کافی طباعتی کام کرایا، جس میں 11.5×9 سائز کے پوسٹرز، ہینڈبلز، اسٹیکرز، ووٹر سلپس اور بیجز کی طباعت شامل تھی۔

برنس روڈ کے اردگرد کا علاقہ بھی طباعت کی سرگرمیوں کا بڑا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں راجا اسکوائر اور المومن پلازا میں طباعت کے کاروبار سے وابستہ امین میمن ، غلام نبی، ہارون اور سہیل خان کے مطابق پہلے سندھ اور بلوچستان کے متعدد شہروں اور قصبوں سے لوگ طباعت کا کام کرانے کے لیے کراچی آتے تھے۔ انتخابات کے مو قعے پر اس مقصد کے لیے کراچی آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ لیکن چند برسوں میں سندھ اور بلو چستان کے کئی مقامات پر طباعت کے مراکز قائم ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کمپیوٹر کی آمد ہے۔ 

پہلے طباعت کے لیے آرٹسٹ، کاتب، بلاک بنانے والے اور کاپی جوڑنے والوں کی ضرورت ہوتی تھی، اب کمپیوٹر کی مدد سے ایک شخص بہ آسانی یہ کام کر لیتا ہے اور سی ڈی یا یو ایس بی پر اسے منتقل کر کے کسی پرنٹنگ پریس میں لے جا کر طبع کروا لیتاہے۔اب زیادہ تر بینر اسکرین پرنٹنگ کے ذریعے بنتے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران استعمال ہونے والا تشہیر ی مواد اور نعرے پہلے جیسے ہی ہوتے ہیں، مثلاً فلاں لیڈر سب سے بہتر، بے باک قیادت، نہ جھکنے والا،نہ دبنے والا،نہ بکنے والا، آپ کے قیمتی ووٹ کا حق دار، امنگوں اور خواہشات کا ترجمان وغیرہ وغیرہ۔

ان افراد کے مطابق اگر چار رنگوں میں اسکرین پرنٹنگ کی مدد سے 100 بینرز بنوائے جائیں تو چالیس تا پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ رسی، لکڑی، گاڑی اورسیڑھی کے ساتھ فی بینر باندھنے کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپے طلب کیا جاتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے کم از کم 500 تا 700 بینرز درکار ہوتے ہیں۔

انتخابی مہم کا بجٹ

فریئر مارکیٹ میں طباعت کا کام کرنے والوں کے مطابق اب قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار تشہیری مہم پر تقریبا ایک کروڑ اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار پچاس تا ساٹھ لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔ برنس روڈ کے علاقے میں یہ کام کرنے والوں کے مطابق کراچی میں 1985ء تک قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار 8 تا 10 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی نشست کا امیدوار 5 تا7 لاکھ روپے اس مقصد کے لیے خرچ کرتا تھا، لیکن 1985ء کے بعد کراچی میں انتخابی سیاست کے انداز بدل گئے تھے۔ 

اس شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے مقابلوں میں د یگر سیاسی جماعتوں کے اور آزاد امیدواروں کی پوزیشن عموماً بہت کم زور ہوتی تھی، لہٰذا ایسے امیدوار انتخابات کے دوران دو،چار لاکھ روپے خرچ کرتے تھے۔ تاہم اس مرتبہ صورت حال نے پھر پلٹا کھایا ہے اور دوتین جما عتیں تشہیری مہم پرکافی رقوم خرچ کررہی ہیں۔

بتایا گیا کہ امیدوار انتخابی مہم کے کُل بجٹ کا تقریباً 30 فی صد حصہ تشہیری کام کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔ باقی 70 فی صد انتخابات کے روز کارکنوں یا کرائے کے لوگوں، رائے دہندگان اور پولنگ بوتھس میں موجود اپنے نمائندوں اور سرکاری اہل کاروں کو کھانا کھلانے، رائے دہندگان کو لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ، پولنگ کیمپس قائم کرنے وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔

لاکھوں کا پیکیج اور خوف کا عنصر

طباعت کے کام سے وابستہ اکثر افراد کے بہ قول زمانے کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب زیادہ تر بڑ ی سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر اپنے ا میدواروں کے لیے طباعت کے کاموں کا ٹھیکہ جماعت کی سطح پر بڑے بڑے پرنٹنگ یونٹس کو دے دیتی ہیں۔ قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے چالیس، پچاس لاکھ روپے کے کُل پیکیج کی ڈیل ہوتی ہے۔ ایسے زیادہ تر یونٹس کراچی کے صنعتی علاقوں میں اور چند ایک پاکستان چوک کے ا ردگرد واقع علاقوں میں قائم ہیں۔ ان یونٹس میں ڈیز ا ئننگ، کمپوزنگ، فلم اور پلیٹ بنانے، طباعت، کٹنگ، ڈا ئی کٹنگ، پن لگانے وغیرہ کی سہولتیں ایک چھت تلے موجود ہوتی ہیں۔

پاکستان چوک کے قریب اور کورنگی کے صنعتی علاقے میں واقع ایسے دو یونٹس کے ذمے داران سے گفتگو کی گئی۔ ان افراد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض معلومات فراہم کیں۔ ان کے بہ قول انتخابی کام کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ذمے داران سے ذاتی تعلقات، سفارش اور جماعتی وابستگی کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ اس طرح بعض اوقات لاکھوں اور کروڑوں کے ٹھیکے حاصل کیے جاتے ہیں۔

بڑے یونٹس سیاسی نوعیت کے کام بہت خاموشی سے کرتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ سیاست میں در آنے والا تشدد کا عنصر ہے۔ مخالف امیدواروں کو ایسے کام کی اطلاع ملنے پر کسی یونٹ پر حملہ ہونے سے لے کر انتخابات میں مخالف امیدوار کی کام یابی کے بعد اس کی جانب سے اس یونٹ کے خلاف انتقامی کارروائی تک کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح کا خوف شہر میں چھوٹےپیمانےپر طباعت کا کام کرنے والے بعض افراد نے بھی ظاہر کیا۔ 

ان کے بہ قول وہ حالات کو دیکھ بھال کر سیاسی نوعیت کا کام کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔ اس ضمن میں جان پہچان کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے بہ قول ماضی میں بعض پرنٹنگ پریس پر مخالف امیدواروں کی طرف سے حملوں کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، لہٰذا اب سیاسی نوعیت کا کام پہلے کی طرح کھلے بندوں نہیں کیا جاتا۔

انتخابی مہم اور جدید ذرایع

پہلے امیدوار تشہیر کے لیے ایک رنگ کا پو سٹر ، ہینڈ بل، بینرز وغیرہ بنواتے، دیواروں پر اپنے حق میں تحریر لکھواتے، سائیکلواسٹائل مشین کی مدد سے تیار کردہ پمفلٹس تقسیم کرتے اور لوہے کی چادر کو کاٹ کر بنائے گئے اسٹینسلز سے دیواروں پر ایک رنگ سے اپنے حق میں نعرے چھپواتےتھے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے خصوصاً بڑے شہروں میں انتخابی مہم کا رنگ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ہاتھ کی لکھائی والے بینرز کم ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ اسکرین پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی سے تیار کیے گئے بینرز نے لے لی ہے۔

جو امیدوار مالی طور پر نسبتاً زیادہ مستحکم ہوتے ہیں، وہ اسکرین پرنٹنگ کے بجائے پینافلیکس ٹیکنالوجی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم کے لیے سوشل میڈیا ،کیبل ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز کی بھی مدد لی جاتی ہے۔ کمپیوٹر عام ہونے کی وجہ سے اب گلیوں اور محلوں میں بہت سا تشہیری مواد کمپیوٹر کی مدد سے طبع ہو جاتا ہے۔ نسبتاً کم ترقی یافتہ یا دور دراز علاقوں میں فوٹواسٹیٹ مشین سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ موبائل فون نے بھی بعض مراحل آسان کر دیے ہیں۔

ان دنوں ملک میں ماضی کی نسبت کم انتخابی گہما گہمی نظر آتی ہے،حالاں کہ انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ کئی دیگر وجوہات کے ساتھ اس کی ایک اہم وجہ امیدواروں کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بھرپور استعمال بھی بتایا جاتا ہے۔ آج دیہات ہوں یا شہری علاقے، امیدواروں کے لیے اپنا پیغام پہنچانے اور الیکشن مہم کو چلانے کا تیز ترین ذریعہ سوشل میڈیا ثابت ہو رہا ہے۔

اسی وجہ سے روایتی تشہیر کا انداز، جس میں پوسٹرز، بینرز،پمفلٹس شامل ہیں، کم دکھائی دیتے ہیں، مگر ہر جماعت اور امیدوار سوشل میڈیا پر فعال ضرور دکھائی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مہم کی وجہ یہ بھی ہے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 18 کروڑ 90 لاکھ موبائل کنکشنز ہیں۔ موبائل فون استعمال کرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق تقریبا ہر گھر اور ہر ووٹر کے پاس موبائل فون موجود ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے سوشل میڈیا اور موبائل کے ذریعے پیغام رسانی زیادہ فائدہ مند ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ووٹرز کی کل تعداد12کروڑ 85 لاکھ سے زاید ہے۔

سنگاپورمیں قایم ادارے ’’ایمپاورنگ آرگنائزیشن ٹو اسکیل گلوبلی‘‘کے مطابق پاکستان میں فعال سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سات کروڑسےزیادہ ہے اور2021 کے مقابلے میں پاکستان میں ان صارفین کی تعداد میں چار فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چار کروڑ سے زاید پاکستانی فیس بک استعمال کرتے ہیں جن میں مردوں کے 77 فی صد سے زیادہ اور خواتین کے اکاؤنٹس 22فی صد ہیں۔ اسی طرح مذکورہ ادارے کے رپورٹ کے مطابق انسٹاگرام پر پاکستانی صارفین کی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ہےجن میں مرد65فی صد ہیں۔ ٹک ٹاک پر پاکستانی صارفین کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافے سے پاکستانی میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے اب اشتہاری مہمات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی چلائی جا رہی ہیں جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے آفیشل اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں۔ روایتی ٹی وی اور اخبارات میں سیاسی مہمات کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے قوانین تو وضع کیے گئے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات کے لیے کوئی قانون پاکستان میں موجود نہیں ہے۔