• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک پاکستان اور چین کی دوستی کی معراج کی حیثیت رکھتا ہے، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے ترقی، امن اور استحکام کے راستے کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ 10سال کے دوران اس منصوبے کے تحت چین پاکستان میں 29ارب ڈالر سے زیادہ کی براہ راست سرمایہ کاری کر چکا ہے چینی وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق سی پیک کے تناظر میں، ایک جمع چار کے تعاون کا خاکہ تشکیل دیا گیا ہے،جس کے مرکزمیں سی پیک، گوادر پورٹ، ٹرانسپورٹ کا بنیادی ڈھانچہ، توانائی اور صنعتی تعاون کے 4اہم شعبے شامل ہیں۔ چینی انڈسٹری کی پاکستان منتقلی کا معاملہ پاکستانی حکومت اور بیورو کریسی کی نااہلی کی نذر ہو چکا ہے جس کی ڈیڈ لائن 2022تھی، اس کے باوجود سی پیک فریم ورک کے تحت منصوبوں سے 192000ملازمتیں پیدا ہوئیں، 6ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی گئی، 510کلو میٹر ہائی ویز کی تعمیر اور 886کلو میٹر کا نیشنل ٹرانسمیشن نیٹ ورک مکمل کیا گیا۔ سی پیک فریم ورک کے تیسرے اجلاس میں تعاون کے نئے شعبے بھی تلاش کئے گئے تھے جن میں زراعت اور سائنس و ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور عوام کی بہبود سمیت دیگر شعبے شامل تھے۔ اب چوتھے اجلاس میں نہ صرف طے شدہ شعبوں کی منظوری دی گئی ہے بلکہ اس میں چینی صنعت کی پاکستان منتقلی کو دوبارہ شامل کر لیا گیا ہے۔ اس مقصد کی خاطر اسٹیل ملز کی 10ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل انڈسٹریل پارک کے لئے اقدامات پہلے ہی شروع کئے جا چکے ہیں۔ زراعت کی ترقی کے لئے مشترکہ منصوبوں سے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس میں فراہمی آب سے لے کر تعلیم و فنی تربیت اور ہنر مندی تک کے منصوبے شامل ہیں اس منصوبے کے ثمرات سے صرف پاکستان نہیں ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سمیت پورا خطہ مستفید ہو گا اس عظیم منصوبے کے تحت ملک بھر میں 9اسپیشل اکنامک زونز میں نہ صرف ٹیکنالوجی کی منتقلی ممکن ہوگی بلکہ صنعتی اشتراک عمل اور مقامی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔زراعت کی ترقی کے مشترکہ منصوبوں سے غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنا یا جا سکے گا۔ سی پیک کے مزید جن منصوبوں پر اتفاق کیا گیا ہے ان پر اگر کام ماضی کی طرح نالائقی کا شکار نہ ہوا تو نہ صرف زراعت،صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں انقلاب آئے گا بلکہ پاکستانی نوجوانوں کو روزگار کے بیش بہا مواقع بھی میسر آئیں گے۔پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی اور برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ سی پیک اجلاس میں معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری سے متعلق اقدامات پر اظہار اطمینان کیا گیا ہے تاہم ضروری امر یہ بھی ہے کہ نئی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف سی پیک بلکہ ملک میں جاری ہر ترقیاتی منصوبے کی تکمیل میں حائل کسی بھی طرح کی رکاوٹ فوری طور پر دور کر کے بروقت تکمیل یقینی بنائی جائے۔ اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے زرعی شعبہ کو ہوگا۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے ایڈوانس ٹیکنالوجی میں چینی سائنس دان اناج گرین سپر چاول اور اعلیٰ پیداوار دینے والے گنے اور روئی کی ترقی کے لئے بھی کام کر رہے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں مقامی کاشت کے لئے فصلیں دستیاب ہوں گی جس سے ملک میں زراعت کے شعبے پر انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ کی ملاقات میں پاک چین تزویراتی شراکت داری کے عزم کو دہرایا گیا اور دو طرفہ دفاعی تعاون بڑھانے پر غور کیا گیا۔چینی نائب وزیر خارجہ کا بیان تھا کہ پاکستان اور چین آزمائے ہوئے اہم شراکت دار ہیں۔ پاکستان کی علاقائی امن اور استحکام کیلئے کوششیں قابل تحسین ہیں۔ چینی نائب وزیر خارجہ کا یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کچھ روز پہلے پاکستان اور ایران تعلقات کی کشیدگی کا سامنا کر چکے ہیں ۔دونوں ممالک کے چین کیساتھ یکساں گہرے تعلقات ہیں۔ چنانچہ یہ صورتحال قدرتی طور پر ایک مخلص دوست اور اعلیٰ قوت کیلئے باعث ترددتھی۔ چین کی جانب سے بلا تاخیر اس صورتحال میں طرفین کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی گئی اور بعد ازاں ثالثی کی پیشکش بھی۔ 2برادر ممالک میں پیدا ہونے والا یہ نزاع خوش اسلوبی سے سلجھ گیا، اس میں دوست ممالک کا اہم کردار ہے ۔چین کیساتھ معاشی شراکت داری کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاک چین اقتصادی راہداری قابل ذکر منصوبہ ہے، جس کے بنیادی ڈھانچے کے زیادہ تر منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، تاہم معاشی پیداواری شعبے بدستور توجہ کے متقاضی ہیں۔ صنعتی شعبے میں چینی سرمایہ کاری اور تکنیکی تجربے سے استفادہ کرنا ملک میں صنعتی فروغ کیلئے ناگزیر ہے۔ صنعتکاری میں یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان سرگرمیوں کا پھیلائو اس طرح سے ہو کہ ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کو کام کی تلاش میں بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کی کم ضرورت پیش آئے۔ صنعتکاری کی بات کرتے ہوئے زراعت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ زراعت جو ایک روایتی پیشہ تصور کیا جاتا تھا مگر جدید صنعتوں، مشینوں، دوائوں اور کاشتکاری کے بدلتے ہوئے طریقوں کی بدولت ایک ابھرتی ہوئی اور نمایاں طور پر منافع بخش صنعتوں میں شامل ہے۔ اگرمذکورہ سہولتیں ،وسائل اور تربیت نہ ہو تو زراعت یقیناً روایتی پیشہ ہی رہے گی۔خوش آئند امر یہ ہے کہ ملک میں کارپوریٹ فار منگ کا کلچر بھی فروغ پذیر ہے ۔اس سے نئی مہارتیں بھی ملک میں متعارف ہوں گی اور زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ان اشیا کی برآمدات بھی بڑھیں گی۔چین اس سلسلے میں بھی ایک مثال ہے جس سے سیکھا جاسکتا ہے اور برآمدات میں اضافے سے حکومتی آمدنی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ یہ ایسے امور ہیں جس میں ہم خطے کے دیگر مد مقابل ممالک سے پیچھے ہیں، اس لئے ہمیں دہری رفتار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین